تینتیسویں قسط۔ ۔ ۔بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی تاریخ
دیگر افغان: یہ خاندان و قبائل تو معلوم و مشہور ہیں اور کتنے ہی خاندان تھے جو ہندوستان پاکستان کے دور دراز علاقوں میں پھیل گئے اور جہاں گئے اور آباد ہوئے وہیں کا رہن سہن، زبان اور معاشرت اختیار کر لی اور رفتہ رفتہ اسی زندگی کا ایک حصہ بن گئے۔ لیکن ظاہر ہے اس سے ان کی نسل اور قومیت پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا تھا اور محض اس وجہ سے کہ وہ اپنی آبائی و قومی زبان بھول چکے تھے اور ایک نئی زبان بولنے لگے تھے انہیں افغانوں اور اسرائیل کی روایت اور تاریخ سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے باوجود کہ ان میں بہت سی مقامی خوبیاں پیدا ہوگئی تھیں وہ اپنے قومی اور نسلی خصائص سے محروم نہیں ہوگئے تھے۔ ان کی زندگی کے طور طریقوں اور ان کے عادات و خصائل میں بنی اسرائیل کے خصائل کی جھلک دیکھی جا سکتی تھی۔ پٹھانوں کے یہ خاندان پورے ہندوستان پاکستان میں نہ صرف پھیلے ہوئے تھے بلکہ ان کی اپنی مستقل آزاد ریاستیں قائم تھیں مثلا رام پور، جادرہ، بلاس نور، ٹونک، مالیر کوٹلہ، پٹودی، دوجانہ، کرنال و کنج پورہ، بھوپال بہاؤنی، مانا دور ، جونا گڑھ، پالن پور، ورادھن پور ریاستیں۔ ان کے علاوہ گجرات کاٹھیاواڑ، سادانور مدارس، بریلی، مرادآباد، نجیب آباد، خووجہ ، شاہجہانپور، فرخ آباد، قصور، ممدوت، جالندھر و ہوشیارپور کی بارہ بستیاں ، ملتان، میانوالی وغیرہ اور ہندوستان پاکستان کے تقریباً تمام صوبوں میں ان کی سیکنڑوں مستقل ریاستیں اور جاگیریں تھیں جہاں کے لوگ اپنی تہذیب و معاشرت رکھتے تھے لیکن قومی نسلی لحاظ سے وہ پٹھان تھے۔
بتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
لاہور۔۔۔ہندو شاہیہ کا دارالسلطنت
افغانوں کی تاریخ کے سلسلے میں لاہور کا ذکر بار بار آیا ہے موجودہ دورکے تقریباً تمام مورخین نے ہندوشاہیہ اور ان کے بعد غزنویوں کے دارالسلطنت کی حیچیت سے پھر سلاطین غور کے ہندوستان پر حملوں کے سلسلے میں نیز حضرت داتا گنج بخش کی ہندوستان میں تشریف آوری اور ہندوستان میں ان کے اولین جائے قیام کے سلسلے میں لاہور کا ذکر کیا ہے۔ اگرچہ تاریخ فرشتہ تاریخ ابن خلدون البیرونی کی کتاب الہند وغیرہ میں جہاں لاہور کا نام آیا ہے اس کے ساتھ اس کے قرب و جوار کے متعدد مقامات، دریاؤں حتیٰ کہ پہاڑی سلسلے کا ذکر بھی آیا ہے اور اگر کسی نقشے کو سامنے رکھ کر تھوڑی سی توجہ بھی دی جائے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ لاہور سے مرادکون سا شہر ہے؟ آیا وہ ہندو شاہیہ کا دارالسطنت گندھارا والا لاہور ہے یاپنجاب کا موجودہ مشہور و معروف شہر ہے۔ لیکن اس سلسلے میں چونکہ موجودہ عہد کے مورخین نے توجہ نہیں کی اس لئے انہوں نے اس بحث کو جو ایک صاف اور بالکل واضح تھی کسی قدر الجھا دیا ہے۔ وہ تاریخی طور پر لاہور کی قدامت کا ذکر کرتے ہیں لیکن نتیجہ تاریخ و حقائق کے خلاف نکالتے ہیں اور اشارہ لاہور پنجاب کی طرف کر دیتے ہیں اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے ایک عظیم تاریخی گمراہی کا دروازہ کھل جاتا ہے۔
مگرہم ان حقائق سے پردہ اٹھا دینا چاہتے ہیں جن سے قدیم لاہور کی اصلیت واضح ہو جائے اور تاریخ کے ہر قاری اور ہر طالب علم کو معلوم ہو جائے کہ ہندو شاہیہ اور ان کے بعد غزنوی سلاطین کے دارالسلطنت لاہور سے کون سا شہر مراد ہے ا ور سلاطین غزنوی و غوری کے حملوں کے سلسلے میں جس لاہور کا ذکر آتا ہے وہ کون سا شہر ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ لاہور کے محل وقوع اور اس پر مذکورہ حملوں کے راستے اور دریا کو عبور کرنے کے مقام پر بشمولہ نقشے میں بھی ایک نظر ڈالی جائے تاکہ قارئین کو اس باب میں کوئی شک باقی نہ رہ جائے کہ تاریخ میں مذکورہ لاہور سے مراد کون سا شہر اور مقام ہے۔
تاریخ فرشتہ نے بھی اس تاریخی واقعہ پر روشنی ڈالی ہے اور صاف الفاظ میں بیان کر دیا ہے کہ د ریا سے مراد آب سندیا دریائے سندھ ہے۔ اس نے اپنی تاریخ میں متعدد مقامات پر ان واقعات کا ذکر ہے۔ یہاں ہم نے ان تمام تفصیلات کو مرتب کر دیا ہے۔ چنانچہ مصنف تاریخ فرشتہ لکھتا ہے کہ:
(۱) ہر چند کہ امیر سبکتگین نے آب نیلاب عبور نہ فرمایا اور پنجاب کی حکومت پر فائز نہ ہو سکا۔ لیکن بعض مورخین اسے سلاطین لاہور کے سلسلہ میں منسلک کرتے ہیں وہ ۳۶۷ھ میں دیار ہند کی طرف متوجہ ہوا اور چند قلعے مفتوح کرکے جابجا مسجدیں تعمیر فرمائیں۔ اور تاخت و تاراج سے غنائم وافر اپنے تصرف میں لایا اور غزنین کی طرف مراجعت کی اورجے پال بن است پال جو براہمن تھا اور ولایت لاہور کو سرہند سے لمغان تک اور کشمیر سے ملتان تک اپنے قبضہ و تصرف میں رکھتا تھا سے جنگ کی۔ سبکتگین نے نہر نیلاب کے ساحل تک جے پال کا تعاقب کرکے قتل و خونریزی میں تقصیر نہ کی اور مال غنیمت لے کر ولایت لمغان و پشاور اور نہر نیلاب کے کنارہ تک اس کے عمال کی تصرف میں آئی۔ فتح نمایاں کے کے بعد ایک امیر کو دو ہزار سوار دے کر پشاور میں متعین کیا۔
(۲) سلطان محمود غزنوی نے ۴۱۲ھ میں اپنے لشکر کو لاہور کے اطراف میں تاخت و تاراج کے واسطے بھیجا۔ اس مرتبہ جے پال کا پوتا ضعیف اور زبون ہوا تھا۔ سلطان بلدہ لاہور پر قابض ہوا اور ایک امیر کے سپرد کیا۔ خطبہ اس ملک میں اپنے نام کا پڑھوایا اور ابتدائے بہار میں غزنین لوٹ گیا۔
(۳) سلطان مسعود جب لاہور میں آیا تو اپنے فرزند ’’مجدود‘‘ کو وہاں کا حاکم کرکے طبل و علم عطا فرمایا اور ایاز خاص کو اس کا تابک یعنی ادب آموز و اتالیق کیا اور خود غزنین لوٹ گیا۔ کچھ عرصہ بعد سلطان مسعود نے شہزادہ مجدود کو جو لاہور سے غزنی آیاہوا تھا حکم دیاکہ دو ہزار فوج لے کر ملتان کی طرف جاوے اور اس حدود کے انتظام میں مشغول ہو اس دوران سلطان مسعود اپنے باپ سلطان محمود کے تمام خزانے جو قلعوں میں تھے۔ غزنین میں لایا اور اونٹوں پر لاد کرلاہور کی طرف روانہ ہوا۔ اور اس اثناء راہ سے کسی کو اپنے بھائی محمد کو قلعہ سے لانے کو بھیجا (جو وہاں ان کے ہاتھوں اندھا کیا ہوا اور قید تھا) اور جب مسافر خانہ ماکلہ میں شاہی قافلہ پہنچا تو لشکریوں نے دریا سے پار ہوتے وقت شدت پانی اور اس سے تکلیف پہنچنے کا بہانہ بنا کر خزانہ شاہی کو لوٹ لیا اور سلطان مسعود کے بھائی’’محمد‘‘ کو جو اندھا اور قیدی تھا بادشاہ بنایا اور مسعود پر حملہ کر دیا۔ وہ اس رباط یعنی مسافر خانہ میں قلعہ بند ہوگیا۔ رباط ماکلہ کے اندر سے اسے گرفتار کرکے سلطان محمد کے روبرو لے گئے۔ محمد نے مسعود سے کہا کہ میں تمہارے قتل کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اپنے و اسطے کوئی جگہ اختیار کرو کہ تم مع حرم اور اپنی اولاد کے ہواں بود و باش کرو۔
مسعود نے قلعہ گیری کو پسند کیا۔ کہتے ہیں کہ وہ اس حصار کی طرف روانگی کے وقت مصارف ضروری سے محتاج ہوا۔ محمد کے پاس ایلچی بھیج کر کچھ خرچ طلب کیا۔ محمد نے پانچ سو درم اس کے واسطے بھیجے۔ سلطان مسعودنہایت متاثر ہوا اور کہا کہ سبحان اللہ کل کے روز اسی وقت میں تین ہزار شتر(اونٹ) خزانہ کامالک تھا اور آج ایسے حال میں گرفتار ہوں۔ محمد کی آنکھ اس کی نور سے بے نصیب تھی۔ سلطنت اپنے بیٹے احمد کو تفویض کی اور احمد نے اپنے باپ کے بے مشورہ قلعہ گیری میں جا کر ۴۳۳ھ میں مسعود کو قتل کردیا۔
(۴) مودودبن سلطان مسعود کو بلخ میں سکونت رکھتا تھا۔ اس واقعہ سے مطلع ہو کر غزنی آیا پھر غزنی سے لاہور روانہ ہوا۔ محمد نے اپنے ایک چھوٹے بیٹے کو سپہ سالار پشاور اور ملتان کا مقرر کرکے خود آباد سند(دریائے سندھ) کے کنارے سے مودود کے مقابلہ کے لئے چلا۔ دشت دیبور (بادنبور) میں چچا اور بھتیجے کے درمیان قتال شعلہ زن ہوا۔ خلاصہ یہ کہ فتح مودود کو ہوئی اور محمد مع اپنے فرزندوں اور وزیروں کے قتل کر دیا گیا۔ القصہ مودود جب قاتلان پدر کے انتقام سے فارغ ہوا۔ تو اس گاؤں میں کہ جہاں اس کو فتح حاصل ہوئی تھی ایک اقریہ اور ایک رباط یعنی مسافر خانہ تیار کرکے اس کا نام فتح آباد رکھا اور تابوت اپنے باپ اور بھائیوں کا قلعہ گیری سے غزنی میں روانہ کیا اور خود بھی غزنی کی طرف متوجہ ہوا۔ مودود کو کچھ اندیشہ سوائے چھوٹے بھائی مجدود بن مسعود کے نہ رہا کہ وہ باپ کے قضیہ کے بعد ملتان سے لاہور میں گیا اور ایاز خاص کی اعانت سے آب سند سے ہانسی اور تھانیسر تک استقلال بہم پہنچایا۔ پھر اسی سال مودود نے ایک لشکر جرار اس کے دفع کے واسطے رخصت فرمایا اور مجدود اس امر سے خبردار ہوا۔ قریب تھا کہ اس کی صلابت کے خوف سے مودود کی فوج میں تفرقہ پڑ جاتا اور اکثر امرائے غزنین اس کی ملازمت میں مشرف ہوں۔ لیکن ناگاہ ۴۳۳ھ میں عید قربان کی صبح کو مجدود اپنی خوابگاہ یعنی خیمہ میں مردہ ملا اور کیفیت اس ناگاہ موت کی ہرگز دریافت نہ ہوئی اور ایاز نے بھی چند روز میں وفات پائی اور حکومت لاہور بلا جنگ وجدل سلطان مودود کے متعلقین کے تصرف میں آئی۔‘‘(جاری ہے)
چونتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔