پاکستان کا اصل مسئلہ!

پاکستان کا اصل مسئلہ!
پاکستان کا اصل مسئلہ!
کیپشن: nadeem salak

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پاکستان میں سول اور فوجی آمریتوں کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ دونوں اقسام کے ادوار میں عوامی فلاح و بہبود کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ اس امر سے انکار ممکن نہیں۔ حقیقی جمہوریت پاکستان میں کبھی نہیں آئی۔ نہ صرف یہ کہ حکمران ٹولہ اپنے ذاتی مفادات کو عوامی مفادات پر فوقیت دیتا رہا بلکہ اپوزیشن بھی عوام کی مشکلات کے نام پر اپنی سیاست اور مفادات کے تحفظ کی جدوجہد ہی کرتی رہی۔ موجودہ نام نہاد جمہوریت جسے ”ڈیل ریل“ ہونے سے بچانے کی سر توڑ کوشش ہورہی ہے، پاکستان کے اس المیے کی ایک کلاسیکل مثال ہے۔
اس کا مزید پوسٹ مارٹم کرنے سے پہلے آئیے عوام الناس کے بنیادی مسائل کا ایک جائزہ لے لیا جائے۔ معاشرے کو پنپنے کے لئے جن بنیادی عناصر کی ضرورت ہوتی ہے وہ صحت، تعلیم، سیکیورٹی، روزگار اور انصاف کا حصول میں، پچھلی کئی دہائیوں سے نہ صرف اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی بلکہ ان کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا ہے۔ فوجی اور سول حکومتوں میں اس بارے میں کوئی امتیاز کرنا مشکل ہے۔ صحت کی بنیادی سہولتیں ناپید تو نہیں لیکن اتنی گراہ ہوچکی ہیں کہ سوائے امراءکے کوئی اور ان سے مستفید نہیں ہوسکتا۔ عام لوگوں کو عطائی ڈاکٹروں، غیر معیاری ادویات اور حفظان صحت کے اصولوں سے ماوراءطبی سہولتوں پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔

یہی حال تعلیمی اداروں کا ہے۔ معیاری ادارے عام آدمی کی استطاعت سے باہر ہیں، سرکاری تعلیمی ادارے عام آدمی کی استطاعت سے باہر ہیں۔ سرکاری تعلیمی ادارے عام آدمی کی استطاعت سے باہر ہیں۔ سرکاری تعلیمی ادارے اساتذہ اور دیگر سہولتوں کے فقدان کے باعث شرمناک حد تک غیر معیاری ہیں۔ انصاف کا حصول بھی ایک عام پاکستانی کے لئے مسرت ایک خواب ہے۔ نہ کسی عدالت میں شنوائی ہوتی ہے نہ کہیں اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول ہر جگہ کار فرما ہے، رہ گئی سیکیورٹی تو جہاں آپ کی تمام ایلیٹ پولیس اشرافیہ کے زیراستعمال ہو وہاں جرائم کی روک تھام کون کرے گا؟ پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور میں جرائم کی بیخ کنی کا کوئی پروگرام نہیں نہ روزگار مہیا کرنے کا کوئی پلان نظر آتا ہے۔ اپنے چیلے چانٹوں کو قومی اداروں میں ایسی پوسٹوں پر بھاری تنخواہوں پر بھرتی کرنے سے، جن کا کوئی وجود ہی نہیں، روزگار کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا الٹا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس طرح یہ اچھے بھلے ادارے اس بوجھ تلے دب کر قومی خسارے کا سبب بنتے ہیں اور بھرتی کردہ نااہل افراد ان اداروں کو مزید فعال بنادیتے ہیں۔ PIA اور ریلوے جیسے اداروں کا ستیاناس اس پالیسی کی وجید سے ہوا ہے۔
اگر سیاستدانوں کے اس دعوے کو تسلیم کرلیاجائے کہ تمام برائیوں کی جڑ فوجی حکومت تھی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فوجی حکومت کو رخصت ہوئے چھ سات سال ہوچکے ہیں تو کیا کسی شعبے میں بہتری ہوئی؟ اور یہی سوال فوجی حکومت سے بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ جب آپ نے سول حکومت کو تقریباً حرف بحرف انہی الزامات پر ہٹایا تھا تو کیا آپ نے مندرجہ بالا شعبوں میں کوئی بہتری پیدا کی؟ جواب نفی میں ہی ملے گا لیکن اسے تسلیم کوئی نہیں کرے گا۔
اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں میں شاید ہی کوئی ایسا کوڑھ مغز ہوگا جس کو پاکستان میں پانی کی کمی کے خطرات سے آگاہی نہ ہو۔ چلئے کالا باغ ڈیم کو ایک سیاسی تنازع بنادیا گیا اور دیگر بڑے ڈیم بنانے کے لئے بین الاقوامی اداروں سے مالی معاونت کے حصول میں دشواریاں ہیں تو کیا ہم متعدد چھوٹے ڈیم بنا کر پانی اور بجلی دونوں مسائل پر قابو نہیں پاسکتے؟ چھوٹے پراجیکٹ بنانے کے لئے نہ تو ہمیں بین الاقوامی مالی اداروں کی معاونت درکار ہے اور نہ ہی تکنیکی مدد کی ضرورت اگر ہم 30 ارب روپے سے چند ماہ میں غیر ضروری میٹروبس کا پراجیکٹ مکمل کرسکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اسی مالیت کا ایک چھوٹا ہائیڈل پراجیکٹ مکمل نہیں کرسکتے۔ یہ کام نہ فوجی حکومت نے کیا نہ اس نام نہاد جمہوری دور میں ہورہا ہے۔ شاید اس لئے کہ اس میں نمود و نمائش یا معیاری کمیشن کی گنجائش نہیں۔
ہمارے خیال میں پاکستان کا اصل مسئلہ فوجی یا جمہوری حکومت نہیں بلکہ مخلص اور ایماندار حکومت ہے جو عوام کے ان بنیادی مسائل کے حل کے لئے کسی جامع منصوبہ بندی کے تحت اقدامات کرے۔ 1971ءکی جنگ کے بارے میں جنرل فضل مقیم نے اپنی کتاب میں جملہ لکھا تھا کہ ہمارے پاس بہترین فوجی اور بدترین جنرل ہیں یہ بات ہمارے ملک کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے کہ ہمارے پاس بہترین لوگ اور بدترین لیڈر ہیں جن کے پاس نہ کوئی پروگرام ہے نہ ویژن اور نہ ہی خلوص نیت۔ ٭

مزید :

کالم -