”عمران خان نے مجھے کہا تھا کہ وہ ججز کے خلاف نہیں لڑیں گے لیکن پھر ۔۔“سینئر صحافی نے حیران کن دعویٰ کر دیا

”عمران خان نے مجھے کہا تھا کہ وہ ججز کے خلاف نہیں لڑیں گے لیکن پھر ۔۔“سینئر ...
”عمران خان نے مجھے کہا تھا کہ وہ ججز کے خلاف نہیں لڑیں گے لیکن پھر ۔۔“سینئر صحافی نے حیران کن دعویٰ کر دیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دے دیاہے اور اس معاملے پر اب سینئر صحافی حامد میر بھی میدان میں آ گئے ہیں اور انہوں نے اپنے ٹویٹ میں کہاہے کہ اس سے متعلق وہ پہلے ہی عمران خان کو خبردار کر چکے ہیں ۔
تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی حامد میر نے ٹویٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ ”میں نے وزیراعظم عمران خان کو اپنے 15 اور 18 اپریل 2019 کے کالم میں خبردار کیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ لڑائی مت کریں پھر 10 جون 2019 کو میں نے اپنے کالم میں لکھاتھا کہ وزیراعظم نے مجھے بتایا ہے کہ وہ ججز کے خلاف لڑائی نہیں کریں گے لیکن اس کے باوجود بھی ان کی حکومت نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجا ۔“


سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس مسترد کر دیا ہے,جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی کارروائی روکنے کی استدعا منظور کرلی گئی جبکہ جسٹس قاضی فائز کیخلاف شوکازنوٹس بھی واپس لے لیا گیا,جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دینا کا فیصلہ 10 ججز کاہے تاہم دیگر 3 جج صاحبان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کوقابل سماعت قراردیاہے۔
عدالت نے مختصر حکم نامے میں ایف بی آر کو ہدایت کی ہے کہ وہ سات روز کے اندر فاضل جسٹس کی اہلیہ کو نوٹس جاری کریں، ایف بی آر کے نوٹس جج کی سرکاری رہائش گاہ پر ارسال کیے جائیں، عدالت انکم ٹیکس کمشنر فریقین کو موقع دے، تاکہ وہ جواب دے سکیں اور فائنڈنگز جمع کرائی جائیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ ایف بی آر حکام فیصلہ کرکے رجسٹرار سپریم کورٹ کو آگاہ کریں،ہر پراپرٹی کا الگ سے نوٹس جاری کیا جائے،انکم ٹیکس 60 روز میں اس کا فیصلہ کرے، عدالت اگر قانون کے مطابق کارروائی بنتی ہو تو جوڈیشل کونسل کارروائی کی مجاز ہوگی، چیئرمین ایف بی آر خود رپورٹ پر دستخط کرکے رجسٹرار کو جمع کرائیں گے۔ اطلاعات کے مطابق مقبول باقر منصور علی شاہ آفریدی نے اضافی نوٹ لکھا جبکہ یحیٰ آفریدی نے جسٹس قاضی کی درخواست ناقابل سماعت قرار دی۔ دس رکنی بینچ میں سے سات ججوں نے اکثریتی فیصلہ دیا۔

مزید :

قومی -