قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 90
ہمارے شوقیہ جھوٹ بولنے والے دوستوں میں ظہور نظر کا بھی جواب نہیں تھا۔ وہ بھی جب بہاولپور سے لاہور آتے تھے تو تازہ بتازہ جھوٹ اپنے ساتھ لے کر آتے تھے اور اس وثوق سے بات سناتے تھے کہ آدمی کو یقین آجاتا تھا۔ اس زمانے میں انہوں نے ایک یہ جھوٹ سنایا کہ یار لاہور کے دوست بھی بڑے یہ وہ ہیں۔ سلام مچھلی شہری یہاں آیا تھا اور کسی نے اسے لفٹ ہی نہیں کروائی اور وہ یہاں سے سیدھا بہاولپور میرے پاس چلا آیا اور وہاں پورا ایک مہینہ میرے پاس رہ کر اب وہ واپس گیا ہے لیکن لاہور کے سب دوستوں کے ساتھ بہت ناراض واپس گیا ہے۔ اور میں اسے اب ریلوے سٹیشن پر چھوڑ کر آیا ہوں۔ وہاں سے وہ کراچی جائے گا اور کراچی سے بحری جہاز کے ذریعے آگے جائے گا۔ سب نے پوچھا کہ کب آیا تھا یہاں تو بالکل نہیں آیا ۔ کہنے لگے کہ چھوڑو یار ایک تو سب لوگوں نے اس کی بے عزتی کی اور دوسرا یہ کہتے ہو کہ یہاں تو بالکل نہیں آیا تھا۔ پھر اس کی باتیں سنانے لگے کہ بہاولپور میں اس کے قیام کے دوران ہم نے اس کے اعزاز میں متعدد دعوتیں کیں۔ تم نے اخباروں میں نہیں پڑھا۔ خبریں تو کافی چھپی تھیں۔ سب دوستوں نے حیرت کا اظہار کیا پھر مجھے کہنے لگے کہ وہ کہتا تھا کہ قتیل سے تو میں زندگی بھر بات نہیں کروں گا۔ میں اس کے بارے میں بڑی آس لے کر آیا تھاکیونکہ سنا تھا کہ وہ بڑی محبت کرنے والا آدمی ہے۔ لیکن اس نے تو پہچاننے سے انکار کر دیا۔ میں نے کہا کہ ظہور نظر صاحب کیوں جھوٹ بولتے ہیں یہاں تو ہم نے ان کے بارے میں کوئی خبر نہیں پڑھی۔ کہنے لگے کہ یار ایک تو تم لوگ اخبار بھی نہیں پڑھتے ہو۔ اس کے بارے میں سب خبریں باقاعدہ چھپتی رہی ہیں اور میرے پاس بہاولپور میں سب اخبارات کے تراشے پڑے ہیں اور جب واپس جاؤں گا تو آپ لوگوں کو یہ تراشے بھیجوں گا۔ پھر کہنے لگے کہ وہ بہاولپور کے شہزاد گان سے تو بہت خوش گیا ہے کیونکہ انہوں نے خوب دعوتیں کی تھیں اور تحائف بھی دیئے لیکن لاہور والوں سے خوش نہیں تھا اور اب جب ہم لاہور آئے تو میں نے کہا کہ یہاں بھی کچھ دن دوستوں کے پاس رکتے ہیں تو وہ کہنے لگا کہ میں لاہور والوں پر لعنتیں بھیجتا ہوں۔ چنانچہ میں اسے ریلوے سٹیشن پر چھوڑ کر آگیا ہوں۔ پھر کہنے لگے کہ انہوں نے وہاں آکر مجھے یہ یہ نظمیں سنائیں اور میں نے یہ یہ اصلاح دی۔ ہم بہت سٹپٹائے ۔ لیکن جب تصدیق کی تو پتہ چلا کہ ظہور نظر صاحب سب جھوٹ کہہ رہے تھے اور وہ تو یہاں آئے ہی نہیں۔
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 89 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ظہور نظر کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ وہ نقلیں بہت اچھی اتارتے تھے اور شاعروں، مولویوں اور لیڈروں کی نقلیں ہو بہو اتارتے تھے۔ کبھی عطاء اللہ شاہ بخاری کی نقل اتارتے تو کبھی ظہیر کاشمیری کی اور کبھی بہاولپور کے کسی امام مسجد کی۔ ان کی نقلیں الفاظ میں تو ادا نہیں ہوسکتیں لیکن یہ سچ ہے کہ جس کی نقل اتارتے تو ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہو بہو وہ آدمی ہمارے سامنے موجود ہے۔ مولویوں کی نقلیں اتارنے میں انہیں خاص مہارت تھی اور آخر کار انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ گیا۔ شاعر تو زندہ دل آدمی تھے سب برداشت کر لیتے تھے لیکن مولویوں کی نقلیں انہیں مہنگی پڑیں۔
عطا ء اللہ شاہ بخاری بھی مولوی تھے اور ایک بڑے آدمی تھے جو خود اپنے ساتھ بھی مذاق کر لیتے تھے انہوں نے ایک بار ظہور نظر کو سامنے بٹھا کر خود ان سے اپنی نقل سنی۔ لیکن مولوی یہ بات کہاں برداشت کرتے ہیں کہ کوئی ان کی نقل اُتارے چنانچہ انہیں خمیازہ بھگتنا پڑا۔ اور وہ یوں کہ ان کی فیملی کے بہت سے لوگ احمد ی ہیں اور یہ اس وقت کی بات ہے جب احمدیوں کی اتنی مخالفت نہیں تھی جتنی آج ہے۔ اب ظہور نظر ایک سیدھے سادے پروگریسو آدمی ہیں، بلکہ پروگریسو سے بھی آگے کی چیز ہیں اور پورے لیفٹسٹ ہیں۔ یہ نہ تو سنی ہیں نہ شیعہ، نہ احمدی نہ کچھ اور۔ ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں کہ وہ کم از کم احمدی نہیں تھے۔ لیکن ان کے بارے میں مولویوں نے کہنا شروع کیا کہ یہ شخص مولویوں کی اس لیے تضحیک کرتا ہے کیونکہ یہ احمدی ہے ۔ بہاولپور کی ادبی سرگرمیاں انہی کی وجہ سے ہوتی تھیں۔ وہاں ایک مشاعرہ ہوا اور ظہور نظر پڑھنے کیلئے اٹھے تو درمیان سے گڑبڑ کی کچھ آوازیں آئیں۔ یہ بہت دلیر آدمی تھے لیکن اس وقت چپ ہو گئے۔ مگر جوں جوں یہ کلام پڑھتے رہے توں توں آوازیں آتی رہیں۔ آخر انہوں نے کلام روک کر کہا کہ کیا بات ہے اور تم لوگ بک بک کیوں کر رہے ہو۔ اور جن لوگوں کے تم ایجنٹ ہو ان کی بھی ایسی تیسی اور تمہاری بھی ایسی تیسی ۔ پھر کہا کہ مجھے جو ہونے کا تم کہتے ہو ان کی بھی ایسی تیسی۔ میں وہ نہیں ہوں۔ اس طرح انہوں نے اپنے بارے میں احمدی ہونے کی تردید کر دی، لیکن مولویوں نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ اور جب وہ فوت ہوئے تو مولویوں نے دو دن تک ان کا جنازہ نہیں پڑھنے دیا۔ حالانکہ وہ بہت شگفتہ دل تھے۔
میرے ابتدائی یا کچے گیتوں کا پہلا مجموعہ ’’ہریالی ‘‘ بہاولپور ہی سے چھپا تھا۔ وہاں عباسیہ اکیڈمی کے نام سے ایک پبلشنگ ادارہ تھا جس کی طرف سے حیات ترین ’’ستلج ‘‘رسالہ بھی نکلاتے تھے۔ وہ میرے بہت پیارے دوست تھے۔ ان سے مراسم بہت بڑھ گئے۔ 1950 ء کے لگ بھگ وہاں کے رئیس الرؤ ساحسن محمود صاحب سیاست میں اترے تو انہوں نے حیات ترین سے رابطہ کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس کے ادیبوں شاعروں سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ چنانچہ پہلے تو انہیں اخبار نکالنے کیلئے سرمایہ دیا ۔ چنانچہ وہ لاہور آئے اور رائل پارک میں اخبار کا دفتر بنایا۔
انہوں نے بہت سا روپیہ حیات ترین کے سپرد کیا اور کہا کہ لاہور کے اخبار والوں سے رابطہ کر کے کہو کہ وہ پریس کو میرے حق میں کر دیں اور میرے مخالف کے بیانات ذرا کم شائع کریں۔ یہ میری زندگی کا پہلا اور آخری تجربہ تھا کہ پریس والوں کو رشوت کیسے دی جاتی ہے۔ حیات ترین کالاہور میں سب سے اچھا دوست میں ہی تھا اور میرے تعلقات سب سے تھے۔ تو مجھے انہوں نے کہا کہ یہ کام میرے سپرد ہوا ہے اور میں یہاں پر اجنبی ہوں۔ اس لیے آپ میری معاونت کریں۔ اور ساتھ یہ بھی کہا کہ یہ کام ہے بھی جائز جیسا کہ ہر آدمی کہتا ہے کہ اس کا کام جائز ہے۔ اور کہا کہ دوسرا فریق بہت کمینہ ہے جبکہ حسن محمود بہت شریف آدمی ہے۔ چونکہ مخالف فریق بااثر ہے اور جھوٹے الزامات لگاتا ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ وہ ذرا ٹھنڈا رہے اور ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو۔ اور اس نے مجھے اس طرح اس بارے میں بریف کیا کہ میرے منہ میں بھی اس کے الفاظ ہی آگئے اور پھر مجھے کہنے لگا کہ یہ پیسے آپ رکھئے اور جو کسی کی چائے پانی کی خدمت کرنی ہو وہ بھی آپ ہی کیجئے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے ۔ چنانچہ سب پرچوں میں میرے جتنے بھی جاننے والے تھے اور جو لگو بھی اس معاملے میں مددگار ہو سکتے تھے میں نے جا کر ان سب کو ان گنہگار ہاتھوں سے پیسے دیئے اور ساتھ وہ سب کچھ بھی کیا جو مجھے کہا گیا تھا۔ اور تاکید کی کہ ان کے خلاف جو بیانات ہیں وہ شائع نہ کریں کیونکہ ان کا مخالف فریق بہت کمینہ ہے اور یہ آپ کا ہدیہ ہے۔
آج بھی ان صحافیوں میں سے بہت سے لوگ زندہ ہیں۔ البتہ کچھ مرچکے ہیں۔ ایک مرحوم صحافی جو لیڈر بھی تھے میں ان کے پاس بہت ڈرتے ڈرتے گیا اور کہا کہ مجھے پتہ ہے کہ آپ تو بہت مجاہد آدمی ہیں آپ سے تو گفتگو کرتے ہوئے بھی ڈرلگتا ہے لیکن ایک حق کی بات لے کر آپ کے پاس آیا ہوں کیونکہ آپ حق کے علمبردار ہیں اور پھر انہیں حسن محمود کے بارے میں ساری بات اسی طرح کہی اور کہا کہ ان کا مخالف بڑا کمینہ آدمی ہے اور انہیں بلیک میل کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے آپ ذرا مہربانی کیجئے۔ پھر کہا کہ آپ کے پرچے کی حالت آج کل بہت کمزور ہے اس لیے آپ ان کی طرف سے یہ پانچ ہزار روپے کا ہدیہ قبول کیجئے۔ اسے کچھ اور نہ سمجھئے بلکہ یہ آپ کے پرچے کی مدد کیلئے ہے۔ پانچ ہزار روپیہ اس زمانے میں بہت تھا جب میں نے سب صحافیوں کو پیسے پہنچا دیئے تو مجھے بھی حق المحنت کے طور پر بہت پیسے ملے۔ گویا اگر میں نے یہ حرام کام کیا تھا تو اس میں رزق حرام مجھے بھی ملا تھا۔ آج بھی جب میں اس واقعہ کے بارے میں سوچتا ہوں تو ہنستا ہوں کہ میں نے یہ رقم اسی طرح لی تھی جیسے واقعی حق المحنت ہو اور کام بھی اس طرح کیا تھاجیسے واقعی میں کوئی جائز کام کر رہا ہوں۔ کیونکہ میرے دوست حیات ترین نے مجھے Convince کر لیا تھا کہ بات حقیقتاً یہی ہے۔ لیکن بعد کے آنے والے واقعات سے پتہ چلا کہ جو انہوں نے کہا وہ سراسر ایک داستان تھی۔ جیسے دوسرا تھا ویسے ہی یہ تھے اور دونوں فریق اپنی مقصد براری کیلئے روپیہ خرچ کر رہے تھے اور ایک فریق کے فنڈ میں سے پیسہ میرے ہاتھ سے پریس میں تقسیم کیا گیا جس میں سے مجھے بھی میرا حصہ ملا۔ اللہ مجھے بخشے اور ان لوگوں کو بھی بخشے جن لوگوں نے یہ روپیہ کھایا تھا۔
یہ بھی ان دنوں کی بات ہے جب لائل پور کاٹن مل والوں کی جانب سے دہلی اور لائل پور میں مشاعرے ہوا کرتے تھے ۔ ان دنوں کاٹن مل والوں کا انڈو پاک مشاعرہ تھا ۔ انہی دنوں ہمارے ایک شاعر دوست احمد ریاض تھے جو تپ دق کے مرض میں فوت ہو گئے تھے۔ بہت خوش گو شاعر تھے۔ ان کے بعد ان کے بیوی بچوں کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں تھا۔ اس لیے وہاں پر ان کے بیوی بچوں کی امداد کیلئے احمد ریاض بینیفٹ مشاعرہ منعقد ہوا۔
نجانے کس نے شرارت کی تھی کہ جس روز لائل پور میں لائل پور کاٹن مل والوں کا مذکورہ بالا مشاعرہ ہونے والا تھا اسی دن احمد ریاض بینیفٹ مشاعرے کی بھی تاریخ رکھ دی گئی تھی۔ ہمیں پتہ چلا تو ہم نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم پہلے ایک طرف پڑھ لیں گے اور پھر دوسری طرف پڑھ لیں گے۔ لیکن ہمارے شاعروں کا کردار بحیثیت مجموعی درست نہیں ہے اور ہم لوگ بہت بے حس آدمی ہیں۔ اس مشاعرے کا جب شاعروں سے کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں پہلے کاٹن مل والوں سے پوچھنا پڑے گا۔ جب مل والوں سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم تو اس کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ آپ تو ہمارے مشاعرے کے لیے آئے ہیں۔ اب اپنے مؤقف پر وہ قائم رہے جو وہ مشاعرہ چھوڑ سکتا ہو۔ وہ اچھے خاصے پیسے دیتے تھے جبکہ احمد ریاض کے امدادی مشاعرے میں مفت پڑھنا پڑتاتھا۔
میں نے ایک ترقی پسند شاعر سے کہا جو بہت زیادہ ترقی پسندی کا دعویٰ بھی کرتے تھے توا نہوں نے الٹا مجھے سمجھانا شروع کیا کہ دیکھئے ہمارا تو کاٹن مل والوں سے معاہدہ ہے اور ہم ان کے مشاعرے کے اوقات کے دوران اور کہیں نہیں جا سکتے۔ اس لیے آپ احمد ریاض کے امدادی مشاعرے والوں سے کہئے کہ وہ کل کا دن رکھ لیں تو ہم آجائیں گے۔ میں نے کہا کہ مجھے اس بات کا پتہ ہے اور میرا بھی مل والوں سے معاہدہ ہے لیکن ایک درمیانی راستہ نکل سکتا ہے کہ ہم وہاں جا کر پہلے پڑھ آئیں پھر یہاں آجائیں گے ۔ اور پھر اگر ہم مل کر مل والوں سے کہیں گے تو وہ ہماری بات مان بھی سکتے ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ صاحب میں تو سمجھتا ہوں کہ انہیں یہ کہنا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ نہ کہیں۔
ایک دوسرے آدمی بھی وہاں تھے جو اچھی طبیعت کے تھے یہ ساحر صدیقی تھے۔ اس سے میں نے کہا کہ تم تو میرا ساتھ دو۔ کچھ نہیں ہوگا۔ اس نے کہا کہ پھر یہاں نہیں پڑھوائیں گے۔ اس لیے میں نہیں جاتا ۔ میں نے دوتین اور شاعروں سے بھی کہا لیکن کسی نے میرا ساتھ نہیں دیااور جس نے میرا ساتھ دیا وہ جمیل ملک تھے جو راولپنڈی سے تعلق رکھتے تھے اور میرے بھائیوں جیسے دوست ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ مل والوں سے بات کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے روی چوپڑا اور ساہنی جو کہ مل والوں کی طرف سے مشاعرہ کا انتظام کرتے تھے سے کہا کہ ہمارے ایک شاعر بھائی کا معاملہ ہے اس لیے آپ ہمیں اس مشاعرے میں جانے کی بھی اجازت دے دیجئے۔ ہم وہاں پڑھ کر ایک گھنٹے میں واپس آجائیں گے اور آپ کا مشاعرہ متاثر نہیں ہو گا۔ اور اگر آپ یہ نہیں کر سکتے تو میں تو آپ کا بائیکاٹ کرنے کیلئے تیار ہوں۔
وہ میرے مزاج سے واقف تھے۔ اس زمانے میں میں جو کہتا تھا وہ کر گزرتا تھا اور اپنے ساتھی بھی پیدا کر لیتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ کچھ دوست بھی تھے ۔ اس لیے کہنے لگے کہ آپ دونوں چپکے سے چلے جائیں اور وہاں مشاعرہ پڑھ کر آجائیں ۔ لیکن باقی لوگوں کو نہ چھیڑ ئیے۔ میں باقیوں کو ٹٹول چکا تھا اور ان میں سے کوئی بھی وہاں جانے کیلئے تیار نہیں تھا خاص طور پر ساحر صدیقی ۔ ہم نے نہ صرف وہاں جا کر مشاعرہ پڑھا بلکہ اپنے پلے سے بھی کچھ پیسے احمد ریاض کے امدادی مشاعرے کیلئے دیئے۔ اور واپس آگئے۔ ہم نے مل والوں کا مشاعرہ بھی آکر پڑھا ۔ یہاں کوئی ایسی غیر معمولی بات نہیں ہوئی۔
اس کے بعد ایساہوا کہ مری میں ایک مشاعرہ ہوا جس میں لاہور کے بہت سے شاعر گئے جن میں سے ایک ساحر صدیقی بھی تھے۔ راستے میں بات چلی تو میں نے ساحر صدیقی سے کہا کہ میں اپنی شاعر برادری کو جانتا ہوں کہ وہ کتنے پانی میں ہے لیکن میں نے احمد ریاض کے امدادی مشاعرے کیلئے تم سے بڑی آس لے کر بات کی تھی۔ مگر تم نے انکار کر دیا اور خدا جانے کب کس پر یہ وقت آجائے اور امداد کی ضرورت آجائے۔ اس لیے اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب انسان کو خود بھی اس کی ضرورت پڑ جائے۔ تو وہ چپ ہو گیا اور کچھ ندامت محسوس کی۔(جاری ہے )
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 91 پڑھنے کیلئے یہاں کریں۔