آئیں گمشدہ منزل کو ڈھونڈیں 

  آئیں گمشدہ منزل کو ڈھونڈیں 
  آئیں گمشدہ منزل کو ڈھونڈیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جب دماغ کی سوئی اُلٹا گھومتی ہے تو عجیب و غریب خیالات آتے ہیں،ایسی دنیا کی خبر لاتے ہیں جو ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھی جا سکتی۔آج کل کچھ اسی قسم کی کیفیت ہے۔ جی یہ چاہتا ہے ہم یکدم سب کے سب بدل جائیں، جو کچھ ہم نے77 برسوں میں روا رکھا ہے اس سے یو ٹرن لے کر دوسری سمت کو چلے جائیں،ایسے پاکستان کو ڈھونڈیں جو ہمارے آباؤاجداد کے خوابوں کا پاکستان تھا، جس کا خواب سجائے ہجرت کی گئی اور لاکھوں جانیں قربان ہوئیں،لیکن کیا ایسی اُلٹی سوئی گھوم سکتی ہے؟ جس بگاڑ کی زد میں ہم سات دہائیوں سے ہیں،اُس سے نجات حاصل کر سکتے ہیں،آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اوورسیز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو پاکستان کی کہانی سنائی ہے،اب اُن کی اِس بات کو مان کر میں اگر اپنی نسل کو کہانی سناتا ہوں تو میری سوچ اِس خدشے میں پھنس جاتی ہے کہ اس میں فخر کی کتنی باتیں ہوں گی اور ندامت کے کتنے واقعات ہوں گے،ہم نے جو زندگی گزاری ہے،وہ کئی حوالوں سے قابلِ فخر بھی ہے اور قابلِ شرمندگی بھی، ہم اپنی نسل تک وہ جذبہ ہی منتقل نہیں کر سکے جو قیام پاکستان کی بنیاد تھا۔ ہم نے تو اپنی نسل کے سامنے لوٹ کھسوٹ کے کلچر کو پروان چڑھایا،اُسے بتایا صرف اپنی ذات کو آگے رکھنا ہے، ملک کے مفاد کی زیادہ فکر نہیں کرنی، ہم نے اُسے یہ بھی بتایا ہے کہ ہم وہ نسل ہیں،جس کے سامنے ایک آمر نے یہ نعرہ رکھا کہ سب سے پہلے پاکستان، خود وہ آمر پاکستان کو آئین، جمہوریت اور قومی اقدار کے حوالے سے پیچھے دھکیلتا رہا،جس قوم کو یہ بتانے کی ضرورت پیش آ جائے کہ سب سے پہلے پاکستان کو رکھیں،اُس قوم کی ترجیحات کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔کیا ملک کو سب سے پیچھے بھی رکھا جا سکتا ہے؟ کیا کسی ملک کی قوم کا ایسا رویہ ہوتا ہے کہ وہ اِس حوالے سے ڈگمگا جائے، ملک کے مفاد کو آگے رکھنا یا اپنے انفرادی مفاد کو،یہ وہ پیارا ملک ہے کہ جس کے عوام کو ہمیشہ یہ پیغام دیا گیا وہ ملک کی خاطر قربانی دینے کے لئے تیار ہو جائیں،یعنی قربانی کے بکرے صرف عوام کو سمجھا گیا۔وہ طبقے جنہوں نے اس ملک کو جی بھر کے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا اس کی خاطر قربانی دینے سے ہمیشہ جان چھڑاتے رہے۔یہ کہنا بہت آسان ہے کہ سب سے پہلے پاکستان، اِس بات کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ایک دوسرا پُل صراط ہے جس پر سے گذرتے ہوئے سب کے پاؤں ڈگمگا جاتے ہیں جب تک پاکستان کی کہانی سے اس دو عملی کو ختم نہیں کیا جاتا، جو عوام اور طبقہ ئ اشرافیہ کی سوچ میں ہے،اُس وقت تک یہ کہانی ایک ایسی داستان رہے گی،جس میں کامیابی اور خوشحالی کے عناصر دور دور تک موجود نہ ہوں۔سب کچھ رعایا کے کاندھوں پر ڈال کے دریا پار کرنے کی خواہش ہمارے اکابرین کی سوچ رہی ہے، حالانکہ جب سفر کیا جاتا ہے تو دُکھ سُکھ بانٹ لئے جاتے ہیں۔

بس یہی وہ پس منظر ہے جو ایسی سوچیں اُبھارتا ہے کہ کاش ہم اس راستے سے لوٹ کر اُس طرف چلے جائیں جو وطن سے بے لوث محبت اور اس کی خاطر سب کچھ قربان کرنے کے جذبوں سے عبارت ہے،صرف عوام نہیں، بلکہ وہ سب لوگ،وہ سب ادارے، وہ سب طاقتور حلقے جو اب تک یہ سمجھتے رہے ہیں اس ملک پر  صرف ہمارا حق ہے اور ہم اسے جیسے چاہیں گے چلائیں گے،جب تک اپنی سوچ نہیں بدلتے۔پچیس کروڑ عوام کو اپنی رعایا سمجھنے کی بجائے طاقت نہیں سمجھتے،اُس وقت تک حالات کی سوئی اُس سمت کی جانب نہیں جائے گی جو ایک مضبوط، خوشحال، متحد اور توانا پاکستان کی راہ دکھاتی ہے۔اب ہے تو یہ خواب ہی کہ ایسا ہو جائے،کیونکہ تقسیم اتنی گہری ہے جسے پاٹنا آسان نہیں، عوام تو جی جان سے پاکستان کے لئے حاضر ہیں،اب بھی اُنہیں پاکستان کی خاطر آواز دی جائے تو سب کچھ بھلا کر دوڑے چلے آئیں گے،مگر سوال یہ ہے انہیں یہ احساس کون دلائے گا یہ اُن کا پاکستان ہے اور اس پر چند فیصد اشرافیہ کی عملداری نہیں۔تجربے پر تجربہ کرتے جائیں،وہ تجربہ ہی رہے گا حاصل وصول کچھ نہیں ہو گا۔ جب تک مہذب دنیا کے طور اطوار اپنا کر ہم اپنے ہاں ایسی شفافیت نہیں لاتے، جس میں قوم یہ سمجھ رہی تھی کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اسے عروج کی طرف لے جانے کے لئے ہے، غلام یا زوال پر آمادہ بنانے کے لئے نہیں، اس وقت تک تقریروں کی چاشنی یا وعدوں کی شیرینی کوئی تبدیلی نہیں لا سکتی۔ 77برس بہت ہوتے ہیں ان ستتر برسوں میں تو ہم نے اپنے ملک کا آدھا حصہ بھی گنوایا ہے۔یہ اتنا بڑا تجربہ اور سانحہ ہے کہ جس کے بعد ہماری سوچ بدل جانی چاہئے تھی، آنکھیں کھل جانا چاہئیں تھیں،مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ہم آج بھی خدشات اور خیال و خواب کی آندھیوں سے لڑ رہے ہیں، اپنی حقیقی سمت کا تعین نہیں کر سکے۔

دنیا میں شاید ہی کوئی اور ملک ایسا ہو جو77سال بعدبھی استحکام کی جانب تجربات سے گذر رہا ہو۔1973ء میں جنہوں نے ایک متفقہ آئین بنایا تھا اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ پچاس سال گذرنے کے باوجود اس آئین پر تجربات ہی ہوتے رہیں گے۔اب تک 26ترامیم ہو چکی ہیں گویا ہم نے ایک سال میں دو ترامیم کی ہیں پھر اس کا ڈھانچہ بدل دیا ہے۔ملک کی سب سے بڑی عدالت میں دو عدالتی نظام نافذ کر دیئے ہیں اس کا خیال آئین سازوں کو کیوں نہیں آیا،اس کا جواب بھی ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ آئین کو آسمانی صحیفہ  نہیں ہوتا، اُس میں وقت کے ساتھ ساتھ پیدا ہونے والی ضروریات کے پیش ِ نظر ترامیم ہوتی رہتی ہیں تاہم سوال یہ ہے کیا ہم ان ترامیم کے علاوہ اپنی سوچ اور حکمت عملی میں بھی تبدیلی لائیں گے، اس وقت تو لگ رہا ہے ہم نے آئینی اداروں کو مضبوط کرنے کی بجائے کمزور کر دیا ہے۔ پارلیمنٹ کی سپرمیسی پر سوال اُٹھ رہے ہیں۔ کہانی تو بڑی سادہ تھی، مگر اب الجھتی جا رہی ہے، مستحکم، جمہوری اور خوشحال پاکستان اس قوم کا خواب ہے اس خواب کی تعبیر کے لئے کوششیں ہونا چاہئیں اس کے لئے صرف عوام سے نہیں کہا جا سکتا وہ قربانی دیں یا مفادات اور سیاست سے بلند ہو کر سوچیں،اس کے لئے تو سب کو اپنے مفادات کے بت توڑنا ہوں گے۔ ہم نے77 برسوں میں ایک سمت کی طرف جا کے بہت کچھ دیکھ لیا۔اب ہمیں ہمت کر کے دوسری طرف جانے کی کوشش بھی کر لینا چاہئے۔شاید ہم اُس منزل کی طرف چل نکلیں جو قیام پاکستان کے وقت طے کی گئی تھی اور جسے ہم نے قائداعظمؒ کی وفات کے بعد گنوا دیا۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -