نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔۔۔ اکتیسویں قسط
تحریر: شاہدنذیرچودھری
اعجاز احمد نے کہا کہ راشد لطیف اور باسط علی نے جب ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا تو اس کی وجہ کا علم نہیں تھا مگر پاکستان آکر علم ہوا کہ انہوں نے جوئے اور میچ فکسنگ کے الزامات عائد کئے تھے۔زمبابوے کے دورے پرآخری میچ میں جھڑپ ہوئی تھی۔ اعجاز نے کہا کہ نیوزی لینڈ کے خلاف میچ کے بعد منیجر انتخابعالم نے مجھے کمرے میں بلایا اور کہا کہ قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاؤ کہ تم نے پیسے نہیں لئے ہیں،میں نے کہا کہ میں45پر ناٹ آؤٹ رہا ہوں تاہم اس کے باوجود میں نے حلف لیا۔ میں اور سلیم ملک ہم زلف ہیں اور جب سلیم ملک پر الزامات لگتے ہیں تو ہم زلف ہونے کی وجہ سے مجھے بھی ملوث کر دیا جاتا ہے مگر مجھے سلیم ملک پر الزامات کا کوئی علم نہیں ہے۔
نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔۔۔ تیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
فاضل جج نے دریافت یا کہ جو کھلاڑی جان بوجھ کر رن آوٹ ہو جاتا ہے اس کا تو آپ کو علم ہو جاتا ہو گا، آپ اپنے ہم زلف کا دفاع کیوں نہیں کررہے ہیں تو اعجاز نے کہا کہ میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔
صحافی امتیاز سپرا نے کہا کہ وسیم اکرم اور سلیم ملک ہمارے عظیم کھلاڑی ہیں اور ہمیں ان پر فخر کرنا چاہیے۔عاقب جاوید نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ کون سا کھلاڑی میچ فکسنگ میں ملوث ہے۔ میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔عاقب نے کہا کہ کمیشن بینک آفیسر سلیم پرویز کوب ھی طلب کرے کیونکہ وہ بکی بھی ہے۔انہوں نے انکشاف بھی کیا کہ زمبابوے کے دورے کے بعد وقار یونس نے کارلی تھی لیکن اس بات کا علم نہیں ہے کہ اس نے پیسے بھی لئے تھے یا نہیں۔میں نے وقار یونس سے کہا تھا کہ کارواپس کر دو۔عدالتی استفسار پر عاقب نے کہا کہ وسیم اکرم نے مجھے براہ راست یہ بات نہیں کہی تھی کہ تمہیں اب ٹیم میں شامل نہیں کروں گا بلکہ مجھے یہ بات ایک مشترکہ دوست نے بتائی تھی۔ عاقب نے کہا میرے خیال میں میچ فکسنگ ہوئی ہے اور اس ضمن میں وسیم اکرم اور سلیم ملک پر زیادہ الزامات ہیں۔
ادھر عدالتی کارروائی جاری تھی تو دوسری جانب مارک وا نیبھی بیان دیا کہ آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے اجازت دی تو وہ سٹے بازی کے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے پیش ہونے کو تیار ہیں مگر اسی روز آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے اصولی فیصلہ کرلیا کہ ان کے کھلاڑی کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوں گے جبکہ آسٹریلوی بورڈ کے چیف ایگزیکٹو میلم اسپیڈ نے آسٹریلوی کھلاڑیوں کو ہدایت کی کہ وہ صرف کھیل پر توجہ دیں اور دیگر معاملات میں ملوث ہونے سے گریز کریں۔اسی دوران اس بات کا علم بھی ہوا کہ آسٹریلوی کرکٹ بورڈ ان اطلاعات سے لا علم ہے کہ ان کے کھلاڑیوں کو عدالتی کمیشن نے طلب کیا ہے۔
اگلے ہی روز آسٹریلوی کپتان مارک ٹیلر نے بھی اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ تحقیقاتی کمیشن کے سامنے پیش ہونے کو تیارہیں لیکن اس سے دورہ متاثر ہو سکتا ہے۔دوسری جانب سابق آسٹریلوی کپتان اور کوچ بابی سمپسن نے کہا کہ جب تک الزامات ثابت نہ ہو جائیں پاکستان جس کھلاڑی کو چاہئے ٹیم میں سلیکٹ کر سکتا ہے۔مارک ٹیلر نے کہا کہ میں کمیشن کے سامنے پیش ہونے سے نہیں گھبراتا لیکن اس موقع پر دونوں ممالک کے کرکٹ بورڈز کوی ہ طے کرنا ہو گا کہ سیاسی طور پر کیا بہتر رہے گا۔ ویسے میں صورتحال کو کشیدہ نہیں کرنا چاہتاکیونکہ یہ تحقیقات پاکستانی کھلاڑیوں کے خلاف ہو رہی ہیں۔
اس دوران وسیم اکرم نے ایک اخباری بیان میں کہا کہ کرکٹرز اتنے کمینے نہیں ہیں کہ پیسے کی خاطر ملک و قوم کا نام بدنام کریں،میں جوئے یا سٹے میں ملوث نہیں ہوں لہٰذا میرا ضمیر مطمئن ہے۔یہ چند حاسد لوگوں کا گروہ ہے جو کھلاڑیوں کو بدنام کرنے کے لئے الزامات لگا رہے ہے۔میں نے کسی کو جوا کھیلتے ہوئے نہیں دیکھا اور تمام معاملات خدا پر چھوڑ کر خاموشی اختیار کرلی ہے۔وسیم اکرم نے کہا کہ میں پہلے بھی کمیٹی کے سامنے پیش ہوا تھا اور اب بھی کمیشن کے سامنے پیش ہونے کو تیار ہوں کیونکہ کوئی اگر اینٹ مارے تو اسے جواباً پتھر ضرور مارنا چاہیے۔تمام مسائل کا حل یہ ہے کہ کرکٹ بورڈ مداخلت کرے ورنہ جس کے منہ میں جو آئے گا وہ بولتا چلا جائے گا۔
اسی دوران ایک خبر یہ بھی آئی کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے آسٹریلوی بورڈ کو تحریری طور پر اطلاع دے دی ہے کہ ان کے کھلاڑی لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوں اور اپنے بیانات ریکارڈ کرائیں۔تاہم اس سلسلے میں ان پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالیں گے۔عدالت نے بھی اسی موقف کا اظہار کیا کہ یہ آسٹریلوی ٹیم کے کھلایوں کو طلب کرنے کیلئے سمن پاکستان کرکٹ بورڈ کو ارسال کردیئے۔یکم اکتوبر کو سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے اسپورٹس نے میچ فکسنگ کے معاملے پر اس وقت تک بحث روک دی جب تک جسٹس ملک محمد قیوم کی سربراہی میں کام کرنے والا کمیشن اپنا فیصلہ نہیں سنا دیتا۔
انکوائری کمیشن نے کئی روز تعطل کے بعد3اکتوبر1998ء کو ایک مرتبہ پھر کارروائی کا آغاز کیا تو اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی جب ٹیسٹ کرکٹر عطاء الرحمن پاکستانی کھلاڑیوں پر جوئے اور سٹے کے الزامات سے متعلق اپنے حلفیہ بیان سے مکر گیا جس پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یا تو عطاء الرحمن نے انکوئری کمیٹی کے سامنے جھوٹ بولا تھا یا وہ کمیشن کے روبرو ایسا کررہا ہے۔جسٹس ملک محمد قیوم نے کہا کہ اگر یہ ثابت ہو گیا تو اسے گرفتار کرکے فوری جیل بھیج دیا جائے گا۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کھلاڑی قوم کا سرمایہ ہیں۔جس کی وجہ سے ان کی عزت کی جاتی ہے لیکن کسی نے اگر کمیشن کے روبرو غلط بیانی سے کام لیا تو اسے معاف نہیں کیا جائے گا اور ایک دو کھلاڑیوں کو اندر کر دیا گیا تو سب ٹھیک ہو جائیں گے۔
(جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)
دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔