ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، جنم بھومی، مادر علمی اور ”عمررواں“
کوچہ رزم وبزم سے آشنا فکر وآگہی سے معمور، سیاسی، ادبی،، دینی، معاشرتی
اور علمی حلقوں میں یکساں مقبول، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی جنم بھومی بھیرہ ہے۔حام بن نوح کی اولاد ”ہند“ کی نویں نسل کے ”سورج“نے یہاں حکمرانی کی۔ سکندر کی آمد سے قبل سوفتیس یہاں موجود تھے۔سکندر سے ”کائیاں“کے مقام پر شکست کھانے والے راجہ پورس بھی یہاں حکمرانی کرتے رہے۔چندر گپت موریا، قوم ہن، پدما نامی عورت کا یہ پایہ تخت رہا۔محمد بن قاسم نے جلاالدین محمود عرف غازی پیر کو یہاں کی حکمرانی بخشی۔علم وحکمت کا وارث داؤد طائی علاج کے لئے یہاں آیاتھا۔قرامطہ سردار علم بن شعبان نے یہاں کے علمی مراکز تباہ کئے۔ محمود غزنوی کا تیسرا اور چوتھا حملہ اِس شہر پر ہوا۔چنگیز خان کا جرنیل ترتائی، سلطان التمش، دوا خان، قلق خان، سردار کنگ، سلطان محمد تغلق، امیر تیمور اور ظہر الدین بابر ایسے تاریخ ساز حکمران یہاں کے مکین رہے۔ 1540ء میں دو پٹھان سرداروں نے اِس شہر کو بوجوہ تباہ وبرباد کردیا۔ شیر شاہ سوری نے دریا کے دوسرے کنارے موجودہ شہر کو بسایا۔پرانے شہر کے کھنڈرات دریا کے اس پار احمد آباد کے ساتھ ”بھراڑیاں“کے نام سے موجود ہیں۔اکبر سے اورنگ زیب تک متعدد حکمران اِس شہر میں ڈیرہ ڈالتے رہے۔محمد شاہ رنگیلے کے زمانے میں یہاں کا حکمران راجہ سلامت رائے تھا،جس کے شیش محل کے نام پر ایک محلہ آج بھی موجود ہے۔سکھا شاہی دورمیں لوبھا سنگھ، لہنا سنگھ اور گوجر سنگھ نے یہاں لوٹ مار کی۔احمد شاہ ابدالی یہاں آئے اور صوفی بزرگ میراں شاہ رح کے مزار پر حاضری دی۔یہاں کے ٹوانے، نون اور پراچے بھی صاحب اقتدار رہے،اِنہی پراچگان کے ایک نیک طینت بزرگ مولانا گلزار احمد مظاہری کے ہاں 1950ء میں فرید احمد پراچہ کی پیدائش ہوئی جو آج جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر ہیں۔ میری اور ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی جنم بھومی مشترک ہے۔ اُن کے مادر علمی (سکول نمبر 2 چڑی چوگ جو ضلع سرگودھا کا قدیمی سکول ہے) سے بھی میرا قلبی لگاؤ ہے۔ 1954ء کے درمیانی عرصہ میں وہ نرسری میں یہاں داخل ہوئے لیکن ان کی ذہانت سے مرعوب ہوکر ہیڈ ماسٹر ملک نذیر احمد نے انہیں دو کلاسیں آگے بٹھا دیا یوں جماعت دوم کے طالب علم ٹھہرے۔ماسٹر طیب، عبدالغفور اور ایک گم نام ”ڈنگے کی سوپ“ نامی اساتذہ نے ڈاکٹر فرید احمد کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا شروع کیا۔فرید پراچہ عام بچوں کے ساتھ سکول آتے، ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھتے اور کبھی کبھی آنکھ مچولی دے کر دریا جہلم کے کنارے سیر پر بھی نکل جاتے۔وہ جاڑے میں سکول سے نکل کر ساتھیوں کے ساتھ گڑ کی پت بھی بناتے۔غرض یہ کہ فرید بچپن ہی سے عوامی مزاج رکھتے تھے۔ یوں مستقبل میں وہ عوامی اور قومی لیڈر بنے۔بھیرہ میں قادیانیت خوب پنپی، فرید احمد کے خاندان کے افراد بھی اُن کا شکار ہوئے لیکن اُن کے والد مولانا گلزار احمد مظاہری، جو علی گڑھ میں پڑھنے کے بعد مظاہر العلوم سہارن پور سے دینی حوالے سے فیض یاب ہوئے، نے گھر میں فرید احمد کی یوں تربیت کی کہ بچپن سے آج تک انہوں نے اِس فرقہ باطلہ کی نہ صرف بیخ کنی کی بلکہ قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ اُن کے والد مولانا گلزار احمد مظاہری مولانا مودوی کے ابتدائی ساتھیوں میں سے تھے۔ مولانا مظاہری نے سرگودھا میں کاروبارشروع کیا۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ پانچویں سے انٹرتک سرگودھا میں زیرِ تعلیم رہے۔تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ اپنے والدکے قائم کردہ قاسم العلوم ہائی سکول کی دیکھ بھال بھی کرنے لگے، جس کو حکومت نے بعد میں اپنی تحویل میں لے لیا تھا،جو آج سرگودھا کا معروف تعلیمی ادارہ ہے۔
چند روز قبل خوب صورت ”گیٹ اپ“ کے ساتھ ترتیب دی گئی اُن کی خود نوشت ”عمرِ رواں ”بذریعہ ڈاک موصول ہوئی جو اُن کی آپ بیتی ہونے کے ساتھ ساتھہ جگ بیتی بھی ہے۔ سینکڑوں واقعات، ہزاروں افراد، سیاست، معیشت، معاشرت، تہذیب، علم وادب، دینی معاملات،سیاسی و مذہبی تحریکات، قید وبند کے معاملات، جنگوں کی کہانیاں، حکومتی ایوانوں کے آنکھوں دیکھے حالات، جامعات میں بیتے لمحات، ملکوں کے اسفار، شادی اور مرگ کے احوال،بین الاقوامی سیاست اور پاکستان میں جماعت اسلامی کی قیادت کے علاوہ بہت کچھ ”عمرِ رواں“میں موجود ہے۔ڈاکٹر فرید احمد پراچہ 14 بار گرفتار ہوئے،سب سے پہلی گرفتاری ایوبی استبداد کے خلاف اُس وقت ہوئی جب وہ گور نمنٹ کالج سرگودھا میں زیرِ تعلیم تھے۔مولانا مظاہری جماعت کے ذمہ دار کے طور پر ایک عرصہ میانوالی میں مقیم رہے۔وہاں فرید پراچہ نے عیش کی زندگی کے بعد عسرت وغربت کو بھی دیکھا۔اُن کے برادر اکبر ڈاکٹر حسین احمد پراچہ، سینئر کالم نگار اور ماہر تعلیم بھی وہاں ان کے ہم دم رہے۔فرید احمد پراچہ اسلامی جمعیت طلبہ ضلع سرگودھا کے ذمہ دار بھی رہے۔ اُنہوں نے اِس دور میں ربوہ میں جاکر قادیانیوں کے درمیان، نہ صرف ختم نبوت کے نعرے لگائے بلکہ ان کی خود ساختہ عدالت میں ببانگ دہل کلمہ حق یوں بلند کیا کہ نام نہاد ججوں پر سکتہ ہو گیا۔اُن کے سرگودھا کے اساتذہ میں ڈاکٹر خورشید رضوی، چوہدری عبدالحمید، صاحبزادہ عبدالرسول، غلام جیلانی اصغر،ظل حسنین، خلیل بدایونی،رحمت علی اور دین محمد انور ایسے لوگوں کے نام ملتے ہیں۔فرید احمد پراچہ پر ایوبی دور میں شدید قاتلانہ حملہ ہوا،اُنہیں جیل میں بھی ڈال دیا گیا۔ انہوں نے 1970ء میں اپنے آبائی حلقے میں اپنے والد مولانا گلزار احمد مظاہری کی قومی اسمبلی کے الیکشن کی بھر پور مہم چلائی۔یہ شوشلزم اور اسلام کی کشمکش کا دور تھا۔الیکشن کے بعد سقوط ڈھاکہ جیسا واقعہ متحدہ پاکستان کے خاتمے کا باعث ہوا۔تب شورش کاشمیری کی بھیرہ بھلوال تقریر پر انہیں گرفتار کرکے شاہ پور جیل میں بند کردیا گیا۔فرید احمد پراچہ 1972ء سے 1975ء تک جامع پنجاب میں قانون کے طالب علم رہے۔ انہوں نے یونین کا الیکشن لڑ کر بطور صدرِ جامعہ خدمات سر انجام دیں۔جاوید ہاشمی اُن کے سینئر جب کے معروف سینئر قانون دان محمد اکرام شیخ اُن کے ہم عصر تھے۔1974ء میں ربوہ ریلوے سٹیشن پرقادیانیوں کے تشدد کا شکار ہونے والے ڈاکٹر ارباب عالم بعد میں اُن کے بہنوئی بنے۔ڈاکٹر فرید احمد پراچہ تحریک ختم نبوت، بنگلہ دیش نامنظور تحریک اور اسلامی سربراہی کانفرنس کے علاوہ دیگر تحریکوں میں جوانوں کی دلوں کی دھڑکن بن کر ابھرے۔
انہوں نے جامعہ پنجاب کے مشہور علم دوست وائس چانسلرز علامہ علاؤلدین صدیقی،ڈاکٹر محمد اجمل، ڈاکٹر محمد رفیق اور ڈاکٹر منیر الدین چغتائی کے دور میں صدر یونین و ممبر پنجاب یونیورسٹی سینٹ وسینڈیکیٹ کام کیا۔وہ وکالت کے ساتھ ساتھ کاروبار سے بھی وابستہ رہے۔ اُنہوں نے 1975ء میں جماعت اسلامی میں باضابطہ شمولیت اختیار کی۔وہ مولانا مودودی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، پروفیسر منور حسن اور جناب سراج الحق کے زمانہ امارت تک جماعت کے پکے جماعتی ہیں۔پاکستان قومی اتحادکی تحریک نظام مصطفی سے ضیاء الحق کے دور تک جیل اُن کا ٹھکانہ رہا۔اُن کے والد مولانا گلزار احمد مظاہری 10ستمبر 1989ء صبح 8 بجے وفات پاگئے۔نماز جنازہ اُن کے پرانے رفیق میاں طفیل محمد نے پڑھائی۔قاضی حسین احمد، مفتی حسین نعیمی، عبدالرحمان اشرفی، مجیب الرحمن شامی، احسان الٰہی ظہیر، الطاف قریشی، ڈاکٹر اسرار، عبدالقادر روپڑی اور مصطفی صادق کے علاوہ ہزاروں لوگ نماز جنازہ میں شریک ہوئے۔ڈاکٹر فرید کا جہاد افغانستان سے اِس حد تک قلبی لگاؤ تھا کہ اگلے مورچوں پر برستی گولیوں میں مجاہدین سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ڈاکٹر فرید احمد پراچہ 1990ء میں صوبائی جبکہ 2002ء میں قومی اسمبلی کے ممبر رہے۔قومی اسمبلی کے 342 کے ایوان میں اُن کی کارکرگی چھٹے نمبر پر تھی۔انہوں نے سپیکر کے طور پر بھی ایوان کو چلایا۔وہ 16کتب کے مصنف، جماعت اسلامی کے نائب امیر، ڈائریکٹر علماء اکیڈمی منصورہ، چیئرمین دارارقم سکولز منصورہ، ڈائریکٹر پنجاب کالج بھلوال، ممبر ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ،ریاض سعودی عرب اور صدر گورننگ باڈی منصورہ ہسپتال اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔وہ سعودی عرب، عرب امارات، قطر، بحرین،امریکہ، برطانیہ، جرمنی، ڈنمارک، ناروے، کینیڈا، چین، بنگلہ دیش، ایران، افغانستان، اردن، ملائیشیا اور ترکی ایسے ممالک میں منعقد عالمی کانفرنسوں میں بھی شرکت کرچکے ہیں۔انہوں نے پاکستان اور بیرون ممالک ساڑھے تین ہزار ٹاک شوز میں گفتگو کی اور پاکستان، اسلام اورکشمیر ایسے ایشوز پر مخالفین کو لاجواب کیا۔ مسٹر مانی شنکر سے کئے گئے ٹاک شو پر کشمیری ان کے مداح ہوئے جبکہ آر ایس ایس اُن سے خفا ہوئی۔