سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 32
ملک العادل نے کیسی بے داغ وفاداری اور بے لوث محبت سے اسے گھوڑے سے اتار ا اور کتنی وقت سے نماز شکر ادا کی۔
پھر پرچہ لگا۔
عیسائی لشکر یا فجانے والی سڑک پر حرکت کرنے والا ہے لیکن ہمارے مسلسل حملوں سے عاجز ہے۔ رسد ختم ہو رہی ہے ، سپاہیوں کی مردہ گھوڑوں پر گزران ہو رہی ہے ۔ عکہ سے یہاں تک ہموار سڑک پر بحری لٹیرے کی حفاظت کے باوجود ان کی رفتار ایک دن میں دو تین میل سے آگے نہ بڑھ سکی۔ ان کے داہنے ہاتھ پر سمندر کے کنارے کنارے رسد چل رہی ہے جس پر ان کا بحری بیڑہ سایہ کئے ہوئے ہے۔ آج خبر ملی ہے کہ رچرڈ اپنی فوج کے بائیں ہاتھ کی پہاڑیوں پر ساتھ ساتھ چلتے ہوئے مسلسل نقصان پہنچاتے ہوئے اسلامی لشکر پر اچانک اور زور دار حملہ کرے گا۔ اس کی فوج میں لڑنے والوں کی تعداد ایک لاکھ ہے جو سب کی سب زرہ پوش ہے۔ دوسرے کاموں کے لئے پچاس ہزار پیدل ہیں جو ہلکے ہتھیاروں اور تیر کمانوں سے مسلح ہیں اور ان کی خاصی بڑی تعداد بکتر بند ہے ۔ کل فوج پانچ رجمنٹوں میں تقسیم ہے۔ ہر رجمنٹ میں بہادر اور تجربہ کار لڑنے والے ہیں۔ یہ وہ شہسوار ہیں جن کے برابر کا لڑنے والا ساری مسیحی دنیا میں نہ ملے گا۔ پہلی رجمنٹ طبقہ الداویہ کے سوار ہیں جن پر بادشاہ گائی حاکم ہے۔دوسری میں برٹینی کی فوج سوارہ پر لی سسٹر کارل افسر ہے ۔ تیسری میں فرانسیسی فوج ہے جس کے سالا رآنژو اور برگنڈی ڈیوک ہیں۔ چوتھی رجمنٹ نارمن، آسٹرین اور انگریز شاہزادوں اور نوابوں ، نائیٹوں اور امیروں پر مشتمل ہیں۔ شاہی علم ان کے ساتھ چل رہا ہے ۔ سب سے آخر میں طبقہ البیطار کے سوار ہیں جن پر کمپاگنی کا کاؤنٹ ہنری اپنے علم کی حفاظت کئے ہوئے ہے۔ انہیں کے ساتھ دس ہزار تیر انداز کندے دار کمانوں سے لیس چلے آرہے ہیں۔ ‘‘
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 31 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس نے خدام کو اشارہ کیا۔
سالاروں کو معہ فوج کے تیاری کا حکم دیا۔
اور خود ہتھیار سجنے لگا۔ اپنے محبوب پھنکارتے ہوئے ابلق پر سوار ہو کر منتظر فوج کے قلب پر چڑھ گیا۔
آفتاب بلند ہو چکا تھا اور ٹھنڈی ہوا کے جھکڑ چل رہے تھے۔ عباؤں اور کفتانوں کے دامن بیرقوں کی طرح لہرارہے تھے۔ گھوڑے سہنار ہے تھے۔ نیم دائرے میں ملک العادل ، تقی الدین ملک العزیز ، ملک الافضل، ملک الظاہر ، تاج الملوک ، طغرل ، کیفا ، ماردین اور حلب اور موصل کے حکمران، افریقہ ، مصر اور یمن اور دمشق کے نامی گرامی سردار اور مملوک اس طرح اپنے گھوڑوں پر سوار کھڑے تھے گویا اب چوگان شروع کرنے کا حکم ملنے والا ہے ۔
’’فاتحو!
’’جہاں کشاؤ!
’’مشرق سے مغرب تک ساری نگاہیں تمہاری تلواروں پر لگی ہوئی ہیں جو بیت المقدس کی محافظ ہیں، روضہ اطہر کی محافظ ہیں، اسلامی جاہ و جلال کی محافظ ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہماری فیصلہ کن لڑائی بیت المقدس کی دیواروں کے نیچے لڑی جائے گی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اگر غنیم کا یہ لشکر صحیح و سالم وہاں تک پہنچ گیا اور عکہ میں بیٹھے ہوئے تین لاکھ صلیبی سوار کمک پر آگئے تو ساری دنیائے اسلام خطرے میں پڑ جائے گی اور جنگ کا نقشہ تبدیل ہو جائے گا ۔ تمہارے دین کا دشمن قوی ہے۔ اس کے لمبے چوڑے ہاتھ پیروں پر لوہے کے غلاف ہیں اور اونچے گھوڑوں پر آہنی پاکھریں ہیں لیکن زمین میں لیٹے ہوئے غازیوں اور آسمان پر بیٹھے ہوئے شہیدوں کی دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔ تمہارا انگہبان دشمن سے قوی تر ہے۔ لڑو اور اس طرح لڑو جس طرح تمہارے اصحاب بدر میں لڑے تھے، تمہارے اجداد یرموک میں لڑے تھے اور جس طرح تم خود حطین میں لڑ ے تھے۔ آج کی لڑائی کا فیصلہ قلعوں اور شہروں پر نہیں حوصلوں اور منصوبوں پر ہے۔ اپنی جانیں دے دو اور دشمن سے اس کے حوصلے اور منصوبے چھین لو۔‘‘
اثبات کی تکرار سے جبل لبنان کے سلسلے کانپ اُٹھے۔
’’ملک العادل!‘‘
’’دین پناہا!‘‘
’’بیس ہزار فوج سوارہ کے ساتھ افرنجی لشکر کی کمر پر ٹوٹ پڑو۔‘‘
’’تقی الدین ! ‘‘
’’عالی جاہا !
’’دس ہزار سواروں کے ساتھ دشمن کے سر پر گرو اور شدید صدمہ پہنچا کر واپس آجاؤ۔‘‘
’’دس ہزار محافظانِ خاص ہمارے پہلو میں چلیں اور باقی لشکر دالیانِ کیفاو مار دین، حلب و موصل تقسیم کر کے یابہ رکاب ہوں اور دوسرے حکم کا انتظار کریں۔‘‘
وہ اپنا گھوڑا پھیر کر پیچھے کھڑے خاص برداروں کے چھتر کے نیچے کھڑا ہو گیا اور سپہ سالار لشکر کی تقسیم کرنے لگے۔
پھر اس نے دیکھا کہ ملک العادل اپنے سواروں کے ساتھ پہاڑوں کے نشیب میں داخل ہو گیا اور تقی الدین بیت المقدس جانے والی سڑک پر دشمن کے سامنے پہنچ گیا۔ اب وہ اپنے خاص برداروں کے ساتھ ملک العادل کے داہنے ہاتھ آگیا جس کے بائیں طرف تقی الدین چل رہا تھا۔
شاہ بلوط کے جنگلوں میں عیسائی لشکر نظر آنے لگا تھا اور اب بجائے رینگنے کے کھڑا ہو گیا تھا اور نائب دائیں بائیں چکراتے پھر رہے تھے اور ان کے سوار آہنی پاکھروں سے ڈھکے ہوئے گھوڑوں کو بھڑاک ر فولادی دیوار کی طرح قائم ہو گئے تھے۔ اور ملک العادل کا لشکر خارزار گرزوں اور تیغوں کو تولے ہوئے لپک رہا تھا۔ جن کی کفتانوں سے ڈھکے ہوئے شانوں پر گول ڈھالوں کے پھول چمک رہے تھے ۔ پھر نعروں کی تکرار ہوئی۔ تقی الدین دشمن پر جا گرا تھا۔ اب ملک العادل نے اپنے سواروں کو دشمن پر لپکا دیا۔ اس کے مملوک رانوں سے نکلے جانے والے رہواروں کو سنبھالے حکم کا انتظار کر رہے تھے۔ اب اس نے ابلق کو ایڑ بتائی اور گردشِ ایام کی طرح دشمن کی صفوں پر چلا۔ جاتے ہی جاتے جنگ مغلوبہ شروع کر دی۔ مسلمانوں کے بھاری گرز ا فرنجیوں کے بکتر پوش جسموں پر جھانجھیں بجارہے تھے۔ ان کی تلواریں بھاری زر ہوں پر گرتیں ، لوہے سے لوہا ٹکراتا اور چنگاریاں اڑتیں اور زیادہ سے زیادہ سواروں کو پیدل کو دیتیں یا خفیف صدمہ پہنچا کر دوسرے وار کیلئے علم ہو جاتیں۔ نیزے البتہ کاری وار کر رہے تھے اور غنیم کی صفوں میں تہلکہ ڈالے ہوئے تھے۔ (جاری ہے )
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 33 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں