برطانیہ میں سارا کو انصاف مل گیا

  برطانیہ میں سارا کو انصاف مل گیا
  برطانیہ میں سارا کو انصاف مل گیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمیں یہ بات مان لینی چاہیے کہ ہم معاشی لحاظ ہی سے پس ماندہ نہیں، عدل و انصاف کے حوالے سے بھی بہت پیچھے کھڑے ہیں۔ ہمارا نظام انصاف بیساکھیوں کا محتاج ہے۔ یہ بیساکھیاں رشوت، سفارش اور سماجی و طبقاتی نظام کی اونچ نیچ پر کھڑی ہیں۔ یہاں اول تو انصاف ملتا نہیں ملے تو اتنا سست رفتار ہوتا ہے کہ ایک نسل اس کے حصول میں ختم ہو جاتی ہے۔ یہاں کیسے کیسے گھناؤنے واقعات نہیں ہوتے، مگر مجال ہے کسی ملزم کو فوری سزا ملی ہو۔ ہم نے خصوصی عدالتیں بھی بنا کے دیکھ لیں اور دیگر طریقے بھی آزما لئے لیکن آج تک اس امر کو یقینی نہیں بنا سکے۔ سنگین جرائم کے ملزموں کو فوری سزائیں دے سکیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج معاشرے سے قانون کا خوف ختم ہو گیا ہے۔ قتل ایسے ہوتے ہیں جیسے کماد کی فصل کاٹی جا رہی ہو۔ بروقت عدالتوں میں چالان جمع نہیں ہوتے، قاتلوں کو بھی ضمانتیں مل جاتی ہیں، اس کے بعد وہ باہر آکر یا تو مدعی کو قتل کر دیتے ہیں یا پھر انہیں اتنے خوفزدہ کرتے ہیں کہ وہ صلح کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ باتیں مجھے لندن کی ایک عدالت کا فیلصہ پڑھنے کے بعد یاد آئیں۔ قانون زندہ اور سخت ہو تو کوئی چالاکی، کوئی اثرو رسوخ اور کوئی ہوشگاتی مجرم کو سزا سے نہیں بچا سکتی۔ قارئین کو شاید یاد ہوگا اگست 2023ء میں لندن کے علاقے ووکنگ میں ایک گھر سے ایک دس سالہ بچی سارا شریف کی لاش ملی تھی۔ گھر بند تھا اور اس کے مکین لاش ملنے سے ایک دن پہلے پاکستان جا چکے تھے۔ بچی کی لاش ہمسایوں کی طرف سے بو پھیلنے کی شکایت پر گھر کا دروازہ توڑ کر نکالی گئی۔ گھر کے مالک عرفان شریف، 30سالہ اہلیہ بینش بتول اپنے پانچ بچوں کے ساتھ پاکستان چلے گئے تھے۔ سارہ شریف عرفان شریف کی پہلی بیوی اولگاڈومن سے تھیں، جنہیں اس نے طلاق دے کر ایک پاکستانی خاتون بینش سے شادی کی تھی۔ سارا شریف اپنے باپ کے گھر سوتیلے بہن بھائیوں اور ماں کے ساتھ رہ رہی تھی۔ اس کی حقیقی ماں چاہتی تھی وہ اپنے والد کے ساتھ رہے تاکہ اس کی اسلامی ماحول میں پرورش ہو سکے جبکہ اس کی سوتیلی ماں بینش اس سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتی تھی۔ عرفان شریف کو بھی خوف تھا کہ سارا شریف بڑی ہو گئی تو برطانوی قانون کے مطابق اسے اپنی جائیداد کا بڑا حصہ دینا پڑے گا۔ پولیس کو جب گھر سے سارہ  کی لاش ملی تو یہ حقائق سامنے آئے کہ اس پر بہت زیادہ تشدد کیا گیا۔ تشدد ویسے تو اس کا معمول تھا تاہم جس دن عرفان شریف نے بیوی بچوں کے ساتھ پاکستان آنا تھا، اس سے ایک دن پہلے بہیمانہ تشدد کرکے اس کی جان لے لی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق سارہ کے جسم پر تشدد کے متعدد نشانات تھے جن میں کھولتا پانی ڈالنے، گرم استری لگانے، دانتوں سے نوچنے جیسے نشانات بھی تھے۔ رپورٹ کے مطابق سارہ کے جسم کی کم از کم 25ہڈیاں مختلف جگہوں سے ٹوٹی ہوئی تھیں۔ لندن پولیس نے اس واقعہ کا مقدمہ اپنی مدعیت میں درج کیا تھا  اور عرفان شریف کی عدم موجودگی میں تمام تر تفتیش مکمل کرکے مقدمہ عدالت میں پیش کر دیا تھا۔

جونہی ایک ماہ بعد عرفان شریف اور اس کی بیوی بینش پاکستان سے لندن پہنچے، انہیں حراست میں لے لیا گیا، ان کے سامنے پوری چارج شیٹ رکھی گئی اور وہ حقائق بھی جو تفتیش کے دوران سامنے آئے تھے۔ عرفان شریف نے صحت جرم سے انکار کیا اور اس بات سے بھی انکار کیا کہ جب وہ پاکستان گئے سارا اس گھر میں تھی، بلکہ یہ کہا کہ وہ اپنی ماں اولگاڈومن کے پاس تھی۔ جب اسے پورا کرائم سین دکھایا گیا۔ ماہر تفتیش کاروں نے نفسیاتی طریقوں سے اسے زچ کر دیا تو وہ ساتویں دن خود ہی بول پڑا، اس نے چیخ چیخ کر کہا ہاں وہ اپنی بیٹی کا قاتل ہے۔ اس کی بیوی سارا کو برداشت نہیں کرتی تھی۔ روزانہ کی لڑائی سے تنگ آکر انہوں نے فیصلہ کیا کہ سارا کو ختم کر دیتے ہیں اور اگلے دن پاکستان چلے جائیں گے۔ جب ایک ماہ بعد واپس آئین گے تو لاش گل سڑ چکی ہو گی۔ اس کی گمشدگی کا ڈرامہ کرکے بچ جائیں گے۔ عرفان شریف نے اپنے بیان میں تسلیم کیا اس نے سارا کو کئی ہفتوں تک شدید تشدد کا نشانہ بنایا، وہ چیختی چلاتی مگر میری بیوی کہتی اسے اور مارو، 9اگست 2023ء کو ہم نے اسے ختم کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس دن ہم نے پاکستان جانا تھا۔ ہم نے اس کی لاش کو کمرے میں رکھ کر اوپر کپڑے ڈال دیئے اور شام کی فلائٹ سے پاکستان چلے گئے۔ لاش ملنے کے بعد پراسیکیوشن نے بڑی محنت سے کام کیا۔ برطانوی عدالت میں کیس کو ثابت کرنے کے لئے بہت باریکیوں کو پیشِ نظر رکھنا پڑتا ہے۔ تفتیش کاروں نے گھر کے لان سے خون  آلود کرکٹ بیٹ، رسی، ایک بیلٹ، ایک لوہے کا ڈنڈا اور تشدد کے دیگر آلات ملے۔ عدالت میں جب عرفان شریف، اس کی بیوی بینش اور عرفان کے بھائی فیصل ملک کو بالترتیب 40،33اور 16سال کی سزائیں سنائی گئیں تو تینوں ملزمان  ندامت سے سرجھکائے یہ فیصلہ سنتے رہے۔ عرفان شریف کے بھائی فیصل ملک کو  16سال سزا اس لئے سنائی گئی کہ اس نے وقوعہ ہوتے دیکھنے کے باوجود اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے برطانوی قانون میں جرم کو روکنے میں کوئی کردار ادا نہ کرنا بھی ایک جرم ہے۔

اب ذرا غیر جانبداری سے سوچئے کیا پاکستان میں ایسا کوئی واقعہ ہوتا تو مجرموں کو اتنی جلدی اور تکنیکی مہارت سے تفتیش کے بعد سزا ہوتی؟ یہاں کیا کچھ نہیں ہو رہا۔ لڑکیوں کے ٹکڑے کرکے پھینک دیئے جاتے ہیں انہیں پنکھوں کے ساتھ لٹکا دیا جاتا ہے، معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی کرکے قتل کرنے کی وارداتیں عام ہیں، مگر مجال ہے جرم ثابت ہوتا ہو یا قاتلوں کو سزا ملتی ہو۔ دس دس سال کہیں چلتا رہے گا سزائیں نہیں ہوتیں۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ پولیس مدعی خاندان کے ہی کسی فرد کو مدعی بنا کر پرچہ درج کرلیتی ہے۔ مثلاًایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی بدبخت بیٹے نے ماں کو قتل کر دیا ہے تو مقدمہ دوسرے بھائی کی مدعیت میں درج کرلیاجاتا ہے۔ آگے چل کر برادری کے لوگ بیچ میں آتے ہیں اور بھائی کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ اپنے بھائی کو معاف کرنے کا حلف نامہ جمع کروائے۔ اس طرح قاتل چھوٹ جاتا ہے اور کسی نئی جان کے درپے ہو جاتا ہے۔ ایسے مقدمات صرف ریاست کی مدعیت میں درج ہونا چاہئیں،تاکہ کوئی قاتل قانون کی کمزوری کا سہارا لے کر بچ نہ سکے۔ ہم پاکستانیوں کے اندر بھی کتنی سفاکی بھری پڑی ہے۔ کسی لالچ، خوف یا غصے کی وجہ سے اپنے ہی معصوم بچوں کومار دیتے ہیں، ملتان میں ایک شخص نے اپنے دو معصوم بچوں اور بیوی کو قتل کرکے خودکشی کی تو سب کا دل دہل گیا، ایسا بھی ہو سکتا ہے؟ یہ سوچ کر ذہن جواب دے جاتا ہے۔ سارا شریف پل جاتی تو کیا جاتا، مگر ایک عورت نے اپنے بچوں کی خاطر سوتیلی بیٹی کو راہ سے ہٹانے کی سفاکانہ سوچ کو اپنے شوہر کے ذریعے عملی جامہ پہنا کر ظلم کی تاریخ رقم کر دی۔

مزید :

رائے -کالم -