یا اللہ، یہ ماجرا کیا ہے؟
حروں کے روحانی پیشوا پیر صبغت اللہ راشدی پیر آف پگارو نے قوم کو ہنگامی صورت حال یا مارشل لاءسے ڈرایا اور ساتھ ہی پاک فوج کی تعریف بھی کر دی کہ فوج ہماری سرحدوں کی محافظ، پیر صبغت اللہ خود کو غیر سیاسی کہتے اور اپنے بھائی صدر الدین پر بھروسہ کرتے ہیں، یہ بات جام شورو انٹرچینج پر دھرنا سے خطاب کرتے ہوئے کہی ہے۔ یہ دھرنا عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف دیا، دلچسپ امر یہ ہے کہ اس میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف والوں کے علاوہ قوم پرست رہنما بھی شریک تھے، پیرپگارو نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ جو حکومت بن رہی ہے وہ 8ماہ سے زیادہ چلنے والی نہیں، دوسرے معنوں میں ایک طرف دھاندلی کا الزام لگایا، مارشل لاءکی دھمکی دی، اس کے ساتھ ہی فوج کی تعریف کی اور ساتھ ہی حکومت سازی بھی بتا دی۔ یوں یہ دھرنا علامتی بن گیا اور ان کے نزدیک اتنا ہی احتجاج کافی ہے جبکہ جماعت اسلامی، جمعیت علماءاسلام اور تحریک انصاف انتخابات کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
دیر ہو گئی، رپورٹنگ سے الگ ہوئے اس لئے اکابرین ملت سے ملاقات بھی سر راہے ہوتی ہے، حالانکہ جب موجودہ پیر صاحب کے والد پیر علی مردان شاہ حیات اور ہم رپورٹنگ میں تھے تو ان کے ساتھ بہت دوستی تھی، وہ پاکستان میں گھومتے پھرتے بھی تھے۔ لاہور اور اسلام آباد بھی آنا جانا لگا رہتا تھا اور ہماری ملاقاتیں ہوتی تھیں، ان کے ساتھ بہت بے تکلفی سے باتیں ہوتی تھیں، وہ سیاست میں عملی حصہ لیتے تھے جبکہ صبغت اللہ راشدی خود کو لئے دیئے رہتے ہیں اور کراچی سے پیرجوگوٹھ کا سفر اختیار کرتے ہیں اس لئے ان سے تو ملاقات بھی نہیں ہوئی۔ وہ سیاسی خبروں میں آئے۔ جب حکومت (پی پی) مخالف جماعتوں نے جی ڈی اے بنائی اور اب الیکشن میں بھی حصہ لیا۔
پیر صبغت اللہ کی تقریر سے مجھے یاد آیا کہ پیر علی مردان شاہ تو پیش گوئیوں کے بادشاہ تھے اگرچہ ان کی کہی باتیں دیر کے بعد سمجھ میں آتی تھیں، وہ کہا کرتے تھے جو بچے گا وہ سیاست(حکومت) کرے گا اور درود شریف والوں کا دور آنے والا ہے، ان کی یہ باتیں اس وقت تو سمجھ سے باہر رہیں لیکن ان کی وفات کے بعد ایسا ظاہر ہونے لگا اور اب تو حالات سے نظر آ رہا ہے کہ جو بچے گا وہی سیاست کرے گا، جام شورو کے دھرنے میں اور بھی بڑے ”محروم“ تھے اور ان سب نے سخت خطاب کیا۔ پیر صبغت اللہ کی طرف سے فوج کی تعریف کے باعث ان کے والد محترم کی بات بھی یاد آئی کہ اکثر ان کی بات پر غور کئے بغیر بعض دوست لکھتے، فوج ہمارے ساتھ ہے۔انہوں نے اس پر ناراضی کا اظہار کیا اور وضاحت کی تھی، فوج ہمارے ساتھ نہیں ہم فوج کے ساتھ ہیں اور ہم نے اپنے حُر فوج کے سپرد کر دیئے ہوئے ہیں جو ایک بٹالین کی صورت میں ہیں۔
قارئین! معاف کیجئے کہ آج کی تحریر ذرا مختلف ہو گئی اس کی وجہ شاید میرا مایوسی کی طرف راغب ہونا ہے۔جیسا کہ گزشتہ روز عرض کیا کہ ہمارے سیاست دان قومی مفاد کا ذکر کرکے ذاتی مفاد سے آگے نہیں بڑھتے اور دانستہ یا نادانستہ ”عالمی نمبردار“ کے آلہ کار بن جاتے ہیں اور بدقسمتی سے اب اس کی لپیٹ میں ہمارے محافظ بھی آ گئے ہیں۔ آج میرے پیارے پاکستان کی جو صورتحال ہے اس کے حوالے سے میں اکثر خبردار کرتا رہا ہوں، لیکن نقار خانے میں میری آواز نہ سنی گئی۔آج حالات اس نہج پر ہیں کہ پورا ملک انتشار کا شکار ہے اور غضب تو یہ ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کے خلاف ہارنے والے تو واویلا کررہے ہیں، یہاں جیتنے والے بھی سراپا احتجاج ہیں، میرے اسلام آباد والے صحافتی بھائی نے توجہ بھی دلائی لیکن کسی نے غور نہیں کیا، نصرت جاوید (ثم لاہوری) نے لکھا تھا کہ توجہ کریں۔ مولانا فضل الرحمن اے این پی اور آفتاب شیرپاﺅ دھاندلی کا الزام لگا کر احتجاج کر رہے ہیں تو تحریک انصاف والے بھی یہی عمل کر رہے ہیں،حالانکہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف جیتی اور یہ لوگ ہارے ہیں۔ ہمارے مولانا فضل الرحمن انہی کے ساتھ مل کر دھاندلی کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں، یہ شاید ہمارے ملک کی تاریخ کے پہلے انتخابات ہیں جس میں سبھی دھاندلی کا الزام لگا رہے اور یہ ان کے ساتھ ہوئی ہے جبکہ وہ احتجاج ان کے ساتھ مل کر کررہے ہیں ، جو ان سے جیتے اور یہ ان سے ہارے۔
اس وقت ملک میں جو صورتحال ہے، وہ مجھے خوفزدہ کئے ہوئے ہے، میں اس امر کی نشاندہی بھی کرتا رہا ہوں، ابھی تو نوبت انارکی جیسی صورتحال کی ہے لیکن یہ فسادات کی طرف بھی جا سکتی ہے کہ انصافی جیت کر بھی ناخوش، انتخابات کے بعد وہ باہر بھی نکل آئے اور اب گرفتاریوں کا خطرہ بھی محسوس نہیں کرتے لیکن وہ حالات پر اکتفا نہیں کررہے، بلکہ مکمل قبضہ چاہتے ہیں، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔
میںنے اپنے دوران صحافتی عمر،بہت سی تحاریک کی کوریج کی، حتیٰ کہ 1977ءوالی تحریک سے تو ابتداءہی سے منسلک رہا اور بہت کچھ جانتا ہوں۔ بعض باتیں اس وقت ضابطہ تحریر میں لانے سے اہم تر جبینوں پر شکنیں ابھر آئیں گی اس لئے ذکر کئے بغیر ہی یہ عرض کرتا ہوں کہ مجھے مماثلت نظر آ رہی اور اسی لئے آج کی تحریر پیر صبغت اللہ کی پیش گوئی سے شروع کی ہے، ہم کیسے لوگ ہیں کہ امریکہ کی طرف سے ہمارے اندرونی امور پر تبصرہ ہو رہا ہے تو ہم اس سے مزید کا مطالبہ کررہے ہیں، بلکہ اگر کئے گئے الفاظ کی روح پر غور کریں تو ہم سیدھا سادا مداخلت کا مطالبہ کررہے ہیں اور بڑے خوش ہیں کہ امریکہ بھی حالیہ انتخابات پر شک کا اظہار کر رہا ہے۔
اس سلسلے میں میرے خیالات اور خدشات بالکل مختلف ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ،عراق ، شام اور مصر کو ٹھکانے لگا کر اب پاکستان اور ایران کے پیچھے ہے اور وہی حربہ آزما رہاہے جو عراق ، شام اور مصر کے خلاف آزمایا۔ پہلے ان ممالک کی معیشت پر حملہ کیا، کمزور کیا اور پھر ”انسانیت“ کے نام پر چڑھائی کر دی، افغانستان پر قبضہ نائن الیون کے نام پر ، دہشت گردی کے الزام میں کیا، یہاں سے ویت نام کی طرح رسوا ہو کر نکلا لیکن اب بھی ہم سب اس کی آنکھ میں کھٹکتے ہیں، امریکن ہمارے ایٹمی پروگرام سے خوش نہیں اور ایران کو ایٹمی صلاحیت کا حامل ہونا نہیں دیکھ سکتے، چنانچہ ایران کے خلاف پابندیاں لگا کر معیشت خراب کرنے کی بھرپور کوشش جاری ہے اور ہمارے پاکستان کو آئی ایم ایف کے ذریعے قرضوں میں جکڑ کر دیوالیہ بنانے کی چال چلی جا رہی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاسی اکابرین اسی کی طرف دیکھ رہے ہیں،حالیہ انتخابات میں ووٹروں نے حالات حاضرہ کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار اپنے ووٹ کی طاقت سے کر دیا ہے۔ ہمارے سیاسی اکابرین کو اسے تسلیم کرنا چاہیے ، یہ نہیں کہ ہر ہارنے والا احتجاج کے لئے اُٹھ کھڑا ہو اور جیتنے والے کے ساتھ مل کر احتجاج کرے۔ملک بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ غاصب قوتیں ہماری معیشت کو خراب کر چکیں، اب نوبت یہ ہے کہ کھربوں کا جو قرضہ ملک پر واجب ہے وہ کیسے اترے گا کسی کو علم نہیں، ملک کے حقیقی عوام استحصال زدہ ہیں،روزانہ خودکشیاں ہو رہی ہیں، قوم فاقوں پر مجبور ہے اور ہماری اشرافیہ بڑی بڑی گاڑیوں کے مزے لے رہی ہے۔ حکمرانوں کے دعوے بڑے بڑے ہیں، حقیقت بالکل مختلف ہے، سرکاری محکمے ڈنگ ٹپاتے ہیں، پبلسٹی سے لیپا پوتی ہوتی ہے، لاہور کا صرف ایک محکمہ پی ایچ اے ٹٹول لیں۔ اس کی تلاشی لیں تو اربوں روپے برآمد ہو جائیں گے اگر کسی نے ایسا کیا تو نزلہ برعضوضعیف پر گرے گا اور چھوٹے ملازم متاثر ہوں گے جو بڑے لوگ لوٹ کر چلے گئے وہ اب عیش کررہے ہیں ان کو کوئی نہیں پوچھے گا، میں خوفزدہ ہوں اور پھر بات یہاں ختم کرتا ہوں اگر محب وطن ہو تو ملکی ترقی اور خوشحالی کے لئے قومی اتفاق رائے کیوں پیدا نہیں کرتے، آخر کیوں ایک دوسرے کے درپے ہو کر انتشار ہی نظر آتا ہے۔ غور کرو اور سنبھالا لو....
یہاںتک لکھا کہ فوری ثبوت سامنے آ گیا، راولپنڈی کے کمشنر لیاقت چٹھہ نے دھاندلی قبول کرکے خود کو پھانسی کے لئے پیش کر دیا اور گرفتار کر لئے گئے،سوچ لیں۔۔۔