فلمی وادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 153

فلمی وادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 153
فلمی وادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 153

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ان کے ہٹ گانوں کی تعداد درجنوں میں نہیں سینکڑوں میں ہوگی۔ انہوں نے کم از کم ڈھائی تین سو فلموں کے لئے موسیقی بنائی اور اپنا نام ہمیشہ کے لئے فلمی تاریخ میں درج کرا گئے۔ انہوں نے لگ بھگ ساٹھ سال تک موسیقی بنائی اور بڑے بڑے معرکے سر کئے لیکن گذشتہ سالوں میں ایک ایسا وقت بھی آیا جب فلم سازوں نے بابا چشتی سے موسیقی بنوانی ترک کر دی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ نئے موسیقار دھڑا دھڑ ان کی طرزیں دوبارہ اور سہ بارہ ریکارڈ کر کے فلم سازوں کے حوالے کر رہے تھے مگر فلم سازوں کی بھیڑ چال ملاحظہ ہو کہ وہ خود چشتی صاحب سے رجوع نہیں کرتے تھے۔ اس نمبر دو مال کو خوش ہو کر قبول کر رہے تھے۔
بابا جی کو اس بات کا بہت دکھ اور ملال تھا جس شخص نے ساری زندگی سازوں‘ سازندوں‘ سروں اور راگ رانگیوں میں بسر کر دی ہو اگر اسے موسیقی کے میدان سے بالکل بے دخل کر دیا جائے تو اس کی حالت کیا ہوگی؟ جیسے بن جل مچھلی‘ بس یہی بابا چشتی کی حالت بھی تھی۔ وہ اکثر نگار خانوں میں نظر آتے تھے اور اس بات کے شاکی تھے کہ آخر فلم ساز ان سے میوزک کیوں نہیں بناتے ہیں۔ ان کے سامنے تو کوئی دم نہ مار سکتا تھا۔ ادھر ادھر کی باتیں اور ان کی تعریفیں کر کے انہیں ٹال دیتے تھے مگر ان کو اپنی فلم کی موسیقی بنانے کا موقع نہیں دیتے تھے حالانکہ بابا چشتی کے پاس موسیقی کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ موجود تھا اور وہ آج کی فلموں میں بھی اپنی موسیقی کا سحر پھونک سکتے تھے مگر فلم سازوں کی بھیڑچال کا کوئی علاج نہیں تھا۔

فلمی وادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 152 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہم کمرے میں ایک طرف جا کر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد زبیدہ خانم آگئیں۔ یہ نئی نئی گلوکارہ تھیں رشید عطرے صاحب نے انہیں موقع دیا تھا اور بابا چشتی انہیں سنوارنے میں مصروف تھے۔ بابا چشتی کے ذہن کی زرخیزی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے فلم پتن کے ئے تین گانے خود ہی لکھے‘ ان کی طرزیں بنائیں اور ریکارڈ بھی کرا دئیے او ر یہ سب کام ایک ہی دن میں ہوگیا۔ چشتی صاحب کے لئے یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی اس لئے کہ اس سے پہلے انہوں نے نذیر صاحب کی پنجابی فلم ’’پھیرے‘‘ کے سارے گیت ایک ہی دن میں لکھے‘ ان کی طرزیں بنائیں اور ریکارڈ کرا دئیے۔ قابل ذکر بات یہ کہ سارے کے سارے گیت ہٹ ہوگئے اور آج بھی گائے جاتے ہیں۔ دنیا کا کوئی اور موسیقار اس کا جواب پیش نہیں کر سکتا۔ ان کا نام تو گینز بک میں درج ہونا چاہئے تھا مگر کون کراتا؟ بابا جی کو اپنے کاموں کی وجہ سے ہوش نہیں تھا دوسروں کو اس کا احساس تھا نہ ضرورت۔
’’پتن‘‘ کے دنوں میں ہم نے بابا چشتی کو قریب سے دیکھا۔ ہمارا تجربہ یہ ہے کہ سب اچھے موسیقار عموماً معصوم بھولے بھالے اور بے ضرر انسان ہوتے ہیں۔ بابا جی بھی ایسے ہی تھے۔ بس اپنے کام سے کام باقی دنیا سے انہیں کچھ سروکار نہیں تھا۔ یوں تو اور بھی کئی فلموں میں بابا چشتی کو موسیقی بناتے ہوئے قریب سے دیکھا لیکن فلم ’’لخت جگر‘‘ کے زمانے میں ایک بار پھر پتن کے دنوں کی یاد تازہ ہوگئی۔ اس فلم کے ہدایت کار بھی لقمان صاحب تھے اور یہ مقابلے میں بنائی جا رہی تھی۔ ان دنوں مقابلہ آرائی کا خاصا رجحان تھا۔ دو فلم ساز ایک ہی موضوع یا ایک ہی کہانی بنانے کھڑے ہو جاتے تھے اور دونوں کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ پہلے اس کی فلم مکمل ہو کر ریلیز ہو۔
’’لخت جگر‘‘ کے مقابلے میں ’’حمیدہ‘‘ بنائی جا رہی تھی جس کے ہدایت کار منشی دل تھے۔ حمیدہ میں صبیحہ اور سنتوش مرکزی کردار ادا کر رہے تھے جبکہ لخت جگر میں میڈم نورجہاں ہیروئن تھیں۔ بابا چشتی کے ساتھ ایک مشکل یہ بھی تھی کہ فلم والے انہیں محض پنجابی فلموں کا موسیقار تصور کرتے تھے۔ بابا جی یوں تو کئی بار اردو فلموں میں اپنی موسیقی کا لوہا منوا چکے تھے مگر لخت جگر میں انہوں نے ایسی موسیقی بنائی کہ بھارت میں بھی چرچے ہونے لگے۔
بابا چشتی میں اگر کوئی بشری کمزوری تھی تو یہ کہ وہ مے نوش تھے۔ اور اپنے بڑے بیٹے سے بہت محبت کرتے تھے۔ دونوں ہی چیزوں نے انہیں تکلیف اور نقصان سے دوچار کیا۔ بیٹا لاڈ میں بگڑ گیا اور شراب خانہ‘ خراب نے ان کی صحت کو بگاڑ دیا مگر ٹھہریے کون کہتا ہے کہ شراب صحت کو بگاڑ دیتی ہے؟ کم از کم چشتی صاحب کی حد تک یہ مفروضہ درست نہیں ہے۔ وہ ہر شام باقاعدگی سے شراب پیتے تھے اور بہک بھی جاتے تھے مگر صبح سویرے نہا دھو کر تازہ دم کام پر موجود اور کام بھی ایسا کہ صبح سے رات گئے تک جاری رہتا تھا۔ کام کے دوران میں وہ دختر رز کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے۔ یہ تخلیقی کام تھا مگر بابا چشتی کو کبھی تھکا ہوا دیکھا نہ ہی بیمار‘ چنانچہ کہہ سکتے ہیں کہ شراب کم از کم بابا چشتی کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ انہوں نے 26 دسمبر 1994ء کو لاہور میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر 92 سال تھی مگر نہ بیمار تھے نہ معذور۔ عمر کے اعتبار سے کمزور البتہ ہوگئے تھے۔ ہمارا تو خیال یہ ہے کہ انہیں فلم والوں کی بے اعتائی اور بے قدری نے مارا ورنہ وہ ابھی مزید 92 سال زندہ رہتے اور ایک سے ایک خوبصورت دھن بنا سکتے تھے۔
بابا جی یوں تو کبھی کسی سے نہ بگڑتے تھے‘ نہ جھگڑا کرتے تھے۔ مگر جب غصہ آتا تو کسی کا بھی لحاظ نہ کرتے۔ گراموفون کمپنی نے ان کے گانوں کا ریکارڈ بنایا جس نے مقبولیت اور فروخت کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے۔ یہ زبیدہ خانم کی آواز میں گایا ہوا نغمہ تھا۔
واسطہ ای رب دا تُو جاویں وے کبوترا
یہ گانا ایسا مقبول ہوا کہ ہر ایک کی زبان پر یہی نغمہ تھا۔ ان دنوں صرف ریڈیو ہی پبلسٹی کا ذریعہ تھا اور ریڈیو پاکستان نے شروع ہی سے پاکستان کی فلمی صنعت کے ساتھ یک طرفہ جنگ شروع کر رکھی تھی۔ پاکستانی فلموں کے گاین یا تو بجائے نہیں جاتے تھے یا پھر چُن چُن کر خراب گانے پیش کئے جاتے تھے ورنہ یہاں فلمی موسیقی کو بہت عروج حاصل ہو جاتا۔ محض ریستورانوں میں ہی ریکارڈ بجائے جاتے تھے یا پھر لوگوں کو گانے زبانی یاد ہو جاتے تھے۔ بابا چشتی نے آغا گل کی فلم ’’دلا بھٹی‘‘ کے لئے یہ گانا بنایا تھا۔ اسی زمانے میں یہ لطیفہ ہوا کہ ایک رات بابا جی اچانک کسی پیشگی اطلاع کے بغیر عین آخری شو کے وقت میکلوڈ روڈ کے سینما پر پہنچ گئے۔ ان کے ڈھیر سارے بچے بھی ان کے ساتھ تھے۔ بابا جی موڈ میں تھے اور ان کی فرمائش تھی کہ سب کو فلم دکھائی جائے۔ فلم اتنی مقبول تھی کہ سینما کے اندر تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ بھلا سولہ سترہ افراد کیسے سما سکتے تھے۔ مگر بابا جی کا اصرار تھا کہ نہیں‘ ان سب کو ابھی اور اسی وقت فلم دکھاؤ۔ منیجر کی معذرت پر وہ بگڑ گئے اور بولے ’’آغا گل کو بلاؤ‘‘ اسی وقت‘‘
آغا گل فلم ساز تھے اور فلمی صنعت کے بہت بڑے ستون تبھی تھے مگر بابا جی نے شور مچا رکھا تھا کہ آغا گل کو اسی وقت بلاؤ ورنہ میں شو نہیں چلنے دوں گا۔ بہت سے لوگ انہیں دیکھ کر اکٹھا ہوگئے اور ایک تماشا لگ گیا۔
بابا جی نے منیجر سے کہا ’’ان سب کو سینما میں بٹھاؤ ورنہ میرا میوزک فلم میں سے باہر نکال دو۔‘‘
بے چارے منیجر کے لئے کوئی ایک شرط پورا کرنا بھی ممکن نہ تھا۔ جب جھگڑا بڑھ گیا تو آغا جی اے گل کو ٹیلی فون کر کے صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا ’’دیکھو بھئی‘ جس طرح بھی ممکن ہو‘ بابا جی کی فرمائش پوری کرو۔‘‘
منیجر نے کئی فلم بینوں کی ذاتی طور پر منت سماجت کی اور ان کی سیٹوں پر بابا جی کے خاندان کو بٹھایا گیا۔
گراموفون کمپنی نے ایک بار رشید عطرے صاحب کے گانوں کی ’’گولڈن ڈسک‘‘ بنائی تو بابا جی بگڑ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ میر ے گانے اتنے ہٹ ہو چکے ہیں مگر مجھے گولڈن ڈسک نہیں دی گئی۔
انہوں نے منیجر سے کہا ’’میں نے ایک ہی کبوتر چھوڑا تھا جو آج تک واپس نہیں لوٹا۔ ساری دنیا میں گھومتا پھر رہا ہے اور تم مجھے گردانتے ہی نہیں ہو۔‘‘
اس گانے کے ریکارڈوں سے اس زمانے میں چھ سات لاکھ روپے کی آمدنی ہوئی تھی۔
بابا چشتی بہت سینئر موسیقار تھے۔ پاکستان کے سبھی موسیقار اور گلوکاران کا احترام کرتے تھے۔ میڈم نورجہاں جو بہت کم ہی کسی کو خاطر میں لاتی ہیں۔ بابا جی کے آگے ادب سے کھڑی ہو جاتی تھیں۔ دراصل نورجہاں کا پہلا نغمہ کولمبیا ریکارڈنگ کمپنی کے لئے بابا چشتی نے ہی ریکارڈ کرایا تھا اس وقت نورجہاں کی عمر مشکل سے نو یا دس سال ہوگی۔ اس کے بول تھے ہنستے ہیں ستارے۔
فلم سوہنی مہینوال کے لئے انہوں نے امراؤ ضیا بیگم کی آواز میں ایک کورس بنایا تھا۔ ورہ کلاسیکی موسیقی پر یقین رکھتے تھے مگر ہلکے پھلکے اضافوں اور تبدیلیوں کے ساتھ تجربے بھی کرتے رہتے تھے۔ بابا چشتی کی موسیقی اور کارکردگی پر نظر ڈالنے سے پہلے بہتر ہوگا کہ ان کی زندگی کے حالات بھی بیان کر دئیے جائیں۔(جاری ہے)

فلمی وادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 154 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)