کالم نگاری اور ذاتیات
کل رات میرے ہاں کھانے پر کچھ عزیز و اقارب مدعو تھے جن میں میرا نواسہ اور اس کی اہلیہ بھی تھیں۔ کھانے سے پہلے حسبِ معمول گپ شپ کا ایک وقفہ ہوتا ہے۔ باتوں باتوں میں میرے نواسے نے مجھے بڑے پُرجوش انداز میں یہ ”خوش خبری“ سنائی کہ وہ اپنی بیوی کے ہمراہ امیگریشن ویزے پر اگلے ماہ کے اوائل میں کینیڈا جا رہا ہے۔ اس کو شایدامید تھی کہ میں اس خبر پر اظہارِ مسرت کروں گا۔
نواسے کا نام حسان زاہد ہے اور وہ خاصے طویل عرصے سے ہوائی جہازوں کی فلائنگ کررہا ہے۔ اس کی اہلیہ بھی رینجرز ہسپتال میں ڈاکٹر ہیں۔ میں نے پوچھا آپ دونوں میاں بیوی اپنی جنم بھومی چھوڑ کر پردیس کیوں سدھار رہے ہیں جبکہ دونوں برسرِ روزگار ہیں اور بظاہر آپ کو کوئی پرابلم نہیں۔ نواسہ کہنے لگا: ”نانا ابو! میں گزشتہ 5،6برس سے فلائنگ کررہا ہوں۔ بڑے جہازوں پر میری پرواز کے 2500گھنٹے مکمل ہو چکے ہیں۔لیکن کسی بھی ائر لائن میں اب تک مجھے کسی مستقل جاب کی آفر نہیں ہوئی۔ کالج کی تعلیم کے بعد فلائنگ کی ٹریننگ پر کم از کم ایک کروڑ روپے خرچ کر چکا ہوں جو میرے والدین نے خرچ کئے ہیں۔ لیکن باوجود ہزار کوشش مجھے کوئی مستقل فلائنگ جاب، کسی بھی پاکستانی ائرلائن میں نہیں مل سکا“۔
میں نے پوچھا: ”آپ کی Pay کتنی ہے؟“…… اس نے کہا کہ Pay تو کسی ریگولر پائلٹ کی ہوتی ہے۔ میں کسی بھی ائر لائن میں ریگولر فلائنگ پائلٹ نہیں بن سکا حالانکہ مجھ سے جونیئر دوست آج باقاعدہ پائلٹ ہیں اور ان کو اچھی خاصی Pay مل جاتی ہے۔ میں نوآموز پائلٹوں کو ٹریننگ دیتا ہوں۔ لیکن یہ کوئی ریگولر جاب نہیں۔ کبھی کسی ماہ زیادہ ”گھنٹے“ مل جاتے ہیں اور کبھی کم۔ لیکن کل ملا کر مجھے اوسطاً 30ہزار سے 40ہزار ماہوار Pay (یا اسے اعزازیہ سمجھ لیں) مل جاتے ہیں“۔
میں یہ سن کر خاصا حیران ہوا۔ میرا خیال تھا کہ وہ اچھے خاصے جاب پر تعینات ہے اور 40ہزار تو میں اپنے ڈرائیور کو دیتا ہوں جس کا بڑا کام (Main Job)بچوں کو سکول لے جانا اور پھر وہاں سے واپس لانا ہے۔ اس کی ڈیوٹی کے اوقات صبح 8بجے سے شام 4بجے ہوتے ہیں۔
پھر میں نے پوچھا کہ: ”تمہاری اہلیہ جو ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں، ان کی Pay کتنی ہے“…… اس نے جواب دیا کہ اس کی Pay 60ہزار ہے۔ میں یہ سن کر سوچ میں پڑ گیا۔ میرا ایک عزیز پرائمری سکول میں ٹیچر ہے اور اس کی ماہانہ تنخواہ 50ہزار ہے۔ کیا ڈاکٹر اور پرائمری سکول کے ٹیچر کا سوشل سٹیٹس ایک ہو چکا ہے؟ دریں اثناء میں نے ایک اور سوال پوچھا: ”کیا تمہاری اہلیہ شام کورینجرز ہسپتال میں اضافی ڈیوٹی دیتی ہیں؟“ اس کا جواب تھا: ”نہیں وہ ٹیچنگ ہسپتال میں ملازم ہے جہاں شام کو اضافی ڈیوٹی(اور اضافی آمدن) نہیں ہوتی“۔
پھر میں نے یہ پوچھا کہ اگر تم کینیڈا جا رہے ہو تو وہاں کیا گارنٹی ہے کہ تم کو اور تمہاری اہلیہ کو جاتے ہی کوئی جاب مل جائے گا؟…… اس نے بتایا کہ میرے والد (جو ایک ریٹائرڈ آرمی بریگیڈیر ہیں) نے ایک عرصے سے کوشش کرکے میرا امیگریشن ویزا لگوایا ہے اور وہاں ٹارنٹو (کینیڈا)میں اپنے ایک ریٹائرڈ آرمی آفیسر اور کولیگ کے توسط سے میرے اور میری اہلیہ کے لئے Jobs کا بندوبست کر دیا ہے۔ یہ ایک مشکل مرحلہ تھا جس پر مسلسل کئی ماہ تک کوشش و کاوش کے بعد ہم دونوں میاں بیوی کو ویزا بھی مل گیا اور جاب بھی۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ کینیڈا میں ڈاکٹر اور پائلٹ کی Pay اور الاؤنسز وغیرہ کا تناسب پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ اور کہیں بہتر ہے۔
میں نے حسبِ معمول حسان سے اتفاق نہ کیا اور کہا: ”جس ملک نے تم کو پڑھایا لکھایا، پائلٹ بنایا اور تمہاری اہلیہ کو ڈاکٹر بنایا، کیا اس ملک کا آپ پر کوئی حق نہیں؟“……یہ سن کر وہ کچھ دیر تک چپ رہا اور پھر بولا: ”کئی برس تک میں اپنے ملک کا احساس مند رہا ہوں۔ لیکن جب ملک میں لاکھوں کروڑوں روپے لگا کر میرے والدین نے مجھے پائلٹ بنایا اس میں آج میرے لئے کوئی آبرومندانہ کیریئر نہیں۔ کیا میں 40ہزار ماہوار کی آمدن میں (اور اگر اپنی اہلیہ کی آمدن بھی شامل کروں تو ایک لاکھ بن جائے گی) اپنے گھر کا خرچ پورا کر سکتا ہوں؟ فی الحال تو میرے ہاں کوئی اولاد نہیں۔ کل کلاں میں اپنی اولاد کی پرورش اور تعلیم کا خرچ کیسے پورا کروں گا“…… پھر اس نے بھرّائی ہوئی آواز میں کہا: ”میں اپنا گھر بار، خاندان، والدین اور رشتے دار چھوڑ کر اگر ہمیشہ کے لئے بیرون ملک جا رہا ہوں تو آپ کا کیا خیال ہے کہ میں نے بچپن، لڑکپن اور جوانی تک یہی کچھ سیکھا ہے کہ اپنی جنم بھومی کو ترک کرکے پردیس کا رخ کروں؟“
اس موضوع پر باتیں ہوتی رہیں۔ اتنے میں آواز آئی کہ کھانا تیار ہے۔ ہم ڈرائنگ روم سے اٹھ کر ڈائننگ ٹیبل پر چلے گئے۔
رات سونے سے پہلے تادیر سوچتا رہا کہ کیا پاکستان کے معاشی حالات اس قدر ابتر ہو چکے ہیں کہ لکھے پڑھے لوگ پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کی لوکیشن، اس کی بین الاقوامی حیثیت، اس کی جوہری اہلیت اور اس کی سماجی قابلیت رہ رہ کر یاد آتی اور تنگ کرتی رہی۔
صبح ہوئی تو اخبار (دی ایکسپریس، ٹریبون) کے پہلے صفحے یہ خبر نظر سے گزری: ”40فیصد پاکستانی ملک چھوڑنا چاہتے ہیں“۔
اس کی تفصیل اخبار کے صفحہ نمبر3پرتھی۔ یہ تین کالمی خبر خاصی تفصیلی تھی۔ اس میں لکھا تھا: ”تقریباً 40فیصد پاکستانی ملک چھوڑنا چاہتے ہیں جس کی کئی وجوہات ہیں جن میں اقتصادی مشکلات، سیاسی عدم استحکام، تعلیمی مواقع کا فقدان، بے روزگاری، مہنگائی اور دہشت گردی شامل ہیں۔ یہ خبر ڈنمارک کی وزارتِ خارجہ کی طرف سے بین الاقوامی مائی گریشن کی تنظیم کی طرف سے تیار کی گئی تھی اور حال ہی میں کراچی کی ایک تقریب میں اس کی تفصیل بتائی گئی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ دو برس سے غیر قانونی تارکینِ وطن کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ یہ غیر قانونی تارکینِ وطن، غیر قانونی طریقے سے گھروں سے نکلتے ہیں اور غیر قانونی راستوں سے بیرونِ ملک سفر کرتے ہوئے کئی بار حادثات کا شکار ہوئے ہیں۔ حال ہی میں یونان کے ساحل پر ایک کشتی ڈوب گئی تھی جس میں 300سے زیادہ پاکستانی تارکین وطن موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔
اس تقریب سے پاکستان پیپلزپارٹی کے ایک سینیٹر قراۃ العین مری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ صورتِ حال ملک کی سماجی اور اقتصادی زبوں حالی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اس میں کئی سیاسی عوامل بھی شامل ہیں۔ اس خبر میں کئی اعداد و شمار دیئے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن جو پاکستان سے نکل کر یورپ کا رخ کر رہے ہیں ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف دسمبر 2023ء کے اولین دو ہفتوں میں 8778 تارکین وطن غیر قانونی ذرائع سے یورپ گئے۔
یہ تفصیل خاصی دراز ہے۔ گزشتہ دو تین برس میں پاکستان سے یورپ اور امریکہ جانے والے افراد کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا ہے جو حکومت اور پاکستانی معاشرے کے لئے از بس باعثِ تشویش ہے۔
مجھے یہ خبر پڑھ کر اپنے نواسے اور اس کی اہلیہ کی باتیں یاد آئیں اور میں نے اپنے بھاشن میں ان کی ترکِ وطن کی کاوش کے خلاف جو دلائل دیئے تھے وہ گویا میرا منہ چڑانے لگے۔
کہا جاتا ہے کہ کالم نگار کو اپنے کالموں میں ذاتی زندگی کے حوالے دینے سے گریز کرنا چاہیے اور آپ بیتی کی جگہ جگ بیتی اچھے کالم کی شناخت ہوتی ہے…… میں سمجھتا ہوں کہ جگہ بیتی اور آپ بیتی کی آمیزش ہی کسی کالم کو وقیع اور قابلِ قبول بناتی ہے۔ صرف جگ بیتی پر کالم لکھتے چلے جانا گویا کسی اخبار کے بین الاقوامی ایڈیشن کی خبروں کی جگالی کے سوا اور کیا ہے؟