گدی اور گدی کا جھگڑا
یہ ماضی قریب ہی کا واقعہ ہے جس کی خبر اخبارات میں اس طرح چھپی ہے کہ سرگودھا میں گدی کے جھگڑے پر درگاہ کے ایک متولی نے چار خواتین سمیت بیس مریدوں کو قتل کر دیا۔ یہ واقعہ کیسے ہوا! کیوں ہوا؟ اس کا پس منظر اور تہہ منظر کیا ہے اس کا پتہ چلانا حکومت کے کارندوں، پولیس یا دیگر تفتیشی اداروں کا کام ہے، پھر اس بارے میں صحیح فیصلہ عدالت کرے گی اور ملزموں کو سزا دے گی۔ اس سزا کے فیصلے میں کتنا وقت لگے گا، اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتااتنا ضرور ہے کہ ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم کی ایک بڑی وجہ فیصلوں میں تاخیر ہے۔ ملزموں کا جلد تعین ہو اور سزا کا نفاذ بھی بروقت ہو جائے یا برأت کا امکان بھی جلد ہو تو جرائم کی روک تھام ایک بدیہی بات ہے۔۔۔یہ گدی سسٹم کیا ہے؟ اسلام سے اس کا کیا تعلق ہے؟ یہی بات غور طلب ہے۔ اچھی صحبت، اچھا مرشد اصلاح باطن کا ذریعہ ہیں۔ ہمارے ہاں یہ دونوں چیزیں تقریباً مفقود ہو چکی ہیں۔ صرف گدی رہ گئی ہے۔ گدی کا تعلق مالی منفعت سے ہے لہٰذا گدی سسٹم مال اکٹھا کرنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ الا ما شاء اللہ ساری لڑائیاں مالی منفعت اور لالچ ہی سے جنم لیتی ہیں۔ اسلام میں تقویٰ کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔
ترجمہ:’’اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت دار وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی پرہیزگار ہے۔‘‘
وراثت کوئی کمال نہیں۔ اصل کمال انسان کے اچھے اعمال، تقویٰ اور طہارت ہے۔ وراثت سیاست میں ہو یا گدی میں، سارے فسادات کی جڑ ہے۔ اس پر قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ خرابیوں کا تدارک ہو، تاکہ مزید خرابیاں جڑ نہ پکڑ سکیں۔ مولانا اشرف علی تھانہ بھون کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے مواعظ کے ذریعے لوگوں کے غلط رسوم و رواج کی اصلاح فرمائی۔ ان کے مواعظ لکھ کر محفوظ کئے گئے۔ اپنے مواعظ میں وہ بعض قصے بھی بیان فرماتے تھے۔ اس سے مقصود اصلاح احوال ہی ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ فرمایا: کیرانہ ہندوستان کا ایک قصبہ ہے وہاں گجر برادری کا چودھری بیمار ہو گیا۔ اس کا بیٹا حکیم (آج کی اصطلاح میں ڈاکٹر) کے پاس آیا کہنے لگا میرے والد کا اچھی طرح علاج کروکیونکہ چاول بہت مہنگے ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر نے پوچھا کیا مطلب چاولوں کی مہنگائی کا بیماری سے کیا تعلق؟ اس نے جواب میں کہا میری برادری بہت بڑی ہے۔ مرنے پرسب آئیں گے اتنے مہنگے چاول سب کو کیسے کھلاؤں گا؟ گویا مجھے باپ کے مرنے کا تو غم نہیں البتہ برادری والوں کو کھلانے کا غم ہے۔
اپنے ایک وعظ میں فرمایا: ایک پیر صاحب اپنے کسی مرید کے گھر پہنچے۔ مرید نے بڑا استقبال کیا، آؤ بھگت کی اور محبت کے اظہار میں یہ بھی کہا پیر صاحب کیا بات ہے آپ تو بہت کمزور ہو گئے ہیں خیریت ہے پیر بڑا ہوشیار آدمی تھا فوراً بولا تم نہ تو نماز پڑھتے ہو، نہ روزے رکھتے ہو یہ سارے کام تمہاری طرف سے مجھے ہی کرنے پڑتے ہیں اور سب سے بڑھ کر میرے کمزور ہونے کی وجہ ایک اور بھی ہے کہ پل صراط پر سے بھی تمہاری طرف سے مجھے ہی گزرنا پڑے گا۔
بس اسی غم میں سوچ سوچ کر کمزور ہوتا جا رہا ہوں ۔ مرید نے جب یہ بات سنی تو دل میں خیال آیا واقعی پیر صاحب تو ہماری وجہ سے ہی مشقت میں مبتلا ہو رہے ہیں ان کی کچھ خدمت کر دی جائے تاکہ ان کی دنیا کی زندگی تو کچھ آسودگی میں گزرے۔ یہ سوچ کر کہنے لگا پیر صاحب! میرے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے۔ میں آپ کو ایک ’’پیلی‘‘ یعنی ایک بیگھہ زمین کی دے دوں گا آپ کو ہماری وجہ سے آخرت میں اتنی مشقت کرنی پڑے گی اس کا بدلہ کچھ دنیا میں تو ہم دے دیں۔ پیر نے یہ بات سنی تو خوش ہوا سوچا ان لوگوں کی بات کا کیا اعتبار اب تو زمین کا کلہ دینے پر آمادہ ہے کل کو اگر مکر گیا تو کیا ہوگا۔ کہنے لگا چودھری صاحب وہ کلہ زمین کا چل کر میرے نام ابھی کرادوموت کا کیا پتہ کس وقت آ جائے۔
مرید کا دل پسیجا ہوا تھاکہنے لگا آئیے مال آفیسر کے پاس چل کر یہ کام کر آتے ہیں۔ یہ دونوں چل پڑے کھیتوں میں پگڈنڈیاں بہت پتلی ہوتی ہیں اور پانی وغیرہ کی وجہ سے راستہ بھی پھسلنا ہوتا ہے چلنے میں دشواری ہوتی ہے۔ مرید تو دیہاتی زندگی کا خوگر تھا جلدی جلدی سارے کھیتوں کے راستے آرام سے طے کر گیا۔ پیر صاحب کو چلنا مشکل ہو گیا۔چلتے ہوئے پگڈنڈی پر ان کا پاؤں پھسلا اور وہ کھیت میں گر گئے۔ مرید نے پیچھے مڑ کر دیکھا پیر صاحب کیچڑ میں لت پت کھیت میں گرے ہوئے تھے۔ اس نے پیر صاحب کو کھیت میں سے نکالا اور بولا پیر صاحب آپ اس چوڑی پگڈنڈی پر بھی نہیں چل سکتے تو پل صراط پر کیسے چل سکیں گے، جو تلوار سے تیز اور بال سے باریک ہو گا۔ جاؤ میں تمہیں زمین کا کلہ نہیں دیتااور پیر صاحب کو وہیں چھوڑا اور یہ جا وہ جا۔ آج کل کے دیہاتی لوگ سادہ لوح ہوتے ہیں انہیں ایسے دنیا دار پیروں فقیروں سے بچ کر رہنا چاہیے۔ علامہ اقبال نے ایسے ہی پیروں کے بارے میں فرمایا تھا:
مرید سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب
خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق