جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر62
’’کیا انکل بیگ اور آنٹی کو بھی معلوم ہو چکا ہوگا؟‘‘یہ سوچ بھڑکتی چنگاری جیسی تھی۔ چونکہ ان کا گھر ہم سے زیادہ دور نہ تھا اور ایسی بات توجنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ کیسے کیسے مہربان اور شفیق لوگوں کا ساتھ مجھے میسر رہاتھا کہ مجھے ایک دن بھی اجنبیت کا احساس نہ ہوا۔ اگربات ان کے علم میں آگئی اور انہوں نے یہاں آکرمجھے اس حالت میں دیکھ لیا تو کیا سوچیں گے؟
سوچوں نے میرے حواس معطل کردیئے تھے۔ میں دعا کر رہا تھا کہ کسی طرح عمران آجائے۔
اب میں رادھا کی آمد سے مایوس ہو چکا تھا۔ اسے آنا ہوتا تو اب تک وہ آچکی ہوتی فاصلے اس کے لئے کوئی اہمیت نہ رکھتے تھے وہ پل بھر میں دنیا کے جس کونے میں چاہتی پہنچ سکتی تھی۔ تو کیا اس نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا؟لیکن اسے کیا ضرورت تھی ایسی بات کہنے کی؟ اسے مجھ سے کیا خوف تھا کہ میرے ساتھ جھوٹا وعدہ کرتی؟ کیا اسے کالی داس نے روک دیا تھا؟ کیاکالی داس سب پر حاوی ہوگیا تھا؟ میں اپنی سوچوں میں اتنا گم تھا کہ عمران کونہ دیکھ سکا جو سلاخوں کے پاس غمگین حالت میں کھڑا تھا۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر61 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’خان بھائی!‘‘میں نے چونک کر دیکھا۔ اس کے احساسات کا اظہار اس کے پرخلوص چہرے سے ہو رہا تھا۔ مجھے اپی طرف دیکھتا پا کر اس نے آہستہ سے کہا۔
’’خان بھائی! یہ سب کیا ہوگیا میں تو سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ کبھی یوں بھی ہو سکتاہے؟‘‘
زمین پھٹ جاتی اور میں اس میں سما جاتا اگر میرے بس میں ہوتا تو کہاں تومیں شدت سے عمران کامنتظر تھا اورجب وہ آیا تو میں شرم کے مارے نظر نہ اٹھا سکا۔ وہ میری کیفیت کو جان گیاتھا۔
’’خان بھائی! مجھے یقین ہے کہ یہ سب کچھ حقیقت نہیں ہے اس میں ضرور کسی کی سازش ہے لیکن باہر جو حالات ہیں ان کو دیکھتے ہوئے میں بہت فکر مند ہوں۔ مجھے جیسے ہی معلوم ہوا میں اسی وقت تھانے آگیا تھا لیکن ڈی سی پی صاحب کی موجودگی میں مجھے اندر نہیں آنے دیا گیا۔ یہ تو تھانہ محرر میرا کلاس فیلو اور دوست ہے اسی وجہ سے آپ سے ملاقات ممکن ہوسکی۔ بہرحال آپ فکر نہ کریں میں کچھ کرتاہوں۔‘‘
’’عمران تم تو جانتے ہو میں کیسا انسان ہوں؟کیا تم سوچ سکتے ہوکہ میں ایسی قبیح حرکت کر سکتا ہوں؟‘‘ میں نے جھوٹ بول کراپنے صفائی پیش کی۔
’’خان بھائی! سب ٹھیک ہو جائے گا میں ابھی آتا ہوں‘‘ کہہ کر وہ سامنے سے ہٹ گیا۔ جتنی شرمندگی مجھے ہو سکتی تھی اس کا اندازہ بھی کوئی نہیں لگا سکتا۔ لیکن یہ حقیقت تھی اور میں اپنے کرتوت کی سزا بھگت رہا تھا ۔مجھے اپنے ایک ایک گناہ یاد آنے لگے۔ اگر میں رادھاکے حسن کو دیکھ کر پاگل اور اندھا نہ ہوا ہوتا تو آج مجھے یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔
’’کہیں ایسا تو نہیں کہ بسنتی نے کالی داس سے مل کر یہ سب کچھ کیاہو؟۔ ہوسکتاہے اسے رادھا کے ساتھ کوئی پرخاش ہو‘‘ مختلف سوچوں نے میرے دماغ کو گھیر رکھا تھا۔ کسی سوال کا جواب میرے پاس نہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد عمران دوبارہ نظر آیا اس بار اس کے ساتھ سادہ لباس میں ایک شخص بھی تھا جس نے کپڑوں کا ایک جوڑا ہاتھ میں تھاما ہوا تھا۔ جیسے کسی اندھے کو آنکھوں کی خواہش ہو سکتی ہے اسی طرح مجھے اس وقت کپڑوں کی ضرورت تھی۔ سادہ لباس والے نے کپڑے اندر پھینک دیئے۔
’’انہیں پہن لو اگر کوئی پوچھے تو کہنا یہیں حوالات کے کمرے میں پڑے تھے‘‘ اتناکہنے کے بعد وہ دونوں سامنے سے ہٹ گئے۔
کپڑے میرے اوپر آگرے، ان سے پسینے کی بدبو آرہی تھی۔ میں نے جلدی سے کپڑے پہن لیے۔ تھوڑی دیر بعد وہی سادہ لباس والا آیا، اسکے ہاتھ میں جوس کا ڈبہ تھا۔ وہ بھی اس نے کپڑوں کی طرح اندر پھینک دیا۔ شاید وہ دروازہ کھولنے پر قادر نہ تھا۔ میں نے جلدی سے ڈبہ کھول کر منہ سے لگا لیا۔ زندگی میں سینکڑوں بار میں نے کئی قسم کے مشروبات پئے ہوں گے لیکن اس وقت جوس کا ڈبہ میرے لئے آب حیات سے کم نہ تھا۔ میرے حواس کچھ بحال ہوئے۔عمران ایک بار پھر سامنے آیا۔
’’خان بھائی!معاملہ بہت بگڑ چکاہے۔سبین ہسپتال میں ہے۔ ڈی ایس پی صاحب خود اسکابیان لینے گئے تھے اس نے سب کچھ انہیں بتا دیا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ وہ کس کے اشارے پر یہ سب کچھ کررہی ہے؟‘‘
میں جیسے زمین میں گڑ گیا۔ جس حالت میں عمران نے مجھے حوالات کے اس کمرے میں دیکھا تھا اسے سو فیصد یقین ہونا چاہئے تھا کہ میں مجرم ہوں لیکن وہ اللہ کابندہ مجھ پر اندھا اعتمادکرتا تھا،ابھی تک وہ یہی سوچ رہاتھاکہ یہ سب کچھ میرے خلاف ایک سازش ہے۔
’’ڈی ایس پی باقر حسین، سبین کے والد کا شاگرد ہے۔ اسنے انہیں یقین دلایا ہے کہ وہ آپ کوکیفرکردار تک پہنچا کررہے گا۔ سبین کا منگیتر فوج میں میجر ہے وہ بھی آپہنچا ہے۔ اسنے قسم کھائی ہے کہ آپکو ساری زندگی جیل سے نکلنے نہیں دے گا ۔ان کے علاوہ خواتین کی ایک تنظیم نے بھی اس معاملے کو اچھالنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔ جسکی صدر میڈم ستارہ کا تعلق اپوزیشن پارٹی سے ہے اور اس قسم کے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتی جس میں اسے حکومت کوبدنام کرنے میں مدد ملے۔ استادہونے کے ناطے سبین کے والد صاحب کی اس شہر میں بہت عزت ہے ۔علاقے کے سرکردہ افراد کے بچے ان کے پاس تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ طلباء نے بھی تھوڑی دیرپہلے جلوس نکالا ہے۔ انہوں نے ٹائر جلاکر سڑک بند کر دی تھی۔ لوگ بری طرح بھپرے ہوئے ہیں جگہ جگہ سے لوگوں کی ٹولیاں جلوس میں شامل ہورہی ہیں۔ میڈم ستارہ کے اکسانے پر خواتین مشتعل ہوکرگھروں سے باہرنکل آئی ہیں۔‘‘
عمران بتارہا تھا مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میری رہائی کی ساری راہیں مسدورہو چکی ہیں۔
’’خان بھائی! میں یہ سب کچھ خدانخواستہ آپ کو اسلئے نہیں بتا رہاکہ میں آپ کومجرم سمجھتاہوں بلکہ میرا مقصد آپ کو حالات کی سنگینی سے آگاہ کرنا ہے۔ آپ فکر نہ کریں مجھ سے جو ہو سکا میں کروں گا‘‘ اس نے مجھے تسلی دی۔ لیکن اس کا لہجہ اعتماد سے خالی تھا ۔اتنا کہہ کر وہ چلاگیا۔ میں جانتا تھاکہ محض طفل تسلی ہے۔ میری بد نصیبی کادور شروع ہو چکاتھا۔ میں سر جھکائے بیٹھا ان حالات پر غورکر رہاتھا جو سراسر میرے خلاف تھے۔ مایوسی بڑھ گئی تھی۔ جب اتنے سارے لوگ میرے خلاف تھے تو اکیلا عمران کیا کر سکتاتھا؟
اس وقت مجھے یہ بھی خیال آیا کہ فوٹو گرافرکا رویہ رادھا کی پراسرار طاقت کاکرشمہ ہوگ لیکن اس کی غیرموجودگی اس بات کی نفی کر رہی تھی۔۔۔فوٹوگرافر کے رویے کی وجہ کچھ بھی ہولیکن میرے سر سے وقتی طور پروہ مصیبت ٹل گئی تھی۔ بقول عمران میرے خلاف پرچہ کٹ چکاتھاجسے سبین کے بیان نے اورموثر بنادیاہے۔ اس نے کھل کرمیرے خلاف بیان دیاتھا لیکن وہ یہ نہ بتا سکی تھی کہ وہ میرے ساتھ گھر کیوں گئی تھی؟ عمران کو یہ معلومات محرر سے حاصل ہوئی تھیں۔ ابھی تک ایک دو سپاہیوں کے علاوہ کوئی اس طرف سے نہ گزرا تھا۔ عمران سے ملنے والی معلومات کے بعد صحیح معنوں میں مجھے معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا۔میرے ہاتھ پر خراش بھی آتی تو صائمہ تڑپ کررہ جاتی۔ اب میرا جسم لہولہوتھالیکن ہمدردی کے دوبول کہنے والابھی کوئی نہ تھا۔ لیکن میں تو اس سے بھی بدتر سلوک کامستحق تھا۔ بے بس وبے یارومددگار۔سبین نے کتنی منتیں کی تھیں؟ لیکن میرے کان پر جوں نہ رینگی تھی۔ اب۔۔۔میری فریادکون سنتا؟ اب تو شاید ساری زندگی مجھے جیل میں گزارنا تھا۔ سب کچھ ختم ہوگیا تھا۔
شام کا ملگجااندھیرا اب گہری تاریکی میں تبدیل ہورہا تھا۔ اس حالت میں تو میں اپنے رب کے حضورجھک بھی نہ سکتا تھا۔ جنابت کی حالت میں کوئی دعا بھی نہیں مانگ سکتاتھا۔ کاش مجھے غسل کی سہولت میسر آجاتی تو سر سجدے میں رکھ دیتا۔ آہ۔۔۔بدقسمت اور بد بخت فاروق خان سوائے آہیں بھرنے کے کچھ نہ کر سکتاتھا۔ میں سرجھکائے بیٹھا تھا کمرے میں اچھا خاصا اندھیرا ہوگیا تھا۔ بیٹھے بیٹھے میری کمر دہری ہو گئی تومیں وہیں فرش پر لیٹ گیا۔کہ اچانک ایک منحوس آواز کانوں میں پڑی۔(جاری ہے )
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر63 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں