اندھا بانٹے ریوڑیاں
ایک طرف پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جس نے پنشن رولز میں ترمیم کر کے سرکاری ملازمین کے مالی حقوق پر کلہاڑا چلا دیا ہے اور دوسری طرف ارکان اسمبلی، وزراء اور سپیکر کی تنخواہوں میں اتنا اضافہ کیا ہے جیسے صوبے میں تیل نکل آیا ہو یا قارون کا خزانہ دریافت ہو گیا ہو۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں بمشکل 10فیصد اضافہ کرنے والوں نے ایم پی اے صاحبان سمیت وزراء و مشیران کی تنخواہوں میں کئی سو گنا اضافہ کر دیا ہے۔حیرت ہوتی ہے عوام کے یہ نمائندے ایسا کیسے کر لیتے ہیں،انہیں اس کی رتی بھر پروا نہیں ہوتی،اُن کے ووٹرز، یعنی عوام کیا سوچیں گے کیا کہیں گے،اتنا شاہانہ اضافہ تو تاریخ میں کبھی نہیں ہوا جتنا اب کیا گیا ہے جبکہ واویلا یہ ہے حکومتی خزانے میں پیسے نہیں،اس لئے حکومت پنشن کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی۔پنجاب اسمبلی میں ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں پر نظرثانی کا بل کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا ہے۔ ایم پی اے کی تنخواہ76 ہزار ر وپے سے چار لاکھ کر دی گئی۔ بلے بلے، اسی طرح ایک لاکھ روپے لینے والا وزیر اب ساڑھے نو لاکھ روپے لے گا۔ سپیکر کو سوا آٹھ لاکھ روپے اضافے کے بعد تنخواہ ساڑھے نو لاکھ ماہانہ ملے گی۔ مشیران کی بھی موجیں ہو گئی ہیں اور انہیں پانچ لاکھ روپے اضافے سے تنخواہ چھ لاکھ65ہزار روپے دی جائے گی، کیا کہنے جی کیا کہنے، ایسی تیز رفتار ترقی کبھی دیکھی نہ سنی، جہاں پی ایچ ڈی اساتذہ کو تنخواہ ڈیڑھ دو لاکھ روپے ملتی ہو،جہاں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر چار لاکھ روپے پر رُک جاتے ہوں،جہاں اعلیٰ سے اعلیٰ ڈاکٹر 20ویں گریڈ میں دو اڑھائی لاکھ روپے تنخواہ لیتا ہو،وہاں ایک ایم پی اے جس کی تعلیمی قابلیت کچھ نہ بھی ہو تو چار لاکھ روپے ماہانہ حاصل کرے گا۔پھر اُس پر جاب کی پابندیاں بھی نہیں، اجلاس میں آئے یا نہ آئے، آ کر ایوان میں خراٹے لے یا موبائل دیکھتا رہے،پورے سیشن میں کوئی ایک تجویز،کوئی ایک تحریک پیش نہ کرے، سب سے بڑی بات یہ کہ منہ سے ایک لفظ تک نہ نکالے، تب بھی مہینے کی پہلی تاریخ کو اُس کے اکاؤنٹ میں چار لاکھ روپے سکہ رائج الوقت کی صورت میں جمع ہو جائیں گے۔ہے کوئی پورے ملک میں ایسی جاب،پھر وزراء کی طرف دیکھیں۔اب عوام کو نو لاکھ60 ہزار روپے ماہانہ میں پڑیں گے۔یہ وہ تنخواہ ہے جو خالص اُن کے اکاؤنٹ میں منتقل ہو جائے گی۔ باقی پروٹوکول علیحدہ ہے اور اپنے محکمے کی سہولیات نیز فنڈز پر دسترس ایک دوسری کہانی ہے۔یہ ایڈوائزر کیا بلا ہیں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔یہ کرتے کیا ہیں، کوئی نہیں جانتا،ان کی مشاورت چلنی کتنی ہے، کسی کے علم میں ہو تو بتائے، سنا ہے انہیں خالصتاً سیاسی ضرورت کے تحت ایڈوائزر بنایا جاتا ہے۔انہیں بھی اب ساڑھے چھ لاکھ روپے سے زائد ملیں گے۔گاڑیوں، دفاتر، دوروں اور سپر سپاٹے پر اٹھنے والے اخراجات علیحدہ ہیں۔ ڈپٹی سپیکر اور پارلیمانی سیکرٹریوں کی تنخواہیں بھی لاکھوں روپے بڑھا دی گئی ہیں اور پیچھے مڑ کے سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ کوئی رہ تو نہیں گیا، بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے رہ گیا ہو۔
سپیکر پنجاب اسمبلی نے فرمایا یہ بل موجودہ قوانین کے مطابق درست اور حکومت کا اچھا اقدام ہے۔ واہ جی واہ میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو۔جب اپنی جیب میں پیسے آئے تو قانون بھی درست ہو گیا اور اُسے اچھے اقدام کا سرٹیفکیٹ بھی مل گیا۔عوام کو کچھ دینے کی باری آئے تو یہی سپیکر ارکان اسمبلی کو بولنے نہیں دیتے۔یہ عوامی نمائندے جو اپنی دنیا سنوارنے میں مگن ہیں کبھی انہوں نے غریب پنشنروں کے لئے بھی ایوان میں آواز اٹھائی، کبھی حکومت کی غیرت جگائی کہ وہ ان لوگوں کے منہ سے نوالہ نہ چھینے جو ساری زندگی دے کر اپنا بڑھاپا عزت سے گزارنا چاہتے ہیں، پنشن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ آمدنی نہیں، بلکہ عزت سے اپنی زندگی کی ایک چھت ہے۔ یہ چھت نہ ہو تو ریٹائرڈ ملازمین فاقوں اور غربت کی نذر ہو جائیں۔ پنجاب حکومت نے نئے پنشن رولز میں فیملی پنشن کی مدت دس سال کر دی ہے، یعنی دس سال کے بعد ملازم کی بیوہ یا کسی غیر شادی شدہ نیز معذور بچے کو بھی پنشن نہیں ملے گی۔ گویا وہ یکدم سڑک پر آ کھڑے ہوں گے۔ وفاق اور تین صوبوں میں ابھی یہ قانون رائج نہیں ہوا،لیکن پنجاب میں ہو گیا، یعنی چند ہزار روپے پنشن لینے والے پر تو بجلی گرانے کی جلدی ہے،مگر اپنی مراعات بڑھانے پر ساری توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔یہ ارکان اسمبلی کھاتے پیتے لوگ ہوتے ہیں، جن کے اپنے کاروبار،ہاؤسنگ سوسائٹیاں،ملیں اور فیکٹریاں ہیں، انہیں پیسے کی ضرورت نہیں ہوتی،وہ تو صرف اقتدار کے مزے لینے اور اپنے مفادات کے لئے اقتدار کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے لئے سیاست میں آتے ہیں۔اُن پر نوازشات کی بارش اندھا بانٹے ریوڑیاں والی مثال کے مصداق ہے۔ معاشرے میں پہلے ہی عدم تفادت بہت ہے۔ایک طرف انتہاء کی امارت ہے اور دوسری طرف اتنی ہی انتہاء کی غربت ہے۔وسائل کا رُخ عوام کی طرف موڑنے کی ضرورت ہے، مگر افسوس ہمارے ارباب اختیار اپنی علیحدہ ہی دنیا بسائے ہوئے ہیں ان کے فیصلے انوکھے ہوتے ہیں اور بعض اوقات اُن پر ڈھٹائی کا گمان ہوتا ہے۔
سرکاری ملازمین پنشن رولز میں ظالمانہ ترامیم، لیو اِن کیشمنٹ اور دیگر چھوٹے چھوٹے مطالبات کے لئے دہائیاں دے رہے ہیں۔لاہور میں دھرنا دینے کا پروگرام بھی بن چکا ہے۔ گویا ایک اضطراب ہے، جس کا لاکھوں ملازمین شکار ہیں ایسے میں اس قسم کی خبریں اُن پر بجلی بن کر گرتی ہیں کہ حکمرانوں نے اپنی تنخواہوں میں بیٹھے بیٹھے کئی گنا اضافہ کر کے صوبے پر کروڑوں روپے ماہانہ کا بوجھ ڈال دیا ہے اِس وقت تو واضح طور پر لگ رہا ہے حکمرانوں کا جہاں اور ہے، عوام کا جہاں اور۔ کاش پنجاب اسمبلی میں کوئی ایسا مردِ میدان ہوتا جو اُٹھ کرا س بل کو ناانصافی کہہ کر اس کی مخالفت کرتا۔کوئی ایسا بھی ہوتا جو کہتا میں یہ اضافہ نہیں لوں گا،جب تک اسی تناسب سے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافہ نہیں کیا جاتا، مگر ایسی جرأت رندانہ اب ناپید ہو گئی ہے۔ اب سبھی کو مفادات کی پڑی۔ مثالیں تو یہی حکمران اور عوامی نمائندے بڑی بڑی دیتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کی انصاف پسندی اور عدل کا ذکر بھی کرتے ہیں، مگر خود پر اس طرزِ حکمرانی کو کبھی رائج نہیں کرتے،جس میں سب سے پہلے عوامی، یعنی رعایا کے بارے میں سوچنے اور اُن کی فلاح و بہبود پر غور کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اپنے ہی ہاتھوں اپنی ہی مراعات اور تنخواہیں بڑھا لینا کون سی دلیری،کون سی کامیابی ہے اور پھر اضافہ بھی اتنا کہ جس سے انصافی اور عدم مساوات کی سڑاند آ رہی ہو وہ نوالہ ہے جسے نگلتے ہوئے زندہ ضمیروں کو اُبکائی آ جاتی ہے۔
٭٭٭٭٭