زمینی حقائق کا ادراک اور امن کا قیام

زمینی حقائق کا ادراک اور امن کا قیام
زمینی حقائق کا ادراک اور امن کا قیام
کیپشن: kashif

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جناب من! کہتے ہیں کہ رستم جو اپنے دور کا ایک بہت بڑا پہلوان تھا اور اس کے نام کا ڈنکا چار دانگ عالم میں بجتا تھا۔ ایک رات اس کے گھر ایک شخص چوری کی غرض سے داخل ہوا اور اس کی آہٹ سے رستم کی آنکھ کھل گئی یہ دیکھ کر چور رستم کے اوپر چڑھ گیا اور خنجر سے اس کا گلا کاٹنے لگا کہ اچانک رستم یہ کہہ کر چلانے لگا کہ ”رستم آ گیا“ ”رستم آ گیا “۔یہ سن کر چور کے اوسان خطا ہو گئے اور وہ خنجر پھینک کر بھاگ گیا کہ واقعی رستم آ گیا ہے، حالانکہ رستم اس کے نیچے بے بس پڑا تھا۔ اس سے بدیہی طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کے ذہن پر جس چیز کا خوف مستولی اور سوار ہو اس کے ظہور پذیر ہونے یا اس کے ظہور پذیر ہونے کی اطلاع پر لاشعوری طور پر اس کا گھبراہٹ کا شکار ہونا ایک طبعی امر ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ یہی حربہ طالبان نے پاکستانی قوم کے خلاف استعمال کیا ہے تو بیجا نہ ہو گا اور دہشت گردی کی اگر تعریف (Definition) معین طور پر کی جائے تو دہشت اور خوف کی فضا کا قائم ہونا اور یہ خوف اور دہشت کی فضا طالبان نے بڑی ہوشیاری اور پرکاری سے قائم کی ہے کہ حکومت پاکستان ان سے مذاکرات کی بساط بچھانے پر مجبور ہوئی،حالانکہ اس بات کا طالبان کو بھی پوری طرح ادراک ہے کہ پاکستان کی پانچ لاکھ فوج ان سے دودو ہاتھ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے اور اگر مذاکرات ناکام ہو گئے اور ان کے خلاف فوجی کارروائی کا فیصلہ ہو گیا تو ان کے سامنے سوائے افغانستان بھاگ جانے کے کوئی راستہ نہ بچے گا ۔
بہرحال طالبان شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرکے بعض مذہبی جماعتوں سے حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور تحریک انصاف جیسی سیاسی جماعت بھی انکے اس نکتہ پر ان کی حمایت پر کمربستہ دکھائی دیتی ہے، مگر طالبان کے ہاتھوں 23سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد عمران خان کے انداز میں تبدیلی محسوس ہو رہی ہے۔ بہرحال خود حکمران جماعت بھی طالبان کی مختلف تزویراتی پالیسیوں کی بدولت باوجود بار بار کی دہشت گردی کے ان سے مذاکرات کی اپیل کرتی دکھائی دیتی ہے اور جہاں تک مذاکرات کا تعلق ہے تو یہ اسی صورت کامیاب ہو سکتے ہیں، جب دہشت گردی کی کارروائیاں ختم ہو جائیں اور یہ خبر جو میڈیا پر آئی کہ طالبان کی سیاسی شوریٰ نے جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے، مگر حالیہ دہشت گردی کی کاررواےﺅں نے اس کو غلط قرار دے دیا اور بعض لوگ موجودہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ وہ مذاکرات میں اپنا وقت ضائع کر رہی ہے، جبکہ مذاکرات کا کوئی مثبت نتیجہ نکلنے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی تو عرض ہے کہ ”دنیا امید پر قائم ہے“ کہ طالبان کے وہ دھڑے جو نظریاتی ہیں ان سے مذاکرات وقت کی ناگزیر ضرورت ہے اور کیا ہی اچھا ہو جو طالبان کی طرف سے علماءکھل کر اپنے دلائل بیان کریں اور حکومت کی طرف سے بھی علماءاپنے موقف کو بیان کریں تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے اور آئینِ پاکستان پر جو بھی خدشات طالبان کے ہیں وہ سامنے آئیں اور دوسری طرف سے بھی ان خدشات اور سوالات کا جواب دیا جا ئے تا کہ پھر مولانا سمیع الحق جیسے لوگوں کے پاس یہ کہنے کا جواز باقی نہ رہے کہ اگر طالبان سے مذاکرات ناکام بھی ہو گئے تو ان کے خلاف فوجی ایکشن کی وہ حمایت نہیں کریں گے۔
 ظاہر ہے کہ نفاذ شریعت کا نعرہ جو طالبان نے لگایا ہے اس پر تفصیلی گفتگو ہونی چاہئے اور آئین پاکستان میں جو بھی اس حوالے سے نقص یا کمزوری ہو وہ عقلی اور نقلی دلائل سے واضح ہو جائے تاکہ بعدازاں وہ متفقہ طور پر دور کی جا سکے۔ یہاں اس بات کو ثابت کرنا بھی طالبان کی ذمہ داری ہو کہ ان کی قیادت صالح اور اہل ہے ۔اس ضمن میں بعض اہل دانش یہ کہہ کر طالبان کے لئے حمایت کی فضا قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے حکمران کرپٹ ہیں اور طالبان کمانڈر گویا ہر لحاظ سے قابل تقلید ہیں اور پتھروں کے درمیان رہتے ہوئے قوت لا یموت پر ہی گذارہ کرتے ہیں پھر یہ بھی اعتراض طالبان قیادت پر کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کی بجائے غریب نوجوانوں کو حور و غلمان کے خواب دکھا کر خود کش حملہ آوروں کی شکل میں تیار کرتے ہیں اور پھر جس شریعت کے نفاذ کی بات کرتے ہیں کیا وہ شریعت ان کو بیگناہ انسانوں کے قتل کرنے کا حکم دیتی ہے؟ بہرحال اب وقت آ گیا ہے کہ کھل کر ہر بات عوام کے سامنے بیان کی جائے اور جو لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ مذاکرات خفیہ ہوں قطعاً یہ رائے اس وقت قابل قبول نہیں ہو سکتی کہ آج جو تباہی ہمیں نظر آ رہی ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ عوام کوذاتی مفادات کی خاطر اشرافیہ کی طرف سے جان بوجھ کر بے خبر رکھا گیا ۔
یہی وجہ ہے کہ ہمیں آج معاشرہ میں ایک بے یقینی اور کنفیوژن کی حالت ملتی ہے۔ بہرحال اب وقت آ گیا ہے کہ عوام کے سامنے اس پاکستان کی حقیقی تصویر پیش کی جائے ،جو قائداعظم ؒ کا پاکستان ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے واضح طور پر فروری 1948ءمیں اپنے براڈکاسٹ میں فرمایا کہ ”پاکستان میں کسی قسم کی تھیو کریسی (Theocracy) کار فرما نہیں ہو گی، جس میں حکومت مذہبی پیشواﺅں کے ہاتھ میں دے دی جائے کہ وہ بزعم خویش خدائی مشن پورا کریں“ بہرحال آ ج ضرورت اس امر کی ہے کہ واقعات کا حقیقی تناظر میں جائزہ لیا جائے اور انتہاءپسندانہ سوچ کو روا داری، تحمل اور برداشت کے زریں اصولوں کے تحت ختم کیا جائے، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دہشت گردوں کو کھلی چھٹی دے دی جائے کہ جو چاہے کرتے پھریں اور عوام کے سر گندم کی فصل کی طرح کٹتے رہیں اور ان کے باغباں خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے جائیں اور وہ جن پر تکیہ کریں وہی پتے ہوا دینے لگیں اور ان کے مقدر میں ہر طرف غموں کی برسات ہو بقول شاعر
فکرِ باغباں بھی ہے ،خوفِ برگ و بارا ں بھی      
کتنے غم ہیں پوشیدہ اِک کلی کے دامن میں   
بہرحال آزمائش کی اس گھڑی میں ایک مثبت انداز فکر اپنانے سے ہی اس گرداب اور بھنور سے نکلا جا سکتا ہے اور من حیث المجموع یکجہتی اور یکسوئی سے ہی کامیابی گلے کا ہار بن سکتی ہے اس ضمن میں ایک بات کی اِس وقت شدید ضرورت ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علماءکرام ایک میز پر اکٹھے ہو کر اِجتماعی طور پر فساد اور جہاد کے درمیان فرق واضح فرمائیں تا کہ اِس حوالے سے عوام الناس کے ذہنوں میں جو کنفیوژن اور ابہام پایا جاتا ہے، وہ دور ہو اور یہ چیز باقاعدہ ایک فتوے کی شکل میں شائع کر دی جائے تا کہ ہمارے معاشرہ میں مذہب کے نام پر فتنہ اور فساد کا خاتمہ ہو، جب اس طرح کی صورت واضح ہو جائے تب حقیقی امن و سلامتی کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔

مزید :

کالم -