نوجوان نسل اور تشدد پسندی 

نوجوان نسل اور تشدد پسندی 
نوجوان نسل اور تشدد پسندی 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


تشدد پسندی اور انتہا پسندی معا شرتی نا ہموا ریو ں کا ایک ردعمل ہے، جس کا نتیجہ مثبت بھی ہو سکتا ہے اور منفی بھی،تاہم دور ِحاضر میں نوجوان نسل میں انتہا پسندی کو ایک منفی رویہ اور رجحان اس لیے گردانا جا تا ہے،کیونکہ اس کے نتائج معاشرہ کے لئے غیر مفید اور خطر ناک ثابت ہوئے ہیں۔ہما رے ہاں لکھنے والوں کی ایک بڑی تعدادآئے دن معاشرتی نا ہمواریوں کی منظر کشی اور اس کے اسباب و محرکات بیان کرتی نظر آتی ہے۔اس کا ایک فائدہ  یہ ہے کہ مرض کی تشخیص کے بعداس کا تدا رک اور علاج ڈھونڈنے میں آسانی رہتی ہے۔
نوجوان نسل جس میں تعلیم یافتہ اور زیر ِتعلیم دونوں انواع کے افراد شامل ہیں اپنے دورِ زندگی میں کئی عوامل سے متاثر ہوتے ہیں جس سے ان میں انتہا پسندی گیر رجحانات جنم لیتے ہیں۔ہم یہ بات وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ انتہا پسندی صرف غریب طبقے میں ہوتی ہے،لیکن مشاہدات بتاتے ہیں کہ غربت جہاں بہت سے دیگر معاشرتی مسائل کو جنم دیتی  ہے، وہاں انتہا پسندی اور متشدد رویے بھی اس کی پہنچ سے باہر نہیں۔تحقیق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ خوش حال معاشروں میں تشدد پسندی کا رجحان کم ہو تا ہے اور اس کی نوعیت بھی مختلف ہوتی ہے۔ایک خوشحال معاشرے کے افرادکا زیادہ تر وقت تخلیقی،تعمیری اور فکری سرگرمیوں میں گزرتا ہے، جس سے معاشرتی اصلاح کے کئی دروا ہوتے ہیں۔


یہاں یہ بات قابل ِغورہے کہ انتہا پسندی ایسامعاشرتی مظہر نہیں،جس کی محض کوئی الگ تھلگ حیثیت ہو، بلکہ اس کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اس کی وسعت کا دائرہ دیگر کئی معا شرتی مظاہر تک پھیلا ہوا ہے۔اس کا تعلق جہاں غربت و افلاس کے ساتھ ہے، وہاں سماجی نا انصافی اور عدم مساوات سے بھی ہے۔ زمانہء طالبِ علمی میں ہمیں فلمیں دیکھنے کا بہت شوق ہوتا تھا۔دور درشن پر ہفتے میں دو بار فلمیں دکھائی جاتی تھیں، جس کا انتظار ہمیں شدت سے رہتا تھا۔اس دور میں بننے والی فلموں کا زیادہ تر آغازکسی معاشرتی نا انصافی اور ظلم و ستم سے ہو تا تھا۔جیسے ہیرو کے بے گناہ باپ کوگاؤں کے زمیندار نے کو ڑے مار مار کر محض اس لیے ہلاک کر دیا  ہوکہ اس نے بر وقت قرض  نہ لو ٹا یا ہو یاپورا لگان  نہ دیا ہو۔اس کے بعد پوری فلم اس زمیندار سے انتقام لینے میں گزر جا تی تھی۔اگر غور سے دیکھا جائے تو ہمارامعاشرہ  اس طرح کی نا انصافیوں سے بھرا پڑا ہے اور عدم مساوات کی ہزاروں داستانیں ہیں۔یہ عوامل نوجوان نسل میں احساس محرومی اور کمتری کو جنم دیتے ہیں جس کی تلافی شعوری یا غیر شعوری طور پرانتہا پسندی سے کی جا تی ہے۔


دیکھا جائے تو انتہا پسندی یا شدت پسندی محض ایک معا شرتی عمل ہی نہیں۔ابتداًیہ ایک انفرادی عمل اور رجحان ہوتا ہے، جس کی پرورش معاشرہ کرتا ہے اور پھر ایک دن یہ معاشرتی نا سور کا روپ دھار لیتا ہے۔آئیے دیکھتے ہیں یہ کیسے ہوتا ہے؟انتہا پسندی اور شدت پسندی کے رجحانات معا شرتی تربیت کے ایک تسلسل کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہو تے ہیں اور معا شرتی تربیت کا بنیادی ادارہ خاندان ہے۔خاندان انتہا پسندی کی پرورش کی پہلی آماجگاہ ہے جہاں ایک دوسرے کی پسند نا پسند، تعصب، نفرت، بغض، کینہ اور حسد جیسی برائیاں متشددانہ رویوں اور رجحانات کو جنم دیتی ہیں۔اس کے بعد دیگر معاشرتی ادارے ان چنگا ریوں کو ہوا دیتے ہیں تو یہ ایک معاشرتی مسئلہ بن جاتا ہے۔مصلحتاً دیگر معاشرتی اداروں کا تذکرہ میں یہاں گول کر رہا ہوں۔


یہاں یہ قضیہ پیش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ انتہا پسندی  اور شدت پسندی کی تفہیم میں ہمیں مدد مل سکے۔مطلب کہ یہ ایک میکرو سطح کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ مائیکرو  لیول پر بھی اس کا تجزیہ کرنا ضروری ہے،تا ہم ہمارے ہا ں کسی بھی مسئلہ کے ظا ہری پہلوؤں پر بہت توجہ دی جاتی ہے اور ان کے خفیہ پہلو ؤ ں کو نظر انداز کر دیا جاتاہے، چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے نفسیاتی محرکات کا بھی مطا لعہ کیا جائے۔عدم مشاورت،عدم توجہی،معاشرتی بائیکاٹ، ہائی،احساس محرومی،ذہنی تناؤ،اظہار لاتعلقی، تعصب،غم و غصہ اور نفرت انگیزرویے ایسے عوامل ہیں جو انتہا پسندی اور تشدد کا بیج بوتے ہیں اور معاشرتی عناصر اس کو تنا ور درخت میں بدل دیتے ہیں۔


دوسری طرف یہاں میں  اس بات کا تذ کرہ کرتا چلوں کہ ہمیں تشدد اور انتہا پسندی کے تصور کو وسیع تناظر میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ عام طور پرہمارے ہاں اس کومذہب سے جوڑا جاتا ہے۔ مذہب ایک ایسا معاشرتی ادارہ ہے جو کسی بھی فرد کی زندگی پرمتنو ع اثرات مرتب کرتا ہے افرادِمعاشرہ کے رویوں کی تشکیل کرتا ہے اور ان کی جہت کا تعین کرتا ہے،تاہم انتہا پسندی کومحض مذہب کے مر ہون منت گردان کرایک وسیع معاشرتی و معاشی اور ثقافتی تناظر کو نظر انداز نہیں کر نا چاہئے، یہا ں میں ارادتا ًاس بحث کو طول نہیں دینا چاہتا۔اس طرح کے کئی ایک عوامل پر یہاں صرف نظر کیا جا رہا ہے البتہ ان  موضوعات کو زیر بحث لانا  اور ان کا ٹھوس حل تلاش کرنا ایک جرأت مندانہ عمل ہے،جس کا بیڑا نامور ماہر معاشریات پروفیسر محمد زکریا ذاکر صاحب نے اٹھا یا ہے، گزشتہ دنوں انہوں نے ملک کے نامورماہر ین تعلیم،سکالرز، ققین،مذہبی قائدین، منصفین، صحافی، وکلاء،اساتذہ اور وائس چانسلر زکو ایک پینل مباحثہ پر مدعو کیا، جنہوں نے اپنے تجربہ اور تجزیہ کی بنیاد پر بیش قیمت  دلائل دئیے جو قابل غور اور قابلِ عمل ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس فکری و تحقیقی عمل کا تسلسل بر قرار رکھا جائے اور ان تمام تجزیہ کاروں کے وسیع تجربات  اور علمی بصیرت سے مستفید ہوتے ہوئے اس طرح کے دیگر مو ضو عات پر فکری و عملی میدان سجا یا جائے اور عوامی سطح پران مسائل کے حوالے سے شعور پیدا کیا جائے، تا کہ ان کی بیخ کنی سے ایک مہذب، پُرامن اور پائیدارمعاشرہ تشکیل پا یا جا سکے ۔   

مزید :

رائے -کالم -