بھارتی شہریوں کو مقبوضہ کشمیر میں جائیداد کی خریدو فروخت کی اجازت

بھارتی شہریوں کو مقبوضہ کشمیر میں جائیداد کی خریدو فروخت کی اجازت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


نئی دہلی(اے این این ) بھارت کی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر میں جائیداد کی خریدو فروخت سے متعلق کیس میں مقبوضہ کشمیر کی ہائی کورٹ کا فیصلہ منسوخ کرتے ہوئے بھارتی شہریوں اور غیر ریاستی باشندوں کو مقبوضہ وادی میں جائیداد کی خریدو فروخت کی اجازت دے دی ہے اور قرار دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو بھارتی آئین سے ہٹ کر کوئی خود مختاری حاصل نہیں ،ریاست کا آئین بھارتی آئین کے ماتحت ہے اس کی اپنے طور پر کوئی حیثیت نہیں ،وہاں کے لوگ آزاد نہیں بھارت کے باشندے ہیں جبکہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر مزاحمتی قیادت اور مقبوضہ کشمیر کی وکلاء تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس معاملے کا جائزہ لینے کیلئے بار ایسوسی ایشن کا اجلاس(آج) طلب کر لیا گیا ہے ۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی ہائی کورٹ کا وادی میں جائیداد سے متعلق فیصلہ منسوخ کرتے ہوئے بھارت کی سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیرکو آئین ہند ۔سے باہر کوئی خود مختاری حاصل نہیں ہے ۔جسٹس کورین جوزف اور جسٹس روہنٹن نری مان پر مشتمل سپریم کورٹ کے ڈویژن بنچ نے جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے فیصلے کو برطرف کرتے ہوئے کہاکہ آئین ہند کے باہر ریاست جموں وکشمیر کو کوئی خودمختاری حاصل نہیں ہے اور جموں وکشمیرکا آئین اسکے ماتحت ہے ۔ڈویژن بنچ نے جموں وکشمیر آئین1957کی تمہید کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ریاستی عوام کاانتظام پہلے آئین ہند کے تحت ہے اور اسکے بعد اسے جموں وکشمیر کا آئین چلاتا ہے ۔
ریاستی ہائی کورٹ کی جانب سے ایک عرضی پر صادر کئے گئے ایک فیصلے کے چند مندرجات کو پریشان کن قرار دیتے ہوئے کہا یہ بات واضح کرنی لازمی ہے کہ جموں وکشمیر آئین کی دفعہ 3کے تحت اس بات کی توثیق کی جاچکی ہے کہ ریاست جموں وکشمیر بھارت کا ایک جزو لاینفک ہے اور ہمیشہ رہے گا اور یہ دفعہ کسی بھی ترمیم سے بالا تر ہے ۔ڈویژن بنچ نے مزید کہاکہ جموں وکشمیر کے باشندے اولین اور اہم ترین ہندوستانی باشندے ہیں لہذا یہ امر سراسر غلط ہے کہ اس ریاست کو ایک خودمختار ریاست اسکے شہریوں کی علیحدہ اور امتیازی درجے کے تناظر میں قرار دیا جائے ۔عدالت عظمی نے کہاکہ ہم ریاستی عدالت عالیہ کو یہ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ جموں وکشمیر کے باشندے اولین اور اہم ترین بھارتی شہری ہیں ۔ریاست جموں وکشمیر کے مستقل باشندے بھارت کے شہری ہیں اور انہیں کسی طرح کی دوہری شہریت حاصل نہیں ہے جیسا کہ دنیا کے دیگر چند حصوں کے وفاقی آئین کے تحت ہوتا ہے۔عدالت عظمی نے کہاکہ یہ وضاحت کرنا اس لئے مجبوری بن گیا ہے کیونکہ ہائی کورٹ نے کم سے کم تین مقامات پر اپنے فیصلے میں راستے سے بھٹک گئی ہے کیونکہ اس نے اس خودمختاری کا ذکر کیا ہے جس کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ڈویژن بنچ نے زور دیتے ہوئے کہا بھارت کا جموں کشمیر کے بارے میں بھی ظاہری وفاقی نظام برقرار ہے ،آئین ہند کی دفعہ1اور جموں کشمیر کے آئین کی دفعہ3میں یہ بات صاف کی گئی ہے کہ بھارت مختلف ریاستوں کا اتحاد ہوگااور یہ کہ جموں کشمیر بھارت کا ٹوٹ حصہ ہے اور رہے گا۔عدالت کا کہنا تھا کہ ریاستی آئین اس کے بھارت کے ساتھ ایک اٹوٹ انگ کی حیثیت سے موجودہ تعلقات کی مزیدوضاحت کرنے کیلئے مرتب کیا گیا ہے۔ڈویژن بنچ نے اس قانونی سوال پر اپنا فیصلہ صادر کیا کہ آیاجائیداد کی خریدو فروخت سے متعلق SARFAESI ایکٹ 2002 جموں کشمیر پر نافذ العمل ہوگا یا یہ قانون پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار سے باہر ہے کیونکہ اس کی بعض دفعات جموں کشمیر کے ٹرانسفر آف پراپرٹی ایکٹ کے متصادم ہیں۔ واضح رہے کہ SARFAESIایکٹ کے تحت بنک عدالتی عمل سے باہرکسی بھی قرضدار کی جائیداد کو اپنی تحویل میں لیکر اسے فروخت کرنے کیلئے ٹریبونل سے رجوع کرسکتا ہے۔جموں کشمیر ہائی کورٹ نے اس بارے میں اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ریاست کو اس بات کی خود مختار طاقت حاصل ہے کہ وہ غیر منقولہ جائیدادکے بارے میں اپنے مستقل باشندوں کے حقوق سے متعلق قوانین کے تعلق سے قانون سازی کرسکتی ہے۔قابل ذکر ہے کہ جب سٹیٹ بنک آف انڈیا نے ہائی کورٹ آرڈر کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو حکومت جموں کشمیر نے عدالت کو بتایا کہ قانون ریاست کے مستقل باشندوں کی جائیداد سے متعلق حقوق کے ساتھ مداخلت بیجاکے مترادف ہے، اس لئے اسے معطل کیا جائے تاکہ ریاست کے مستقل باشندے کو کسی غیر ریاستی شہری کو جائیداد بیچنے کی اجازت نہ دی جائے۔ عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ دفعہ370کے تحت پارلیمنٹ کی قانون سازی کوجموں کشمیر میں لاگو کرنے کیلئے ریاستی حکومت کی منظوری حاصل ہونی چاہئے۔تاہم سپریم کورٹ نے ان دلائیل کے ساتھ اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا کہ SARFAESIایکٹ بنکوں اور مالی اداروں کی طرف سے قرضہ جات کی وصولی کے بارے میں ہے جو کہ یونین لسٹ اور پارلیمانی قانون سازی سے تعلق رکھتا ہے ، لہذا اسے ریاستی حکومت کی منظوری درکار نہیں کیونکہ مرکز ہی اس موضوع پر قانون بنا سکتا ہے۔عدالت کے مطابق یونین لسٹ کی انٹری45اور95پارلیمنٹ کو اس بات کا خصوصی اختیار دیتی ہیں کہ وہ بنکوں کے بارے میں قوانین تشکیل دے سکتا ہے، اس لئے یہ قانون بحیثیت مجموعی ریاست میں نافذ العمل رہے گا۔ بنچ نے بتایا کہ SARFAESI ایکٹ کے تحت بھی جموں کشمیر میں جائیداد کی خریدوفروخت کے بارے میں خصوصی پراویژن رکھا گیا ہے۔عدالت نے فیصلہ صادر کرتے ہوئے کہا کہ جے اینڈ کے ٹرانسفر آف پراپرٹی ایکٹ کی کسی بھی دفعہ کو مرکزی قانون کو جگہ دینی ہوگی، اگر یہ دفعہ متضاد ہوگی۔ ڈویژن بنچ نے واضح کرتے ہوئے کہایہ بات صاف ہے کہ اگر جموں کشمیر کے کسی قانون کی رو سے کوئی بھی چیزSARFAESIایکٹ کے راستے میں آتی ہے تو اس کی جگہ یہی قانون نافذالعمل ہوگا۔تاہم عدالت نے اس بات کی وضاحت بھی کی کہ اس کے اس فیصلے سے دفعہ35Aاثرانداز نہیں ہوگی جس کے تحت ریاست کے مستقل باشندوں کو ریاست کے اندر غیر منقولہ جائیداد حاصل کرنے کے خصوصی حقوق حاصل ہیں۔دریں اثناء لبریشن فرنٹ چیئر مین محمد یاسین ملک نے کہا ہے کہ جموں کشمیر کامسئلہ ایک عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے اور کوئی پارلیمان یا عدالت کسی قانون یا فیصلے کے ذریعے اس حقیقت کو تبدیل نہیں کرسکتے۔آزادی کے حصول کی خاطر چلنے والی عوامی جدوجہد کو عدالتی فیصلوں یا قوانین کے ذریعے شکست نہیں دی جاسکتی ہے۔ فرنٹ چیئرمین ، بھارتی سپریم کورٹ کے آج دئے گئے فیصلے، جس میں عدالت نے کہا ہے کہ جموں کشمیر کے باشندے بھارتی شہری ہیں اور جموں کشمیر کو بھارتی آئین کے باہر کوئی اقتدار اعلی حاصل نہیں ہے، پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جموں کشمیر ایک عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے جہاں کے لوگوں کو حق خوارادیت کا حق دینے کا نہ صرف بھارت کی پچھلی پارلیمان بلکہ اس کے سابقہ لیڈران بشمول پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو تک نے وعدے کررکھے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مسئلہ جموں کشمیر کے حل اور یہاں کے لوگوں کو حق خودارادیت کا حق دئے بنا دنیا کی کوئی طاقت کشمیریوں کی شہریت کا فیصلہ نہیں کرسکتی کیونکہ متنازعہ مسائل اور تنازعوں کو کسی پارلیمنٹ کے قوانین یا عدالتی فیصلوں سے بدلنا نا ممکن ہوا کرتا ہے۔چیئرمین نے کہا کہ برطانوی سامراج نے بھی ہندوستان کو دو سو سال سے زائد عرصے تک اپنے قبضے میں رکھا اور اس دوران بھی برطانوی عدالتیں اور پارلیمان بھارت کے حوالے سے فیصلے اور قوانین نافذ کرتے رہے لیکن میں ہندوستان کی آزادی کے ساتھ ہی ان تما م قوانین اور فیصلوں کی کوئی حیثیت نہیں رہی ۔ ملک نے کہا کہ جموں کشمیر کے مسئلے کے حل اور آزادی کے ساتھ ہی بھارتی پارلیمان اور عدالتوں کے سارے فیصلے اور قوانین بھی تاش کے پتوں کی مانند بکھر جائیں گے اور ان فیصلوں کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔ ادھر مقبوضہ کشمیربار ایسوسی ایشن نے سٹیٹ بینک آف انڈیا کی درخواست پر سریم کورٹ کی طرف سے دئے گئے فیصلہ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ جموں و کشمیر میں ایس ائے آر ایف ائے ای ایس آئی ایکٹ نافذالعمل نہیں ہے جسکی وجہ سے ایکٹ کی دفعہ 13کے تحت بینک کی طرف سے جاری کئے گئے نوٹس کوئی معنی نہیں رکھتے۔ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ایگزیکیٹو ممبران نے سپریم کورٹ میں جموں و کشمیر کی طرف سے کیس کی پیروی کرنے والے وکیل سنیل فرنانڈز کے بیان پر حیرت کا اظہارکیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر رول (5)8 ایس ائے آر ایف ائے ای ایس آئی کو دفعہ 13(4)کے تحت پڑھا جائے تو جموں و کشمیر کو ایس ائے آر ایف ائے ای ایس آئی قانون پر کوئی بھی عذر نہیں ہوگا۔ ایگزیکٹیو ممبران کی میٹنگ میں کہا گیا ہے کہ دفاع کرنے والے وکیل کو کوئی حق نہیں کہ وہ سپریم کورٹ میں ایسا بیان دے کیونکہ بینک کی طرف سے ایس ائے آر ائے ای ایس آئی ایکٹ کو جموں و کشمیر میں دفعہ370کے تحت زیر بحث لانا تھاجبکہ اس دوران جموں و کشمیر جائیدادمنتقلی قانون کے تحت زیر بحث لانا تھا۔ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ سریم کورٹ فیصلے اور جموں و کشمیر کا دفاع کرنے والے وکیل کے بیان کے نتائج کافی خطرناک نکل سکتے ہیں او کوئی بھی فیصلہ لینے سے قبل ایگزیکٹیو ممبران کو معاملے پر پھر سے ایک مرتبہ غور کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں تمام ایگزیکٹیو ممبران سے کہا گیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو باریک بینی سے پڑھنے کے بعد اپنے مشوروں کے ساتھ 19دسمبر کو ہونے والی میٹنگ میں حاضر ہو جائیں۔

مزید :

عالمی منظر -