جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر61

جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر61
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر61

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بندوق کی پرواہ کیے بغیر وہ اس سپاہی کے ساتھ الجھ پڑا۔ میں سب کچھ بھول کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ کالے رنگ اور دہرے بدن کا پچیس چھبیس سالہ شخص بڑا دلیر واقع ہوا تھا۔ مکا کھانے والا سپاہی گالیاں بکتا ہوا اٹھا اور فوٹو گرافر سے لپٹ گیا۔تھوڑی دیر میں اچھا خاصا ہنگامہ ہوگیا۔ فوٹو گرافر بڑی بے جگری سے تینوں کے ساتھ لڑ رہا تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی وہ اکیلا ان پر بھاری تھا۔ اس نے تھوڑی ہی دیر میں ان تینوں کو لہو لہان کر دیا۔ شور سن کر چند اور سپاہی بھاگے آئے اور آکر اسے قابو کرکے لے گئے ۔
میں حیران تھا یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ لیکن وقتی طور پر ہی سہی یہ مصیبت ٹل گئی تھی۔ اگرمیری تصویر اخبار میں چھپ جاتی تو۔۔۔؟ یہ خیال ہی میرے لیے سوہان روح تھا۔ کچھ روز قبل شرجیل نے سپنا نامی لڑکی کو اپنے بیڈ روم میں صرف بلایا تھا اس پر بھی ہم سب نے اس کی کیا حالت کی تھی؟ کھیدو چوہڑے اور سپنا کا حشر دیکھ کر آنٹی میرا بہت زیادہ احترام کرنے لگی تھیں۔
اب پولیس سے جان چھڑانے کا مسئلہ تھا۔ انہیں کچھ نہ کچھ دے دلا کر جان چھڑائی جا سکتی تھی۔ میں نے باہر کی طرف دیکھا سامنے کوئی بھی نہ تھا۔ میں نے سلاخوں کے ساتھ سر ملا کر باہر دیکھنے کی کوشش کی مجھے ایک سپاہی نظر آیا۔ میں چاہتا تھا اس کے ذریعے عمران کو بلواؤں اور ان خبیثوں سے جان چھڑا کر باہر نکلوں۔۔۔

جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر60 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جو کچھ کالی داس نے میرے ساتھ کیا تھا اگر وہ میرے ہاتھ آجاتا تو ہو سکتا تھا میں انجام کی پرواہ کیے بغیر اسے جان سے مار دیتا۔ لیکن کیا میں اس کی پراسرار قوتوں کا مقابلہ کر سکتا تھا؟ میری اب تک کی جیت سے رادھا اور ملنگ کی مدد شامل رہی تھی لیکن میں خود کیا تھا؟ کیا میں اس شیطان کی گندی جادوئی قوتوں کے باوجود اسے زیر کر سکتاتھا؟ یہ سوال بار بار میرے ذہن میں چکرا رہا تھا۔
چوٹیں ٹھنڈی ہونے کے بعد مزید اذیت کا باعث بن گئی تھیں۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سب کچھ اس منحوس بسنتی کی وجہ سے ہوا تھا۔ نہیں یوں کہنا چاہئے کہ ان حالات کے پیچھے میری ہوس کارفرما تھی۔ بسنتی کے حسن نے میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی۔ میں برے بھلے کی تمیز کھو بیٹھا تھا۔ کاش میں نے اس بدبخت کی بات نہ مانی ہوتی۔ لیکن۔۔۔بدبخت وہ نہیں میں خود تھا۔ حسین اور وفا شعار بیوی کے ہوتے ہوئے میں کن راستوں پر چل پڑا تھا؟
جسم کے ساتھ ساتھ میرا ذہن بھی دردکرنے لگا تھا۔ میں شدت سے کسی سپاہی کا منتظر تھا جس کے ذریعے عمران کو بلوا سکوں۔ پیاس کی شدت سے میرے حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے۔ گلا خشک ہو رہا تھا۔ دو گھونٹ پانی کے لئے میں ترس رہا تھا۔ کچھ دیر بعد ایک سپاہی ٹہلتا ہوا کمرے کی جانب آیا۔
’’بھائی! دو گھونٹ پانی پلا دو میرا دل ڈوب رہا ہے‘‘میں نے اسے مخاطب کیا۔
’’بیٹا! ابھی صاحب تجھے ٹھنڈا شربت پلاتا ہے فکر نہ کر‘‘ اس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔
’’بھ۔۔۔بھائی! تمہیں خدا کا واسطہ میری بات سن لو‘‘ اسے جاتا دیکھ کرمیں نے منت کی۔ وہ رک کر میری طرف دیکھنے لگا۔
’’اگر تم ایک چھوٹا ساپیغام ایک شخص تک پہنچا دو تو میں تمہیں ایک ہزار روپیہ دوں گا‘‘ میں نے اسے لالچ دیا۔
’’کونسی جیب میں رکھے ہیں ایک ہزار روپے؟‘‘ وہ میرے نیم برہنہ جسم کو دیکھتے ہوئے تمسخر سے بولا۔
’’مم۔۔۔میں تمہیں جس شخص کے پاس بھیجنا چاہتا ہوں وہ تمہیں ایک ہزار روپیہ دے دے گا ۔ میری بات پریقین کرو‘‘ میں نے بے چارگی سے کہا۔
وہ سوچ میں پڑ گیا۔ اسکی مہینہ بھر کی سات آٹھ سوسے زیادہ نہ ہوگی۔ ان دنوں ایک ہزار روپے کی کافی اہمیت تھی۔
’’میں سچ کہہ رہا ہوں اگر تم میرا ایک پیغام اس تک پہنچا دو تو وہ اسی وقت تمہیں پیسے دے دے گا‘‘ میں نے اپنی بات پر زور دے کر کہا۔
’’بتاکہاں جانا ہے لیکن ایک بات سن لے۔۔۔میں پہلے اس سے پیسے لوں گاپھر تیرا پیغام دوں گا ، دوسرے یہ کہ اس نے رقم نہ دی تو آج رات جن سپاہیوں نے تیری ’’خدمت‘‘ کرنی ہے میں ان سب میں آگے ہوں گا۔‘‘ اس نے کہا۔
’’نہیں۔۔۔نہیں ایسا نہیں ہوگا وہ میرا بھائی ہے جب تم اسے بتاؤ گے تو وہ فوراً تمہیں پیسے دے دے گا۔‘‘ میں نے اس کی منت کی۔
’’شکل سے تو توپڑھا لکھا لگتا ہے پھر تو نے ایسی حرکت کیوں کی؟‘‘ وہ مجھے گہری نظروں سے دیکھ کربولا۔
’’میں نے کچھ نہیں کیایہ سب میرے دشمنوں کی سازش ہے‘‘ میں نے جلدی سے کہا۔
’’ہاں تو اپوزیشن لیڈر ہے نا اسلئے تیرے خلاف سازش کی گئی ہے‘‘ اس نے طنزکیا۔ مجھے اس سے کام تھا اس لئے اس کی بات صبر سے برداشت کرگیا۔
’’میں تمہارا یہ احسان ساری زندگی نہ بھولوں گا میرے بھائی میرا اتنا سا کام کر دو‘‘ میری آواز بھرا گئی۔ وہ کچھ دیر مجھے دیکھتا رہا پھر ہنس کربولا۔
’’اوئے۔۔۔تو تو زنانیوں کی طرح رونے لگا۔ ابھی سے تیری یہ حالت ہے ابھی توکسی نے تجھے کچھ کہا ہی نہیں۔ رات کو صاحب تیرا جو حشر کرنے والا ہے اسکا تو تجھے پتا ہی نہیں جلدی سے بتاکہاں جانا ہے اورکیا پیغام دینا چاہتا ہے تو اپنے اس بھائی کو؟‘‘ وہ تیز لہجے میں بولا۔
’’میں نے اسے بینک کانام اور ایڈریس سمجھا کر بتایا کہ وہاں ایک صاحب ہوں گے عمران محمود انہیں باہر بلا کرکہنا کہ وہ ابھی مجھے تھانے آکرملیں۔ علیحدگی میں بلا کربات کرنا سب کے سامنے نہیں‘‘
’’ابے ماں کے خصم۔۔۔! تو کیا سمجھتا ہے کہ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ سارے شہر میں تیرے کرتوتوں کا چرچاہو رہا ہے اور تو مجھے راز و نیاز کا مشورہ دے رہا ہے ۔۔۔‘‘ اس نے ایک اور گالی میری طرف لڑھکائی۔
اس کی بات سن کر میں دنگ رہ گیا۔ اسکے جانے کے بعد میں کافی دیر تک اسی الجھن میں مبتلا رہا کہ اتنی جلدی یہ خبر کیسے پھیل گئی؟ کیونکہ فوٹوگرافر جو میری تصویریں بنانے آیا تھا اس نے کیمرہ زمین پرمار کر توڑ دیا تھا۔ میرے ذہن میں کالی داس کا نام ابھرآیا۔ یقیناً یہ اسی حرام کے نطفے کی کارستانی ہوگی۔ اپنی پراسرار قوتوں سے کام لے کر اسی نے بات پھیلائی ہوگی۔ اب کیا ہوگا؟ میں سخت پریشان ہوگیا۔ میرا خیال تھا عمران آئے گا تو میں اسے کہوں گا تھانے والوں کو ان کی منہ مانگی قیمت دے کر میری جان چھڑائے۔ میں نے سوچا تھا سب کچھ کھیڈو چوہڑے اور سپنا پر ڈال دوں گا۔ مجھے یقین تھا کہ میرے گھر والے مجھ پر اندھا اعتماد کرتے ہیں اور صائمہ تو کبھی مر کربھی یقین نہ کر سکتی تھی کہ میں اتنی گری ہوئی حرکت کر سکتا ہوں۔ اس وقت مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ باہر کیا کچھ ہو چکا ہے سپاہی کی بات پر میں چونکاضرور تھا۔
’’تیرے کرتوتوں کا چرچا سارے شہر میں پھیلا ہوا ہے‘‘ اس کا فقرہ میرے ذہن میں گونجا۔ اس وقت میرا خیال تھا وہ محض مجھے ڈرانے کی خاطر کہہ رہا ہے۔ یہ تو مجھے بعد معلوم ہواکہ سب کچھ اتنا آسان نہیں جتنامیں سمجھ رہاتھا۔ سپاہی کو گئے ایک گھنٹہ سے زیادہ ہوگیا تھا ،ابھی تک عمران نہ آیا تھا۔ میں سبین کو تقریباً بارہ بجے گھر لے کر گیا تھا۔ اس حساب سے اب شام چار بجے کا وقت ہونا چاہئے تھا۔ مجھے خطرہ تھا اگر سپاہی وقت پر نہ گیا تو بینک میں چھٹی ہو جائے گی پھر عمران کا ملنا ناممکن تھا۔ سپاہی کی بات کا مجھے اس لئے بھی یقین نہ تھا اگر بات سارے شہرمیں پھیل چکی تھی تو عمران ابھی تک کیوں بے خبر تھا؟ یہ تو ناممکن تھا کہ اسے معلوم ہوتا اور وہ نہ آتا۔ اسکے ساتھ ہی ایک لرزہ خیز خیال میرے ذہن میں آیا۔(جاری ہے )

جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر62 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزید :

رادھا -