نوجوان، جدتوں کے پاسبان

نوجوان، جدتوں کے پاسبان
 نوجوان، جدتوں کے پاسبان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا 
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
یہ کاروان ہستی ہے تیز گام ایسا
قومیں کچل گئی ہیں جس کی رواروی میں

"صدق دل سے حلف اٹھاتی ہوں کہ خلوصِ نیت سے پاکستان کے حامی اور وفادار رہوں گی، اپنے فرائض ایمانداری، انتہائی صلاحیت اور وفاداری کے ساتھ ہمیشہ پاکستان کی خود مختاری ‘ سالمیت‘ استحکام‘ بہبودی اور خوشحالی کی خاطر انجام دوں گی، ﷲ تعالیٰ میری مدد اور ہنمائی فرمائے۔آمین!“

جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف  نے مجھ سمیت 113 نوجوانوں سے نیشنل کونسل کے ممبرز کی حیثیت سے یہ حلف لیا تو فرط جذبات سے ہماری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وطن سے محبت تو ہر پاکستانی کے دل میں کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ وطن کی خاطر کچھ کرنے کا حلف اٹھانے کا موقع جنہیں دیتا ہے، اُن کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہوتی ہیں اور توقعات بھی۔ کامن ویلتھ ایشیاء یوتھ سمٹ اور ایشیاء ریجنل یوتھ منسٹرز کی موجودگی میں پاکستانی کےنوجوانوں نے علامہ اقبال کی دکھائی گئی راہ پر چلنے کا عزم مصم کیا:  

ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دِلّی نہ بخارا
جس سمت میں چاہے صفَتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارا

"پرائم منسٹر یوتھ کونسل" وزیراعظم شہباز شریف کی خصوصی ہدایت پر معاونِ خصوصی برائے یوتھ رانا مشہود کی زیرنگرانی قائم کی گئی  ہے۔ کونسل کیلئے پاکستان سے 100، دنیا بھر سے 13 پاکستانی نوجوانوں کو سخت میرٹ پر منتخب کیا گیا۔ کونسل کے ارکان پرائم منسٹر یوتھ کونسل پالیسی سازی میں بطور وزیراعظم کے مشیر کام کریں گے۔ ان نوجوانوں کی مدد سے گرین اکانومی سمیت جدید چیلنجز پر پالیسی سازی تشکیل دی جائے گی اور  ارکان مختلف علمی و عملی سرگرمیوں میں حصہ لیں گے۔
بنیادی طور پر یہ نوجوان ان سات شعبوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے۔ 
1۔ پالیسی سپورٹ۔ 2۔ میڈیا سپورٹ 3۔ نیشنل یوتھ کونسل کی انسٹیٹیونشنلائزیشن۔ 4۔ ترقی کے سفر میں پیچھے رہ جانے والے نوانوں کا ہاتھ پکڑ کر اُن کی سپورٹ کرنا اور انہیں بھی ترقی کے یکساں مواقعوں میں شامل کرنا۔ 5۔ روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور اُن سے استفادہ کرنا۔ 6۔ صحت عامہ اور انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے اقدامات۔7۔ مسلسل رابطوں اور نیٹ ورکنگ کے ذریعے  ہر سطح پر نوجوانوں کو ایک دوسرے سے جوڑنا۔ یعنی: 

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

نیشنل یوتھ کونسل کے قیام و توسیع کی سرپرستی ایک شفیق اور محب وطن انسان وزیرِاعظم یوتھ پروگرام کے چیئرمین رانا مشہود احمد خان کر رہے ہیں۔ وہ یوتھ کی کردار سازی، قومی ترقی میں نوجوانوں کی بامعنی شرکت یقینی بنانے کے لئے شب  و روز محنت کر رہے ہیں۔ اس اعتراف میں کسی کو عار نہیں کہ کروڑوں یوتھ کیلئے کوششیں اور جدید آئیڈیا پر اُن کی شبانہ و روز محنت لائق تحسین ہے۔ پرائم منسٹر یوتھ کونسل، کامن ویلتھ ایشیاء یوتھ سمٹ اور ایشیاء ریجنل یوتھ منسٹرز میٹنگ بھی اُن کے قابل تعریف اقدامات ہیں ۔ 

اس امر سے انکار نہیں کہ زمانے کے تغیر پر کسی کا بس نہیں چلتا اور نہ ہی حوادث کو روکا جا سکتا ہے، لیکن عصری تقاضوں کے مطابق خود کو نہ ڈھالنا نادانی اور بدلتے حالات کے موافق فطرت نہ بدلنا عقلمندوں کا شیوہ  نہیں۔ حادثات و سانحات سے گزرتے ہوئے نئے سانچوں میں ڈھلنا مشکل ہے، مگر اس سے فرار ناممکن ہے۔  کامرانی و راحت انہی قوموں کا مقدر ہوتی ہے جو جدید علوم سے لیس ہو کر مستقبل کی طرف بڑھتے ہیں۔ جدید تقاضوں اور حالات سے آنکھیں بند کر کے بیٹھ جانے والی قوموں کی آج اقوام عالم میں کوئی قدر و منزلت ہی نہیں۔ اس لئے حقیقی ترقی اور جمہوریت کی طرف لے جانے والی انقلابی اصلاحات اور  نیا معاہدہ عمرانی مرتب کرنا ہر وقت پیش نظر رکھنا چاہیے اور یہی زندہ قوموں کی نشانی ہوتی ہے، بقول اقبال
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صُبح و شام بدلتی ہیں اُن کی تقدیریں
قلندرانہ ادائیں، سکندرانہ جلال
یہ اُمّتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں
شکوہِ عید کا منکر نہیں ہوں مَیں، لیکن
قبولِ حق ہیں فقط مردِ حُر کی تکبیریں

اس سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان سمیت جدید تعلیم اور علم و ہنر میں پیچھے رہ جانے والی قومیں آج سکوت و جمود کا شکار ہیں۔ حالات کے عین مطابق اپنے مجموعی نظام میں تبدیلی کی صلاحیت کا تعطل ان اقوام کو بہت پیچھے لے گیا ہے۔  ہمارے دکھوں کی ذمہ دار دور حاضر کے تقاضوں سے چشم پوشی ہے۔ ہمارا بوسیدہ نظام نتائج دینے میں ناکام ہے، امریکا اور یورپ کی ترقی و استحکام کی بڑی وجہ وہاں کے نتیجہ خیز سیاسی نظام ہیں۔ ہم جیسے غریب معاشروں کو ’ترقی پذیر‘ کے خوبصورت غلاف میں لپیٹ دیا گیا ہے۔ اب ہمیں غربت و افلاس کی اصلاحات کے بجائے ترقی پذیر جیسے ناموں سے پکارا جائے تو  ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مستقبل کی فکر سے ہی آزاد کر دیا گیا ہے۔ 

بہتر ہے کہ شیروں کو سِکھا دیں رمِ آہُو
باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ،
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند
تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ
غریب دنیا غربت سے بھوک، افلاس، بیماری، جرائم، اور جہالت جنم لینے جیسے حقائق کا ادارک رکھتی ہے اور  یہی عوامل ترقی کی راہ میں وہ  پہاڑ ہیں جنہیں عبور کرنے کے لئے حوصلہ اور ولولہ بنیادی شرط ہے۔ مجھے بھی گذشتہ ہفتے نیو یارک میں ایک مباحثے میں شرکت کا موقع ملا۔ امریکی تھنک ٹینکس اور تجزیہ کاروں کا اتفاق تھا کہ معاشروں سے غربت کا خاتمہ صرف جہالت مٹانے سے ممکن ہے اور یہ کام تعلیم یافتہ افراد ہی کر سکتے ہیں۔ جب غریب معاشرے غربت کو خیر باد کہنے کا طے کر لیں تو نئی نسل کو عصرِ نَو کی تعلیم اور ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے کو اپنی پہلی ترجیح بنا لیتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ تعلیم یافتہ معاشرے میں ہی نئے خیالات کو قبول کرنے اور اپنانے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ 
نئے خیالات اور افکارِ نو کو سمجھنا اور قبول کرنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ اس قدر مشکل مرحلہ ہے کہ بعض اوقات ترقی یافتہ معاشرے بھی نئی تحقیق، نئی سوچ اور نئے افکار کو قبول کرنے سے انکاری ہوتے ہیں۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، افغانستان، اور براعظم افریقہ میں تو فکر جامد ہو کر مخصوص دائرے میں قید ہے، اسی وجہ سے ہم نے بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے بجائے الگ خیالاتی ترقی کی دنیا بسا لی ہے۔ ہم اپنے حال میں بظاہر خوش اور مطمئن ہیں اور حالات میں کسی قسم کی ترمیم برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ہمارے ہاں غربت، خود غرضی اور عدم برداشت کی وہ بھیانک فضا قائم ہو گئی ہے جس کا نتیجہ زبردست اخلاقی پسماندگی کی صورت میں نکلا ہے۔ فکری جمود کے باعث نہ صرف علمی ترقی اور اخلاقی تزئین کی راہیں مسدود ہیں بلکہ شعوری قوت بھی ناکارہ ہوتی جا رہی ہے، بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبال
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو
کر اِس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ
فکر کے جمود کی وجہ سے ایشیائی اور افریقی معاشرے علمی و اخلاقی طور پر پسماندہ ہو گئے ہیں ، نتیجتاً مجموعی طور پر معاشی و سیاسی زبوں حالی کا شکار ہیں۔ فکری جمود کے سبب جدید تعلیم و فنون کے حصول میں دلچپسی کم سے کم ہو گئی ہے اور نئی نسل شارٹ کٹ کی فکر میں ہے۔  یوں وسائل کے باوجود ہم آئی ایم ایف اور دیگر امیر ممالک کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی روش میں مبتلا ہیں، اس کے برعکس آزاد فکر والے معاشروں میں  قانون کی بالا دستی ہے۔ رجعت پسند معاشروں کا یہ بھی المیہ ہے کہ تقلید بتدریج مقبول تقدیس میں بدل جاتی ہے اور پھر فکری تحریک رجعت پسند معاشروں میں عموما شجرِ ممنوعہ بن جاتی ہے۔
یہ امت روایات میں کھو گئی
حقیقت خرافات میں کھو گئی
ماضی میں زندہ رہنے والے معاشروں میں روایت کے خلاف آواز نکالنا تقدیس کے چبوترے کو منہدم کرنے کے مترادف ہوتا ہے، اسی وجہ سے قومیں علمی اور اخلاقی زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔ کوئی بھی قوم اس وقت تک صحیح معنوں میں ترقی کے مراحل نہیں طے کر سکتی جب تک کہ وہ فکر کو جمود اور انسانی جذبات کو شعورِ جاریہ سے ہم آہنگ نہیں کر لیتی۔
آج غریب اقوام عالم خوف و مایوسی میں بھٹک رہی ہیں اور نوجوان سرحدوں سے پار نکلنے کی راہوں کے متلاشی ہیں۔ گمراہی نے چار سو چادر تان رکھی ہے۔  آئین و آزادی کی شمعیں روشن کرنا تو ایک طرف، امید کے ٹمٹاتے دیے بھی بجھائے جا رہے ہیں۔ 
آزاد اور ہنر مند قومیں اپنا ہر لمحہ قمیتی سمجھتی ہیں اور اس کو قوم کی بھلائی کے لئے استعمال کرتی ہیں، لیکن اس کے برعکس غریب ملکوں کی زندگی کے ماہ و سال رُک جاتے ہیں، اُن کے شب و روز  عمل سے خالی ہوتے ہیں اور اس کا ایک ایک لمحہ زندگی نہیں موت ہوتا ہے۔ آزاد اور خوشحال قوموں کی فکر، فلسفہ اور عقل اصل اور صحیح باتوں سے روشن ہوتی ہے جبکہ غریب ممالک کی فکر و فلسفہ اور خیال فضول باتوں میں لگا رہتا ہے۔
آزاد کی اک آن ہے محکوم کا اک سال 
کس درجہ گراں سير ہيں محکوم کے اوقات! 
آزاد کا ہر لحظہ پيام ابديت 
محکوم کا ہر لحظہ نئي مرگ مفاجات 
آزاد کا انديشہ حقيقت سے منور 
محکوم کا انديشہ گرفتار خرافات 
محکوم کو پيروں کي کرامات کا سودا 
ہے بندہ آزاد خود اک زندہ کرامات 
محکوم کے حق ميں ہے يہي تربيت اچھي 
موسيقي و صورت گري و علم نباتات! 
علم سے عاری معاشرے قانون فطرت سے ہٹ کر معجزات کے منتظر ہوتے ہیں کہ شاید غائب سے کامیابی کی کوئی صورت نکل آئے۔ وہ فضول بنیادوں پر ترقی اور زندگی کی عمارت تعمیر کرتے ہیں جبکہ روشن خیال قوموں کا ایک ایک لمحہ خود کرامت ہوتا ہے ۔ وہ ایسے ایسے کارنامے انجام دیتا ہے کہ اسے مافوق الفطرت سہاروں کی ضرورت نہیں رہتی ۔
محکوم کو پیروں کی کرامات کا سودا
ہے بندہَ آزاد خود اک زندہ کرامات
ہم جیسے معاشرے حقیقی علم سے عاری نصاب پڑھاتے ہیں جبکہ امیر و آزاد قوموں کے نصاب میں وہ علوم ہوتے ہیں جو انہیں ترقی سے آشنا کرتے ہیں، لیکن  پاکستانی نوجوان بھی اپنے بڑے خوابوں کی تعبیر پانے کے لئے پرعزم اور اپنی نیندیں، چین، خون جگر جلانے کا عزم مصمم رکھتے ہیں، تیزی سے حالات بہتر ہوتے دیکھ کر مجھے یقین کامل ہو گیا ہے کہ میرے شہر بھی ترقی کی روشنی سے جگمانے لگی ہے۔ 
جناب وزیراعظم شہباز شریف کی دلیر قیادت نے آئین نو سے ڈرنے کے بجائے کٹھن مگر پائیدار راستہ اپنانے کا حوصلہ کر لیا ہے۔ یقین کامل بھی ہے اور دعا بھی کہ ہم جلد اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے۔
قدم قدم پہ اندھیروں کا سامنا ہے یہاں
سفر کٹھن ہے دم شعلہ ساز ساتھ رہے

۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -