پہلی بار بس سے گاؤں گیا،سائیکل پر ابا جی کیساتھ گاؤں کو روانہ ہوا تو لگا دیو انند کی گائیڈ دیکھ رہا ہوں، حد نظر لہلہاتے کھیت دیکھ کر میں بھی جھوم اٹھا

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:143
گاؤں کا پہلا سفر؛
پہلی بار بس سے گاؤں گیا تھا۔ٹوبہ ٹیک سنگھ شہر سے سائیکل پر ابا جی کے ساتھ گاؤں کو روانہ ہوا تو لگا دیو انند کی گائیڈ دیکھ رہا تھا۔ حد نظر جھومتے لہلہاتے کھیت دیکھ کر میں بھی جھوم اٹھا تھا۔ ابا جی مجھے کھیتوں میں لگی مختلف فصلوں کے بارے بتا تے رہے اور مختلف قسم کے درخیوں کی پہچان سمجھا تے رہے تھے۔ مجھے دھندلا سا یاد ہے گندم کے سنہرے خوشے کٹنے کو تیار تھے۔ گاؤں کے کچے راستوں پر دھول مٹی اڑاتی بیل گاڑیاں (گڈے)، کمہار کے گدھے، مہمانوں کے لئے پکتا دیسی مرغی کا سالن، کچی ہنڈیوں میں پکتے ساگ، چولہے سے اٹھتی دیسی گھی کے پراٹھوں کی خوشبو، مکئی کی روٹی،گڑ، شکر،پر خلوص بھائی چارے میں بندھے لوگ۔ یہ سب اُس دیہی معاشرے کی سوغات تھیں۔ ترقی نہیں تھی لیکن گاؤں واسی خلوص، مروت میں بندھے تھے۔اب ترقی ہے،پختہ سڑکیں ہیں لیکن لوگ اجنبی ہو گئے ہیں۔گاؤں بھی اب افراتفری، نفسا نفسی اور بے چینی ہیں۔ ڈیرے اجڑ گئے ہیں، نئے زمانے نے یہاں کے خلوص اور بھائی چارے کو نظر لگا دی ہے۔ کھیت سکڑ گئے ہیں ان کی جگہ ہاؤسنگ سکیموں کے بورڈ نظر آ نے لگے ہیں۔ ماضی میں گاؤں کا آلودگی سے پاک ماحول آج ہر طرح کی آلودگی کا شکار ہو چکا ہے۔
بنٹے والی بوتل؛
اس زمانے کی ایک اور اچھی بات یہ تھی کہ کوئی احساس کمتری نہ تھا۔ لوگوں میں قناعت پسندی تھی۔ سچ بولتے اور ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے تھے۔ لالچ نہ ہونے کے برابر تھا۔ ایک دوسرے سے ہمدردی تھی۔ شکوہ شکایت کم ہی زبان پر لاتے تھے۔ ویسے بھی شکوے شکائیتوں سے زندگی بسر نہیں کی جا سکتی۔ در گزر کی عادت تھی۔ ماں ہر دور کی ذمہ دار اور محبت کرنے والی شخصیت تھی اور سارے خاندان کو تسبیح کے دانوں کی طرح پرو ئے ر کھتی تھی۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ اس زمانے کے بڑے بزرگ بھی خاندان کو اکٹھاکرنے میں اپنا کردار بغیر طرف داری کے ادا کرتے تھے۔ مجال ہے ان کے سامنے کوئی بولنے کی جرأت کرے۔ ان کا فیصلہ حرف آخر اور اکثر انصاف پر ہی مبنی ہوتا تھا۔ کسی کی دل آزاری والی بات نہ تھی۔ آپس میں پیار تھا محبت تھی۔ رشتوں کی قدر تھی، حیا تھی۔ یہی وجہ ہے کہ خاندانی نظام مضبوط تھا۔ غربت کے باوجود زندگی پرسکون اور معاشرے میں امن تھا۔ابھی پیپسی، کوک، مرینڈا کا دور نہ تھا۔ بنٹے والی پیلے، سبز، لال رنگ کی بوتل ملتی تھی۔ اس کا ذائقہ خوشبودار اور زبان کو اچھا لگتا تھا۔ چار آنے اس کی قیمت تھی اور صرف مہمانوں کے لئے منگوائی جاتی تھی۔ بوتل کھلنے کی ”ٹھاہ“ کی آواز بھی بھلی لگتی تھی۔ کبھی چار آنے مل جاتے تو ”ومٹو“ کی بوتل بڑی عیاشی ہوتی تھی۔”مرونڈا“ رنگ برنگی ”ٹاکری“(مٹھائی کی سستی قسم) بچے شوق سے کھاتے تھے۔ مرونڈا آج بھی ہے لیکن بچے اب اسے غیر صحت بخش سمجھتے ہیں۔ اس دور میں دیہاتی ٹافی کو ”مچھی“ کہتے تھے اور یہ آنے کی چار مل جاتی تھیں۔سردیوں میں گرم گرم دودھ جلیبی بھی بڑی عیاشی تھی۔ ”مونگ پھلی اور ملوک“ غریبی خشک میوہ جات تھے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔