ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری کی ابوالکلامیاں

ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری کی ابوالکلامیاں
ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری کی ابوالکلامیاں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مولانا ابوالکلام آزاد کی علمی و سیاسی زندگی کے تین نمایاں دور ہیں:پہلا دور”الہلال“ اور ”البلاغ“ کا ہے، جب اُن کی تحریروں نے مسلمانوں کو اسلام کی نشاة ثانیہ کا خواب دکھایا تھا۔دوسرے دور میں وہ خالص سیاست دان بن گئے اور متحدہ قومیت کے علمبردار! تیسرا دور تقسیم سے اُن کی رحلت تک کا ہے ،جب اُن کے پاس وزارت تعلیم کا قلمدان تھا۔پہلے دور میں اُنہوں نے ”حزب اللہ“ تنظیم بنائی اور سینکڑوں مسلمان ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار ہو گئے۔ابھی یہ تحریک ابتدائی منازل میں تھی،جب خلافت، ہجرت اور عدم تعاون کی تحریکوں نے سارا منظر تبدیل کردیا۔مولانا بھی دعوت و ارشاد کا راستہ چھوڑ کر سیاست کی بھول بھلیوں میں گم ہوگئے۔ شاید انہیں زمینی حقائق نے یہ راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا تھا۔
مولانا آزاد کو اب مسلمانوں کے قومی وجود کی بقاءکی فکر لاحق تھی(یہی فکر مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو 1938ءمیں لاحق ہوئی تو وہ بھی علمی انقلاب برپا کرنے کے منصوبے سے دستبردار ہوگئے) مولانا آزاد کا شمار انڈین نیشنل کانگریس کے صنف اول کے قائدین میں ہوتا تھا۔ وہ کانگریس کے دیگر ہندو اور مسلم قائدین کے اس خیال کے حامی تھے کہ تمام ہندی اقوام کو مذہبی اختلافات بھلا کرآزادی کے لئے جدوجہد کرنی چاہیے۔دوسری طرف انگریز حکمران تھے جو 1857ءکی جنگ آزادی کے بعد سے غلام قوموں کے درمیان فاصلے پیدا کرتے آ رہے تھے ۔ وہ جس وقت بھی ان کے درمیان اتفاق و اتحاد کی فضا بنتی دیکھتے، فوراً کوئی ایسا تنازعہ کھڑا کردیتے ،جس کی وجہ سے اتفاق و اتحاد کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف عدم اعتماد کی صورت حال پیدا ہو جاتی ۔
بعض ہندو رہنماﺅں نے اپنی قوم میں ہندو مذہب کے احیاءکا احساس پیدا کیا، مسلمانوں سے نفرت کا درس دیا اور انہیں ملیچھ (ناپاک) قرار دیا۔ ہندو مہاسبھا کٹر ہندو تنظیم تھی۔اس کا کانگریس پر اتنا اثر تھا کہ کانگریسی رہنما مسلمانوں کے مفاد میں کوئی فیصلہ کر نہیں پاتے تھے۔ دوسری طرف مسلمانوں میں اسلام کی روح پھونکنے والے رہنماﺅں اور تنظیموں کی بھی کمی نہ تھی۔سرسید احمد خان ، سید امیر علی، علامہ اقبال، مولانا ابوالکلام آزادؒ(پہلا دور) ، علامہ عنایت اللہ مشرقی، سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ،مولانا ظفر علی خان وغیرہ ایسے رہنما تھے جن کی تعلیمات میں اسلام کی سربلندی کا جذبہ پایا جاتا تھا۔آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کے حقوق کے لئے سرگرم عمل تھی۔انگریز حکمران آہستہ آہستہ اہل ہند کو جو آئینی حقوق دے رہے تھے ان میں ہر قوم اپنے مفادات زیادہ سے زیادہ محفوظ کرلینا چاہتی تھی۔نہرو رپورٹ کے مقابلے میں قائداعظم کے چودہ نکات کا آنا اسی حقیقت کی غمازی کرتا تھا۔

آل انڈیا مسلم لیگ نے مارچ 1940ءمیں اپنے لئے الگ وطن کے قیام کا مطالبہ کیا تو کانگریس نے اس نظریئے کی شدید مخالفت کی۔اس سے پہلے 1937ءمیں جو صوبائی انتخابات ہوئے تھے، اُن میں کانگریس جیت گئی تھی ،لیکن وزارت سازی کے مرحلے میں وہ مسلم لیگ کو شریک اقتدار کرنے پر تیار نہ ہوئی۔اُ س وقت جیت کا نشہ سب سے زیادہ پنڈت جواہر لال نہرو کے سر پر سوار تھا۔ان کے متکبرانہ رویئے نے مسلم لیگ کو مایوس کر دیا۔ مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ اگر آج ان کا وجود تسلیم نہیں کیا جا رہا تو کل کیا ہوگا۔
مسلم لیگ کا انگریزوں سے مطالبہ یہ تھا کہ وہ ہندو مسلم تنازعے کو حل کئے بغیر نہ جائیں۔تنازعے کے تصفیے کے لئے کئی طرح کے منصوبے سامنے آئے۔جب کسی سکیم پر کانگریس اور لیگ میں تصفیہ ممکن نہ ہوا تو بالآخر انگریز حکومت نے برطانوی کابینہ کے تین افراد پر مشتمل ایک کمیشن مقرر کیا،جسے عام طور پر کیبنٹ مشن کہتے ہیں۔مشن نے ہندوستانی معاشرے کے تمام طبقات سے مشاورت کے بعد ایک حل تجویز کیا، اسے تاریخ میں کیبنٹ مشن پلان کا نام دیا جاتا ہے۔اِس پلان کے مطابق ابھی دس سال تک ہندوستان متحد رہتا۔اس پلان کو پہلے کانگریس نے تسلیم کیا، اس کے بعد مسلم لیگ نے بھی کافی غوروفکر کے بعد قبول کرلیا۔
اب یہ دوسرا موقع تھا جب پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنے متعصبانہ رویئے سے لیگ کو مایوس کیا۔ اُنہوں نے کانگریس کی کمان سنبھالتے ہی 10 جولائی 1946ءکو بمبئی میں پریس کانفرنس کی جس میں اعلان کیا کہ ”کانگرس آئین ساز اسمبلی میں شامل تو ہو گی تاہم وہ اُس وقت تک ایسا کرے گی جب تک ہندوستان کا وقار اجازت دے گا۔ کانگرس آئین ساز اسمبلی میں شامل تو ہو گی تاہم وہ اُس وقت تک ایسا کرے گی جب تک ہندوستان کا مفاد اجازت دے گا۔ کانگریس جس چیز کو اپنی دانست میں مناسب سمجھے گی ،اِس کے مطابق کابینہ مشن پلان میں ردوبدل کرنے میں پوری طرح آزاد ہو گی“۔ (حصول پاکستان، ص 23) اِس کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے کینٹ مشن پلان کو قبول نہ کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی راست اقدام کا فیصلہ بھی سنا دیا۔ اِس کے بعد اگر فسادات کی آگ بھڑک اٹھی تو اس میں قصور کس کا تھا۔ صرف پاکستانی ہی نہیں تقریباً تمام بھارتی مورخین کھلے لفظوں میں لکھتے ہیں کہ ہندوستان کے اتحاد کے امکانات پنڈت جواہر لال نہرو کے اس بیان نے ختم کئے تھے۔ پنڈت نہرو کے سیاسی سوانح نگار مائیکل بریچر نے اس بیان کو نہرو کی چالیس سالہ زندگی کا سب سے زیادہ آتش بار اور اشتعال انگیز بیان قرار دیا ہے۔ خود ابو الکلام آزاد نے اس واقعہ کو تاریخ کے ان بدقسمت واقعات میں سے ایک قرار دیا جنہوں نے تاریخ کا رخ بدل ڈالا۔

قارئین! میں معذرت چاہتا ہوں کہ تمہید ذرا طویل ہو گئی، اب میں آتا ہوں اصل مضمون کی طرف! گزشتہ ہفتے جناب ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری نے سندھ ساگر اکیڈمی لاہور کی طرف سے الحمرا ہال نمبر 3 میں لیکچر دیا۔ اس تقریب کا اہتمام مولانا ابو الکلام آزاد کے ہفتہ وار جریدے ”الہلال“ کے اجرا پر ایک صدی مکمل ہونے پر کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب پاکستان میں مولانا غلام رسول مہر اور آغا شورش کاشمیری کے بعد سب سے بڑے ابوالکلامی سمجھے جاتے ہیں۔ اُنہوں نے مولانا آزاد کی کتاب ”انڈیا ونز فریڈم“ کا اردو ترجمہ (مع توضیحی نوٹس) شائع کیا۔ اِس کے علاوہ مولانا کی بے شمار تحریریں ترتیب دی ہیں۔ اُنہوں نے اپنا لکھا ہوا مقالہ پیش کرنے کی بجائے گفتگو کرنے کو ترجیح دی۔ کیبنٹ مشن پلان کے بارے میں انہوں نے جو ارشاد فرمایا وہ میں اُنہیں کے الفاظ میں پیش کئے دیتا ہوں.... حیرت ہوتی ہے کہ اچھا بھلا عالم آدمی ایسی بے ربط گفتگو بھی کر سکتا ہے۔ یوں لگتا ہے ڈاکٹر صاحب یہ نہیں چاہتے تھے کہ کیبنٹ مشن کی ناکامی کا کھلم کھلا الزام کانگرس پر آئے چنانچہ وہ بار بار اکھڑ جاتے تھے۔ کوئی جملہ سلامتی سے ادا نہ کر پائے ممکن ہے اس کی وجہ ان کی پیرانہ سالی بھی ہو۔ لیکن ان کا قائداعظم کو جناح، جناح کہہ کر یاد کرنا اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ قیام پاکستان کے فیصلہ کی رنجش ہنوز دل میں موجود ہے۔ انہوں نے کیبنٹ مشن پر جو بے سرو پا سا تبصرہ کیا، وہ ملاحظہ فرما لیجئے:
”....1945ءگزر گیا۔ کیبنٹ مشن آیا، کئی مہینے کی جدوجہد کے بعد اس نے ایک پلان بنایا۔ اسے سب نے قبول کر لیا۔ بالآخر غور و فکر کے بعد مسلم لیگ نے بھی اسے قبول کر لیا۔ وائسرائے ویول وزیر اعظم برطانیہ لارڈ رسل کو مطلع کیا گیا کہ لیگ نے کیبنٹ مشن پلان کو منظور کر لیا ہے۔ چرچل صاحب جو تھے اس وقت برطانیہ کی طرف سے باہر سفر کے اوپر تھے، فوراً انہوں نے تار کے ذریعے سے وائسرائے ہند کو مطلع کیا کہ یہ فیصلہ غلط ہے۔ وائسرائے نے لیگ کو مطلع کیا کہ فوراً لیگ نے، لیگ نے فوراً اس کو اعلان کر دیا کہ اسے یہ کیبنٹ مشن کا منظور کردہ پلان اسے منظور نہیں ہے اور وہ اس سے دستبردار ہوتی ہے۔ لیکن حکومت کی تقسیم اور پاکستان کی منظوری شق غالب آئی۔ اس نے ذمے دار پنڈت جواہر لال نہرو کو ٹھہرایا۔ انہوں نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں اس کا اعلان کیا اور لیگ نے ثابت بھی کر دیا۔ اس وقت تک تاریخی سفر ستمبر 1946ءتک پہنچ چکا تھا۔ تاریخ کا پہیہ گھوم چکا تھا۔ 1945ءمیں ٹھیک اس مقام پر گھوم کر 1945ءمیں ٹھیک اس مقام پر پہنچ چکا تھا جہاں سے ماﺅنٹ بیٹن کے بیان سے چلنا شروع کیا تھا“۔
موضوع تو ”الہلال“ تھا لیکن ڈاکٹر صاحب نے سارا وقت یہ بتانے میں صرف کر دیا کہ مولانا آزاد مسلمانوں کے دل سے خیر خواہ تھے۔ وہ ہندوستان کی تقسیم تو نہیں چاہتے تھے لیکن پاکستان بن گیا تو وہ اس کا استحکام چاہتے تھے پاکستان سے جتنے لوگ بھی انہیں ملنے جاتے، مولانا انہیں یہی مشورہ دیتے کہ پاکستان بن گیا ہے تو اس کی مضبوطی کی فکر کرو اس ضمن میں ڈاکٹر صاحب نے ایک واقعہ بھی سنایا جو اس وقت تک ہمارے علم میں نہیں تھا۔ انہوں نے کہا یہ روایت مجھ سے مولانا غلام رسول مہر نے بیان کی تھی۔ مہر صاحب بتاتے ہیں کہ تقسیم کے بعد جب میں تحریک مجاہدین پر کام کر رہا تھا تو مجھے کچھ تاریخی ریکارڈ دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی جو ٹونک کی پبلک لائبریری میں محفوظ تھا لیکن ٹونک تک پہنچنا دشوار تھا۔ چنانچہ میں نے مولانا آزاد کو خط لکھا۔ مولانا نے جواب دیا کہ آپ آ جائیں، میں وہ کتابیں یہاں دہلی میں منگوا لیتا ہوں۔ میں مولانا آزاد سے ملا تو انہوں نے کہا، میں نے آپ کے ٹکٹ کا بندوبست کر دیا ہے، آپ سردار عبدالرب نشتر تک میرا ایک پیغام پہنچا کر لوٹ آئیں اور واپس آ کر کتابوں کا مطالعہ کر لیں۔

 مہر صاحب کہتے ہیں، میں اسی وقت لاہور آیا، اس وقت نشتر پنجاب کے گورنر تھے۔ میں گورنر ہاﺅس گیا تو نشتر صاحب سے ملنا بہت مشکل ہو گیا۔ پریشانی کے اس عالم میں ایک اعلیٰ افسر کام آ گئے۔ وہ مجھے جانتے تھے، پوچھنے لگے، آپ ادھر کیسے آئے؟ میں نے کہا مجھے نشتر صاحب سے ایک ضروری بات کہنی ہے، ان سے میری ملاقات کرا دیں۔ چنانچہ ان صاحب کی کوشش سے میری مشکل آسان ہو گئی۔ نشتر صاحب مجھے بہت دیر سے جانتے تھے۔ میں نے انہیں مولانا آزاد کا یہ پیغام دیا کہ بنگالیوں سے زبان کے مسئلے پر نہ الجھیں۔ میں ایک مدت تک بنگال میں رہا ہوں۔ میں ان کے مزاج کو خوب سمجھتا ہوں۔ وہ اپنی زبان اور ثقافت کے بارے میں بہت حساس ہیں۔ وہ بنگالی چھوڑ کر کبھی اردو کو بطور قومی زبان تسلیم نہیں کریں گے۔ اگر آپ نے جبری طور پر ان پر اردو کو مسلط کرنے کی کوشش کی تو مجھے ڈر ہے کہ اس سے پاکستان کا متحد رہنا مشکل ہو جائے گا۔“
مولانا مہر کہتے ہیں کہ مولانا ابو الکلام آزاد کا پیغام سن کر نشتر صاحب نے کہا، میں تو خود بے بس ہوں، میرے اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ انہوں نے مجھے مرکز سے نکال کر یہاں لا بٹھایا ہے۔ میں آتے جاتے لوگوں کے مسائل سنتا ہوں یا فائلوں پر دستخط کر دیتا ہوں۔ اس کے سوا میرا کوئی کام نہیں مولانا مہر کا کہنا ہے کہ جب میں نے واپس دہلی پہنچ کر نشتر صاحب کے جواب سے مولانا آزاد کو آگاہ کیا تو انہیں بہت دکھ ہوا“۔
محترم ڈاکٹر صاحب نے اپنے لیکچر میں مولانا آزاد کے کچھ اور مشورے بھی بیان کئے مثلاً ایک تو یہ کہ اگر ڈکٹیٹر شپ سے اپنے ملک کو بچائے رکھنا چاہتے ہو تو الیکشن کرواتے رہنا۔ دونوں ملکوں کو مشورہ دیا کہ ملازمین کو تقسیم نہ کرو۔ اگر بھات سے سارے ملازمین پاکستان چلے جائیں گے تو پاکستان میں پہلے سے رہائش رکھنے والوں کے بچے ملازمت حاصل نہ کر سکیں گے۔ کیونکہ عام طریقہ کار یہ ہے کہ اگر کوئی ملازم فوت ہو جائے تو اس کی جگہ اس کے بچے یا بھتیجے کو رکھ لیا جاتا ہے۔ مولانا آزاد نے ایک نوجوان مسلم بچی کو بھی اپنے والدین کے ساتھ پاکستان چلے جانے کا مشورہ دیا۔ وہ لڑکی نیشنلسٹ خیالات رکھتی تھی اور اکیلی بھارت ٹھہرنے پر مصر تھی۔ مولانا نے اسے سمجھایا کہ تمہارے جذبات اپنی جگہ لیکن یہاں اکیلے رہتے ہوئے تمہیں بہت مسائل پیش آئیں گے، بہتر ہے تم اپنے والدین کے ساتھ چلی جاﺅ۔

ڈاکٹر صاحب نے لیکچر کا اختتام اس بات پر کیا کہ جب تک مولانا آزاد اور پنڈت نہرو اقتدار میں رہے پاکستان سے جنگ کی نوبت نہ آئی۔ ان دونوں رہنماﺅں نے دونوں حکومتوں کے درمیان ہونے والے معاہدوں کو پوری کوشش سے برقرار رکھا۔ تفصیل کا محل نہیں ورنہ ہم عرض کرتے کہ تقسیم کے بعد بھارت نے پاکستان کے لئے کیسی کیسی مشکلات پیدا نہیں کیں۔ سب سے پہلے تو پاکستان کو اِس کے حصے میں ملنے والا پیسہ روک لیا، پھر اسلحہ بھی پورا نہ دیا۔ پاکستان کا پانی بھی روکنا شروع کر دیا۔ لیاقت علی خان کے دور میں بارڈر پر فوجیں جمع کر دیں، جن کی وجہ سے لیاقت علی خان کو مکا دکھانا پڑا۔ معلوم نہیں ڈاکٹر صاحب یہ سامنے کی حقیقتیں کیوں بھول گئے۔ ہم بڑے ادب سے ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جس پنڈت نہرو کی وہ بار بار صفائی پیش کرتے رہے اسی نہرو کے بارے میں مولانا آزاد کی وہ عبارتیں دوبارہ مطالعہ فرما لیں جو تیس سال بعد ”انڈیا ونز فریڈم“ میں شامل ہوئی ہیں، یا مولانا آزاد کی وہ تقریر ملاحظہ فرما لیں جو اُنہوں نے تقسیم کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں کی تھی۔ اِن حضرات کے مقابلے میں قائداعظم محمد علی جناح ؒ کا سیاسی کردار بلاشبہ بہت صاف ستھرا تھا۔ تاریخ اب تک یہی گواہی دے رہی ہے ۔کاش ڈاکٹر صاحب تاریخ کو پرانی عینک اتار کر مطالعہ فرمانے کی سعی فرما لیں!  ٭

مزید :

کالم -