فضائی قوت: ہماری محسن (2)

انسان نے آج تک جن بھی عظیم دیوی دیوتاؤں کا ذکر کیا ہے ان میں فضائی قوت کا تذکرہ ناگزیر رہا ہے۔ قدیم قصے کہانیوں میں آپ نے پڑھا ہوگا کہ انسان نے ہمیشہ فضا میں اڑنے کی تمنا کی ہے۔ اس انسان نے فضا میں اڑتے پرندوں کو دیکھا تو ہمیشہ آرزو مند رہا کہ کاش وہ بھی ان کی طرح ان وسیع و عریض کھلی فضاؤں میں اڑ سکتا اور جہاں چاہتا چلا جاتا۔ لیکن انسان ہمیشہ پیوستہ بہ زمین رہا۔ اقبال نے بھی ”پیامِ مشرق“ میں شیخ سعدی کا یہ شعر کوٹ (Quote) کیا ہے:
ندادند بال آدمی زادہ را
زمیں گیر کردند ایں سادہ را
ترجمہ: ”خدا نے انسان کو بال و پر عطا نہیں کئے اور اس سادہ انسان کو ہمیشہ پیوستہ بہ زمیں رکھا“
انیسویں صدی کے آغاز میں انسان نے گرم ہوا کے غبارے بنائے اور ان میں بیٹھ کر فضا میں چلا گیا۔ لیکن ان غباروں کو وہ جس طرف موڑنا چاہتا،نہیں موڑ سکتا تھا بلکہ یہ غبارے ہواؤں کے رحم و کرم پر رہا کرتے تھے۔ ہوائیں جس سمت چلتیں، یہ غبارے بھی اسی طرف جانے اور اڑنے پر مجبور ہوتے۔
پھر بالآخر انسان اس قابل ہو ہی گیا کہ فضا کو اپنی مرضی کے مطابق مسخر کرلے۔ یہ کارنامہ اس نے ہوائی جہاز کی ایجاد کی مدد سے حاصل کیا۔ اس ایجاد نے ایک اور کام یہ بھی کیا کہ مختلف اقوام کے درمیان خونریز معرکے انہی ہوائی جہازوں کی مدد سے لڑے جانے لگے۔ پھر اس نے جوہری بم بنائے اور گویا سورج کی شعاعوں کو گرفتار کرلیا۔ جوبربادی سورج کی تیز اور نزدیکی شعاعیں انسان پر وارد کر سکتی تھیں، وہی بربادی اس جوہری بم نے انسان کی ”جھولی“ میں لا ڈالی۔آج صورتِ حال یہ ہے کہ انسان نے چاند پر پڑاؤ ڈال لیا ہے اور مریخ کا نظارا بھی کرلیا ہے۔ اب وہ سورج کی طرف جانے کی آرزو میں اپنے جوہری پروں کو استعمال کرنے کا سامان کر رہا ہے۔
قوتِ پروازکی اس اہلیت نے جو آج کے انسان کو حاصل ہو گئی ہے، اس کے توسط سے اس نے بنی نوعِ انسان کی بہت سی تدبیروں کو گویا تقدیروں میں تبدیل کرنے کی ٹھان لی ہے یعنی دوسرے لفظوں میں اس فضائی قوت نے تاریخِ انسانی میں ایک بالکل نئی اہمیت کا باب وا کر دیا ہے۔ ایروسپیس ٹیکنالوجی کی ترقی بے لگام ہوتی نظر آ رہی ہے۔ یہ قوت، دن بدن روبہ ترقی ہے اور اس کے خاتمے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
سترہویں صدی کے ایک پادری نے جس کا نام فرانسسکو لانا (Lana) تھا، بڑی تفصیل سے لکھ دیا تھاکہ اس فضائی قوت کا انجام کیا ہوگا۔
یہ ایک عجیب و غریب پیشگوئی تھی۔ فضائی قوت تو 1903ء میں دریافت ہوئی لیکن 17ویں صدی میں یہ لکھ دینا کہ اگر یہ فضائی قوت انسان نے دریافت کرلی تو اس کے عسکری استعمالات اتنے انوکھے ہوں گے کہ ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، ایک حیران کن بات ہے۔17دسمبر 1903ء میں کٹی ہاک (شمالی کیرولینا) میں رائٹ برادرز کی ایجاد سے لے کر 1945ء میں ہیروشیما پر جوہری بمباری تک کا سفر صرف 42برسوں میں طے ہو گیا!……
یہ ایک ناقابلِ تصور حقیقت تھی۔ جب 2025ء میں یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو ہیروشیما پر بمباری کو 80برس ہو چکے ہیں۔ ان برسوں کے دوران انسان نے فضائی قوت کے بہت سے دوسرے انقلابی مرحلے بھی طے کرلئے ہیں،1903ء سے لے کر 2025ء تک 122برس گزر چکے ہیں۔ انسانی تاریخ میں یہ عرصہ کوئی زیادہ بڑا اور طویل عرصہ نہیں لیکن اس عرصے میں ہوائی جہاز نے رینج، رفتار، فضاء میں بلندی اور طیارے میں وزن اٹھانے کی اہلیت نے جو ترقی کی ہے، وہ بہت حیرت انگیز ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے ملکوں کے سیاست دانوں نے جنگ اور امن کے حیرت ناک تصورات کو جنم دیا ہے اور ان تصوررات کی اساس بہت حد تک فضائی قوت پر مبنی ہے!
آج فضائی قوت کا دار و مدار جس طیارے پر منحصر ہے اس کو مختلف ملکوں نے مختلف نام دے رکھے ہیں، یہ نام بظاہر صرف نام معلوم ہوتے ہیں لیکن ان کے ”کام“ کی طرف دھیان دینا ہو تو آج کی روس۔ یوکرین جنگ کو دیکھ لیں۔ اس کو صرف تین برس کا عرصہ گزرا ہے۔ اس مدت میں ماسوائے روس کے، نہ تو امریکہ براہِ راست ملوث ہے اور نہ چین۔یہ دونوں عالمی طاقتیں (امریکہ اور چین) اس جنگ سے بظاہر دور ہیں لیکن ان کو معلوم ہے کہ اگر وہ اس تنازعے میں شریک ہو گئیں تو ”عالمی عسکری بساط“کی ڈولتی ناؤ کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔
آج دنیا کے پانچوں براعظموں کا کوئی بھی حصہ ایسا نہیں جہاں تک ہوائی جہاز کی رسائی نہ ہو…… آج کی دنیا کا طاقتی توازن جس ایک ”جنگی ہتھیار“ پر منحصر ہے وہ ہوائی جہاز ہے جس کو ”مختصر جدید لفظوں“ میں فضائی قوت کہا جا سکتا ہے۔ آج دنیا کی کوئی قوم یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ وہ فضائی قوت کی تباہ کن اہلیتوں کا کوئی موثر توڑ کر سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد 80برس تک عالمی امن برقرار نہ رہ سکتا!
صورتِ حال یہ ہے کہ آج دنیا کی تینوں بڑی قوتیں (امریکہ، روس، چین) ایک دوسرے سے خوفزدہ ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ اگر جنگ کی کوئی چنگاری عالمی فضائی قوت کے خرمن تک پہنچ گئی تو ان کا اپنا انجام کیا ہوگا۔
آج یہ فضائی قوت، بڑی عالمی اقوام کو بچائے ہوئے ہے۔ اگر یہ قوت نہ ہوتی تو امریکہ جیسا ملک، یوکرین میں مداخلت کرنے سے باز نہیں رہ سکتا تھا۔ اس نے دیکھ لیا ہے کہ یورپی اقوام جویوکرین کی پشت پناہی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہیں تو پھر بھی وہ روس کو نیچا نہیں دکھا سکتیں۔
امریکی صدر ٹرمپ کی روس کے صدر پوٹن کے ساتھ صلح جوئی کی باتیں ایک ایسا ثبوت ہے کہ جو بظاہر بہت سے عسکری نقادوں کے لئے ایک معمہ ہے لیکن ٹرمپ کو معلوم ہے کہ اگر سپرپاورز کی باہمی کشمکش جاری رہی تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔دنیا نے پہلے دو عالمی جنگوں کا نتیجہ دیکھ لیا ہے۔ پہلی عالمی جنگ میں گو جرمنی کو عبرتناک شکست ہو گئی تھی لیکن اسی ایک ملک نے صرف 21برس کے بعد ایک دوسری عالمی جنگ کا آغاز کر دیا تھا۔ اس جنگ میں صرف امریکہ فاتح تھا اور باقی اتحادی اقوام بظاہر فاتح تھیں لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ وہ دراصل عسکری اور اقتصادی اعتبار سے اندر سے کھوکھلی ہو چکی تھیں۔
دوسری عالمی جنگ کا فیصلہ تو ایٹم بم نے کردیا تھا لیکن آج اگر تیسری عالمی جنگ شروع ہو گئی تو اس کا فیصلہ کون سا ’بم‘کرے گا؟…… یہ سوال ایک ایسا سوال ہے جو دنیا کی تمام چھوٹی بڑی طاقتوں کو پریشان رکھتا ہے لیکن اسی سوال نے دنیا کو تیسری عالمی جنگ سے محفوظ بنایا ہوا ہے۔ (ختم شد)