"مریم نواز کے ساتھ بیٹھی لڑکی کا والد بھی وہی جو اے ایس پی کے ساتھ کھڑا تھا" اصل حقیقت کیا ہے؟ جانئے

"مریم نواز کے ساتھ بیٹھی لڑکی کا والد بھی وہی جو اے ایس پی کے ساتھ کھڑا تھا" ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) سوشل میڈیا پر یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ نجی کالج میں مبینہ زیادتی کیس کے معاملے پر ایک ہی شخص کو دو بچیوں کا باپ بنا کر پیش کر دیا گیا  لیکن اس دعوے کی اصل حقیقت کیا ہے؟


صحافی ظہیر احمد نے اپنے ایک وی لاگ میں دعویٰ کیا کہ مذکورہ کیس میں جس شخص کو اے ایس پی شہربانو نے اپنے برابر کھڑا کرکے ویڈیو پیغام جاری کیا تھا اسی شخص کو مریم نواز کی پریس کانفرنس میں بیٹھی ہوئی لڑکی کا والد بھی بنا دیا گیا. سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے اسے پنجاب حکومت کی " باریک واردات" قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ پنجاب حکومت کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے. تو پھر اصل معاملہ کیا ہے؟


اس سارے معاملے کا آغاز اے ایس پی شہربانو نقوی کے ویڈیو پیغام سے ہوا. انہوں نے ویڈیو پیغام میں دو لوگوں کو اپنے ساتھ کھڑا کرکے کہا تھا کہ نجی کالج میں زیادتی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا. ان کے دائیں ہاتھ پر لڑکی کا والد کھڑا تھا جس نے چیک شرٹ پہنی ہوئی تھی.

 طالبہ کے والد نے کہا کہ ان کی بیٹی گھر میں گرنے کی وجہ سے کئی روز ہسپتال میں داخل رہی تھی لیکن ان کی بچی کے ساتھ غلط واقعے کو منسوب کیا جا رہا ہے. اے ایس پی نے اپنی ویڈیو میں کسی بچی کا نام نہیں لیا.


 اسی معاملے پر وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ایک پریس کانفرنس بھی کی. ان کے بائیں جانب پی ٹی آئی رہنما زرتاج گل کی بہن اور دائیں ہاتھ پر ایک طالبہ ماہ نور بیٹھی ہوئی تھی.

 یہ وہ لڑکی تھی جس کا مبینہ واقعے کے حوالے سے انٹرویو وائرل ہوا تھا جس طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کا واقعہ پیش آنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، مریم نواز نے اس کا نام عزہ بتایا اور اسی بچی کا باپ اے ایس پی شہربانو کے ساتھ کھڑا ہوا تھا.


بعد میں ایک ٹی وی پروگرام کے دوران مریم نواز کے ساتھ بیٹھی ہوئی ماہ نور کے والد کا انٹرویو چلایا گیا. اسی ٹی وی پروگرام میں ماہ نور کے والد کے طور پر اس شخص کی تصویر دکھائی گئی جو اے ایس پی شہربانو نقوی کے ساتھ موجود تھا.یہ پروگرام کی ٹیم کی غلطی تھی کہ انہوں نے تصدیق کیے بغیر یہ تصویر چلادی لیکن سوشل میڈیا پر اسے مریم نواز اور پنجاب حکومت کی " باریک واردات" قرار دیا جانے لگا جو کہ درست نہیں.

صحافی ظہیر احمد نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ٹی وی پروگرام سے ماہ نور کے والد کا انٹریو ڈیلیٹ کردیا گیا ہے. انہوں نے لکھا" دنیا ٹی وی نے ماہ نور کے باپ کا انٹرویو پروگرام سے ڈیلیٹ کر دیا کیونکہ وہی بندہ دوسری لڑکی کا باپ بھی بتا بیٹھے تھے".



 صحافی کی جانب سے کیا جانے والا یہ دعویٰ درست نہیں کیونکہ ماہ نور کے والد کا انٹرویو ابھی بھی یوٹیوب پر موجود ہے جو آپ یہ اوپر دیکھ بھی سکتے ہیں.

پنجاب پولیس نے بھی اس سلسلے میں وضاحت کی ہے اور کہا ہے کہ "سب کے گھروں میں مائیں، بہنیں اور بیٹیاں ہیں، ہماری آپ سے درخواست ہے کہ محض غلط خبر کی بنیاد پر والدین کے لئے ذہنی اذیت کا سبب نہ بنیں۔ کسی بھی ایسے واقعہ کی صورت میں پولیس خود اپنی مدعیت میں ایف آئی آر درج کرے گی مگر اس کے لئے ٹھوس شواہد اور مدعی کا موجود ہونا لازمی ہے لہذا موجودہ حالات میں والدین کا احساس کریں" پنجاب پولیس خواتین، بچوں اور معاشرے کے کمزور طبقات کے خلاف ہونے والے جرائم کو بہت سنجیدگی سے دیکھتی ہے۔

 لاہور میں سوشل میڈیا پر ایک نجی تعلیمی ادارے کے حوالے سے غیر مصدقہ واقعہ کو بنیاد بنا کر افواہوں کے ذریعے شہر میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اے ایس پی شہر بانو نقوی کے ہمراہ بچی کے والد اور چچا نے اینٹی ہراسمنٹ سیل تھانہ ڈیفنس بی سے اس پراپیگنڈا اور misinformation کی یکسر نفی کرتے ہوئے عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کیا جبکہ والدین اور شہریوں کو اس حوالے سے کیا اہم پیغام دیا۔

مزید :

قومی -اہم خبریں -