ادارہ جاتی ٹکراؤ کے ابھرتے سائے
دبئی لیکس، پاناما لیکس کی طرح ایک چونکا دینے والی دستاویز ہے جس میں پیارے پاکستانیوں کی 11ارب ڈالر کی املاک بارے بیان کیا گیا ہے یہ املاک اور ان کی مالیت وغیرہ بالکل واضح ہے اس میں کوئی ابہام نہیں پایا جاتا،کمپنیوں اور کاروبار میں سرمایہ کاری کی شکل میں چھپائی گئی دولت اس کے علاوہ ہے۔بادی النظر میں یہ دولت ناجائزہی لگتی ہے کیونکہ اپنے ملک سے ہٹ کر اور وہ بھی دبئی میں املاک و جائیداد کی خریداری کسی صاف شفاف دولت سے تو نہیں کی گئی ہو گی ابھی تک وزیرداخلہ نے اپنی جائیداد کے بارے میں وضاحت کرنے کی جسارت کی ہے کہ ان کی یہ املاک ڈیکلیئرڈ ہیں اور انہیں کاروبار کرنے اور جائیدادیں بنانے کا حق حاصل ہے انہوں نے یہ سب کچھ دس سال پہلے بنایا تھا جب وہ پبلک آفس ہولڈ نہیں کرتے تھے۔ پیپلزپارٹی نے بھی کچھ کچھ وضاحت دینے کی کوشش کی ہے لیکن وہ بہت زیادہ واضح اور شفاف نظر نہیں آتی کیونکہ یہ جائیدادیں جس طرح خریدی گئیں اور پھر بچوں کے نام منتقل کی گئیں وہ مشکوک سا نظر آتا ہے۔ بہرحال دبئی لیکس کے معاملے نے وہ شہرت حاصل نہیں کی جو پانامالیکس نے کی تھی۔ پاناما لیکس کے پیچھے ہماری فوج تھی جو اسے نوازشریف کے خلاف استعمال کرنا چاہتی تھی فوج نے عمران خان کو اس کام پر لگا دیا عمران خان نے اپنے بولنے اور دشنام طرازی کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس ایشو کو خوب اچھالا نوازشریف کو بدنام کرنے اور نااہل قرار دینے کے لئے پانامہ لیکس کا مقدمہ بنایا گیا کیونکہ یہ مقدمہ مبنی برحقائق نہیں تھا اس لئے نوازشریف کو اقامہ رکھنے کے جرم میں سزا دے دی گئی اس وقت تمام میڈیا بھی کنٹرولڈ تھا۔ عدلیہ بھی فوج کے ساتھ ایک ہی پیچ پر تھی اس لئے خوب منظر کشی کی گی کرپشن کے خاتمے اور قومی دولت لوٹنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے عزم صمیم کا اظہار بھی کیا گیا تھا لیکن ہم نے دیکھا کہ نوازشریف کو منظرِ سیاست سے ہٹانے کے بعد پاناما لیکس میں درج درجنوں پاکستانیوں کو کچھ نہیں کہا گیا اس لیک میں دو سو سے زائد پاکستانیوں کا ذکر تھا انہیں کچھ بھی نہیں کہا گیا۔
اب دبئی لیکس آ گئی ہیں اب کوئی جرنیل اس کے پیچھے نہیں ہے بلکہ اس میں بہت سے جرنیلوں کی جائیدادوں کا ذکر ہے، اب کوئی چیف جسٹس ثاقب نثار نام نہاد قومی مفادات کا پرچم بلند کرنے والا نہیں ہے۔ عمران خان کی طرح کا کوئی بولنے والا سیاستدان موجود نہیں ہے جو فوج کے ساتھ مل کر معاملات کو لے اُڑے۔ عمران خان اب جیل میں ہیں۔ جنرل باجوہ ملک سے باہر ہیں۔ نوازشریف کا بھائی وزیراعظم اور بیٹی وزیراعلیٰ کے مناصب پر فائز ہیں اس لئے دبئی لیکس کے معاملات سر اٹھاتے نظر نہیں آ رہے۔
ہمارے ہاں ادارہ جاتی چپقلش کی موجودگی کا تاثر دیاجا رہا ہے۔ عدلیہ اور انتظامیہ کے مابین کشمکش جاری ہے ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے اب عدلیہ نے مقتدرہ کی ہدایات پر عمل پیرا ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ ہماری ایجنسیاں پہلے بھی ایسے معاملات میں مداخلت کیا کرتی تھیں اور اب بھی کررہی ہیں وہ یہ سب کچھ قومی سلامتی اور قومی مفاد میں کرتی ہیں وہ ایسا کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں اور اسے قومی سلامتی کے لئے ضروری قراردیتی ہیں۔ ایجنسیوں کی اسی روش کے خلاف پہلے بھی آوازیں اٹھتی تھیں۔ جسٹس شوکت صدیقی کیس کو دیکھ لیں انہوں نے تو کھل کھلا کر، عوامی پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر ایجنسیوں کے اس کردار کو طشت ازبام کیا تھا نام لے کر بات کی تھی انہیں اسی جرم کی پاداش میں نوکری سے چلتا کر دیا گیا تھا اس وقت عدلیہ کے جج ساتھیوں نے شوکت صدیقی کے لئے شہادت حق کا فریضہ سرانجام دینے سے اجتناب کیا تھا اب ایسی ہی بات یعنی جو شوکت صدیقی نے کیا تھا، بہت سے جج کررہے ہیں اعلیٰ عدلیہ اس بات کا نوٹس لے رہی ہے فیصل واؤڈا جیسے کرداروں کا بھی محاسبہ کرنے کی سبیل کی جا رہی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ عدلیہ اب اپنا آپ دکھانے کی کوششیں کررہی ہے آزاد ہونے کے تاثر کو ابھار رہی ہے چلواچھی بات ہے لیکن دوسری طرف سانحہ 9مئی کے قومی ملزمان ایک سال گزرنے کے باوجود ابھی تک سزا یاب نہیں ہو سکے ہیں اس سانحے کا سب سے بڑا ملزم جیل میں بیٹھ کر نہ صرف اپنی پارٹی چلا رہا ہے بلکہ غرا رہا ہے ہر ایک کو، ڈرا رہا ہے،دھمکا رہا ہے، سوشل میڈیا کے ذریعے کذب بیانی کا شیطانی کھیل جاری رکھے ہوئے ہے اس نے جیل میں ہی بیٹھ کر دھڑلے سے فروری 2024ء کے انتخابات میں اپنی پارٹی کو جتوایا۔ سب سے زیادہ ووٹ لے کر ثابت کیا کہ ڈالے گئے ووٹروں کی اکثریت اس کے ساتھ ہے وہ اپنے آپ کو آج بھی عوام کا سب سے بڑا اور پاپولر لیڈر قرار دے رہا ہے ہماری دیگر سیاسی جماعتوں میں شاید اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ اس کے بیانیے،شعلہ بیانی، کذب بیانی، دشنام طرازی اور یاوہ گوئی کا مقابلہ کر سکیں۔ اس نے جس شیطانی انداز میں دجالی مکر و فریب کے ذریعے اپنے گرد مستانوں کا ایک جم غفیر اکٹھا کر لیا ہے جو عمران خان کو سیاست دان نہیں کوئی اوتار سمجھتے ہیں اور اس کے حکم پر کچھ بھی کر گزرنے کے لئے تیار رہتے ہیں سانحہ 9مئی اسی فکر و عمل کا اظہار ہے جس کے ملزم ابھی تک سزا نہیں پا سکے ہیں اب تو انہوں نے اس سانحے کے بارے میں غلط فہمیاں بھی پیدا کرنا شروع کر دی ہیں اگر ان کے مذموم پروپیگنڈے کی بات کریں تو ایسے لگتا ہے کہ اس سانحے میں ملوث افراد پاکستانی اور انصافی نہیں بلکہ خلائی مخلوق سے تعلق رکھتے ہیں۔