ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کی تعمیر کا ترمیمی معاہدہ

ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کی تعمیر کا ترمیمی معاہدہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبے کے ترمیمی معاہدے پر دستخط ہو گئے، ایران اب پائپ لائن تعمیر میں تاخیر پر ثالثی عدالت میں نہیں جائے گا۔انٹر سٹیٹ گیس سسٹم اور ایرانین گیس کمپنی کے درمیان ترمیمی معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں۔پاکستان کو2024ء تک پائپ لائن تعمیرکرنے کی مہلت بھی مل گئی اور اب تک جو تاخیر ہوئی اس پر پہلے سے طے شدہ معاہدے کے مطابق جرمانہ بھی ادا نہیں کرنا پڑے گا، دونوں ممالک مل کر منصوبے کی تکمیل کے لئے قابل ِ عمل حل نکالیں گے، گیس پائپ لائن کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد پاکستان،ایران سے750 ملین مکعب فٹ گیس یومیہ خریدے گا، سابقہ معاہدے کے تحت پاکستان کو گیس کی سپلائی2015ء میں شروع ہونی تھی۔
پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن کی تعمیر کا معاہدہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے آخری ایام میں ہوا تھا، چند ہفتوں بعد انتخابات(2013ء) ہوئے تو دوبارہ پیپلزپارٹی کی حکومت نہ بن سکی اور مسلم لیگ(ن) برسر اقتدارآ گئی، نئی حکومت نے ایران کے ساتھ کئے جانے والے پیپلزپارٹی کے معاہدے کو چنداں اہمیت نہ دی تاہم ایران کی حکومت یہ دعویٰ کرتی رہی کہ اس نے پاکستان کی سرحد تک پائپ لائن کی تعمیر کا کام مکمل کر لیا ہے۔ ایرانی دعویٰ اگر درست ہے تو ایرانی حکومت نے اپنے حصے کا تعمیراتی کام تیز رفتاری کے ساتھ بروقت مکمل کر لیا تھا، جبکہ پاکستان کی جانب صورت یہ تھی کہ سرحد سے نواب شاہ تک پائپ لائن کی تعمیر کے کام کی ابتدائی اینٹ بھی نہ رکھی جا سکی، ایک افتتاحی تقریب ضرور منعقد کی گئی، دونوں حکومتیں کبھی کبھار اِس سلسلے میں بیان جاری کرتی رہیں،ایران نے کئی بار یہ بھی کہا کہ اگر مقررہ تاریخ تک پائپ لائن کا کام مکمل نہ ہوا تو وہ روزانہ کے حساب سے ہرجانہ وصول کرے گا اورضرورت پڑی تواس مقصد کے لئے عالمی ثالثی عدالت میں بھی جائے گا۔
پاکستان کی حکومت کا خیال تھا کہ ایران عالمی اقتصادی پابندیوں کی زد میں ہے اور اگر پاکستان نے پائپ لائن کی تعمیر شروع کی تو اس پر بھی ان پابندیوں کے اطلاق کا امکان ہے۔یہ پابندیوں کا موہوم خوف تھا یا کسی بدنیتی کا معاملہ،اس بارے میں تو ہم کچھ عرض کرنے کی پوزیشن میں نہیں،لیکن یہی وہ دور تھا جب بھارت ایران سے مسلسل تیل خریدتا رہا اور کسی عالمی پابندی نے اس کا کچھ نہ بگاڑا، البتہ اس نے ان پابندیوں کا یہ فائدہ ضرور اٹھایا کہ ایران سے تیل ادھار خریدا اور ابھی تھوڑا عرصہ پہلے تک بھی اس تیل کی پوری قیمت ادا نہیں کی تھی، حیرت ہے کہ عالمی اقتصادی پابندیاں بھارت کا توکچھ نہیں بگاڑ پا رہی تھیں اور پاکستان کی حکومت بلا وجہ خوفزدہ تھی۔ ایک دو بار کسی ذمے دار نے یہ بیان بھی دیا کہ جب تک ایران پر پابندیاں ہیں اس وقت تک پاکستان اپنی سرزمین پر پائپ لائن کی تعمیر شروع نہیں کرے گا، اس طرح پائپ لائن کی تعمیر ایک طرح سے متنازع بن کر رہ گئی،پاکستان کو گیس کی ضرورت تھی جو قطر سے ایل پی جی درآمد کر کے پوری کی گئی، اس دوران پاکستان سے ہر جانے کی وصولی کا سوال بھی اٹھتا رہا اور ایران عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کرنے کی بات بھی کرتا رہا۔ اب دوطرفہ طور پر ترمیمی معاہدہ طے پا گیا ہے تو یہ پاکستان کے لئے مفید ہے اور2024ء تک اگر پائپ لائن تعمیر ہو جاتی ہے تو ایک مثبت پیش رفت ہو گی۔
معاہدوں کے معاملے میں پاکستان کی مختلف حکومتوں کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ ٹیتھیان کمپنی کو اِس لئے عالمی ثالثی ٹربیونل میں کامیابی ہوئی کہ پاکستان نے اس کمپنی سے ریکوڈیک معاہدہ کر کے توڑ دیا، اب یہ کمپنی بھاری جرمانے کی رقم وصول کرنے کے لئے مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے اور پاکستان کی حکومت فیصلے کے خلاف اپیل دائرکرنا چاہتی ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان نے اپنا مقدمہ پہلے اچھی تیاری کے ساتھ کیوں نہ لڑا اور اس سے بھی پہلے معاہدہ سوچ سمجھ کر کیوں نہ کیا گیا۔اگر یہ معاہدہ پاکستانی مفادات کو کوئی نقصان پہنچا رہا تھا تو بہتر تھا کہ یہ معاہدہ نہ کیا جاتا اور اگر کر لیا گیا تھا تو اسے نبھایا جاتا، اور اگر یہ بھی ممکن نہ تھا تو کمپنی کے ساتھ ٹربیونل سے باہر بات چیت کے ذریعے اس اُلجھے ہوئے معاملے کو سلجھایا جا سکتا تھا اور میڈیا رپورٹس کے مطابق تو کمپنی اب تک آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کے لئے تیار ہے، تاہم معلوم نہیں حکومتِ پاکستان اس سلسلے میں کون سا راستہ اختیارکرنا چاہتی ہے۔
ایران کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت بھی اس معاملے پر اچھی طرح غور نہیں کیا گیا،جب معاہدہ ہوا تھا اس وقت بھی ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد تھیں اگر پاکستان کو یہ خوف تھا کہ معاہدے پر عملدرآمد کی صورت میں پاکستان بھی ان پابندیوں کی زد میں آجائے گا تو بہتر تھا معاہدہ ہی نہ کیا جاتا، ویسے بھی عالمی معاہدوں کے بعض ثقہ ماہرین کے مطابق پاکستان نے تو اپنی سرزمین کے اندر پائپ لائن تعمیرکرنی تھی، جس کا پابندیوں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا،زیادہ سے زیادہ اگر کوئی خدشہ موجود تھا تو وہ یہ تھا کہ باقاعدہ گیس سپلائی شروع ہونے کی صورت میں پاکستان پابندیوں کی زد میں نہ آ جائے۔ یہ مرحلہ ابھی دورتھا پھر بھی اگر واقعتا یہ خدشہ تھا تو یہ اب بھی موجود ہے اور ایران، امریکی پابندیوں کی زد میں ہے، تو کیا امریکہ اس ترمیم شدہ معاہدے پر خوش ہو گا؟ اگر بعد میں کسی وقت امریکی ناراضی کا خوف ہے تو کیوں نہ ابھی سے اس پر غورکر لیا جائے،کیونکہ امریکہ تو ہر اس ملک سے ناراض ہے جو ایران کے ساتھ کسی قسم کا کاروبار کرتا ہے اور اب تو صدر ٹرمپ نے ایران پر حملے کی تیاری بھی کر رکھی ہے اور سعودی تیل کی تنصیبات پر ایرانی حملے کو بہانہ بنا کر جوابی کارروائی کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے، اِس لئے ان سب پہلوؤں پر ابھی سے اچھی طرح غور کر لیا جائے ایسا نہ ہوا کہ ترمیمی معاہدے کا حشر بھی پہلے والے معاہدے کی طرح ہو، ورنہ تو معاہدے کے مطابق 2015ء سے ایرانی گیس پاکستانی چولہوں میں جل رہی ہوتی۔

مزید :

رائے -اداریہ -