جامعہ پنجاب احسان مند رہے گی۔۔۔

 جامعہ پنجاب احسان مند رہے گی۔۔۔
 جامعہ پنجاب احسان مند رہے گی۔۔۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 یوں تو پاکستان میں سرکاری ادارے اکثر بد نام ہی رہتے ہیں نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ جب ہم کسی سرکاری ادارے کا نام سنتے ہیں تو بے ساختہ ہمارے ذہن میں کرپشن, بد عنوانی اور غیر ذمہ داری جیسے الفاظ گردش کرنے لگتے ہیں مگر جب جامعہ پنجاب جیسے ا داروں کا ذکر آتا ہے تو میرٹ,معیار اور نظم و ضبط جیسی چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جامعہ پنجاب ایک سرکاری ادارہ ہونے کے باوجود اپنا معیار اور نام اس قدر بلند رکھے ہوئے ہے؟ میری طرح آپ کے ذہن میں بھی یہ سوال کبھی نہ کبھی تو ضرور آیا ہوگا، شاید یہ ایک اتفاق ہو۔آج سے چند سال قبل تک مجھے بھی یہی لگتا تھا جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے انٹر تک میرا واسطہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے ہی رہا ہے جہاں فیس تو اگرچہ کچھ زیادہ ہوتی ہے مگر سہولیات بھی کم نہیں ہوتیں،اگر کوئی خاص مجبوری نہ ہو تو اکثریت پاکستانی والدین کی یہی کوشش رہا کرتی ہے کہ ان کے بچے پرائیویٹ اداروں سے تعلیم حاصل کریں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی بدنامی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ مجھے اب بھی یاد ہے کہ بچپن میں اکثر امتحانات میں کم نمبر آنے پر والدین سے یہ دھمکی سننے کو ملا کرتی تھی کہ اگر آئندہ ایسا ہوا تو تمہیں فلاں سرکاری سکول میں داخل کروا دیں گے، معلوم ہے نا گورنمنٹ سکولوں میں کیا ہوتا ہے، وہاں نہ تو تمہیں پینے کے لئے ٹھنڈا پانی ملے گا اور نہ ہی بیٹھنے کے لیے کرسیاں اور یہ بھی کہ وہاں نہ تو بجلی آتی ہے اور نہ ہی اساتذہ۔ میرا یہ نظریہ اس دن بدل سا گیا تھا جب میں صحافت میں ڈگری  کے لئے بطور طالب علم جامعہ پنجاب لاہور کے ادارہ علوم ابلاغیات کا حصہ بنا۔یہ وہ ادارہ ہے جس کی اپنی ایک شاندار تاریخ ہے،جہاں میری خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ ڈاکٹر اکرم سومرو اور ارشاد چوہدری صاحب جیسے عظیم اساتذہ سے سیکھنے کا موقع ملا۔جامعہ پنجاب پاکستان کا وہ سرکاری ادارہ ہے جہاں میرٹ اولین ترجیح سمجھا جاتا ہے اور جہاں معیار اور نظم و ضبط پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا مگر اس سب کو محض ایک اتفاق نہ سمجھا جائے یہ ان چند عظیم لوگوں کی محنت،لگن،جستجو اور جانفشانی ہے جس کی بدولت یہ ادارہ ملک میں اپنی ایک الگ پہچان بنائے ہوئے ہے اور اگر مزید دیکھا جائے تو پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد اختر سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ایک ایسی ہی شخصیت ہیں جن کی بے لوث خدمات اور انتھک محنت یہ یونیورسٹی ہمیشہ یاد رکھے گی۔ پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد نہ صرف ایک فرض شناس اور علم دوست انسان ہیں بلکہ ایک ایسی درد مند اور محب قدرت شخصیت ہیں جنہوں نے نہ صرف طلبہ و طالبات کو فیسوں میں رعایت دی بلکہ پرندوں تک کے لیے خوراک اور پانی کا بندوبست کروا یا۔ ڈاکٹر نیاز احمد ایک ایسے مخلص انسان ہیں کہ جن کی کاوشوں سے ہر گزرتے دن کے ساتھ جامعہ پنجاب نے دنیا کی بہترین جامعات میں شامل ہونے کا سفر طے کیا۔

یونیورسٹی کی چار سالہ کارکردگی رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی نے تمام شعبہ جات میں بلاتفریق تاریخ ساز ترقی کی۔ پنجاب یونیورسٹی شعبہ تعلقات عامہ کی رپورٹ کے مطابق 2018-22 ء پنجاب یونیورسٹی کی تاریخ میں سب سے زیادہ ترقی کے سال دیکھے گئے۔ وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد کی سربراہی میں جامعہ پنجاب میں تمام تعلیمی تحقیقی اور انتظامی شعبوں نے تاریخ ساز ترقی کی 2018-22ء کی رپورٹ کے مطابق پنجاب یونیورسٹی نے بین الاقوامی رینکنگ میں تقریبا 22 فیصد تک ترقی کی اور دنیا کی بہترین 78 فیصد سے ترقی کرکے 62 فیصد جامعات میں شامل ہوئی اور کیو ایس ایشین رینکنگ میں 87 درجہ ترقی کا بے مثال ریکارڈ قائم کیا۔کیو-ایس نے جامعہ پنجاب کو ایشیاء کی بہترین 175ویں جامعہ قرار دیا جبکہ نیچر پبلیشنگ نے پنجاب یونیورسٹی کو پاکستان میں نیچرل سائنسز میں نمبر 1 قرار دیا۔ آپ جامعہ کی ترقی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ 2018ء میں جامعہ پنجاب کا ایک بھی مضمون بین الاقوامی رینکنگ میں شامل نہ تھا اور 2022ء میں کیو ایس نے جامعہ پنجاب کے پندرہ مضامین کو دنیا کے بہترین اداروں میں شمار کیا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ پٹرولیم انجینئرنگ کودنیا کے 101 سے 150 بہترین اداروں میں شمار کیا گیا۔ مذہبی علوم میں پنجاب یونیورسٹی کو دنیا کے 101 سے 130 بہترین اداروں میں شمار کیا گیا۔ آئندہ پچاس سالہ قومی و تعلیمی ضروریات کے تحت پنجاب یونیورسٹی کی اکیڈیمک ری سٹرکچرنگ کی گئی جس کے باعث 2018-22ء  میں پنجاب یونیورسٹی میں 67 تدریسی شعبہ جات و تحقیقی مراکز کا اضافہ کیا گیا۔ پنجاب یونیورسٹی میں قومی و معاشرتی مسائل کا حل کرنے والی تحقیق کی پہلی مرتبہ خصوصی حوصلہ افزائی ہوئی۔2020ء میں یونیورسٹی اساتذہ نے سب سے زیادہ امپیکٹ فیکٹر تحقیقی مقالہ جات شائع کئے۔ اسی طرح چار سالوں میں یونیورسٹی کی تاریخ میں سب سے زیادہ تقرریاں و ترقیاں ہوئیں اور 2018-22ء  میں دہائیوں سے ترقی و اگلی تعیناتی کے منتظر اساتذہ و ملازمین کے مسائل حل کئے گئے۔ شعبہ تعلقات عامہ کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق 2018-22ء میں یونیورسٹی کی حالیہ پچاس سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ سینیٹ کے 8 اجلاس منعقد ہوئے جبکہ ان چار سالوں میں گڈ گورننس کے حقیقی ماڈل کو پہلی مرتبہ عملی جامہ پہنایا گیا۔


یہ ایک انتہائی فخر کی بات ہے کہ جامعہ پنجاب عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کر رہی ہے، یہ سب ڈاکٹر نیاز احمد اور ان جیسے لوگوں کی انتھک محنت لگن اور جستجو کا نتیجہ ہے جس نے آج دنیا میں ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ ڈاکٹر نیاز احمد صاحب جیسے لوگ ان عہدوں سے تو ریٹائر ہو سکتے ہیں مگر لوگوں کہ دلوں سے نہیں۔ اگر حکومت کی معاونت سے جامعہ پنجاب کے انفراسٹرکچر پر مزید کام کیا جائے اور ڈاکٹر نیاز جیسے لوگوں کو آگے لایا جائے تو وہ وقت دور نہیں کہ آکسفورڈ اور ہارورڈ کی طرح دنیا بھر سے علم کے متلاشی یہاں اپنی پیاس بجھانے آیا کریں گے۔

مزید :

رائے -کالم -