سیاست میں تشدد کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے!

سیاست میں تشدد کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے!
سیاست میں تشدد کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پاکستان کی سیاست گزشتہ کچھ عرصہ سے انتشار میں مبتلا ہے جس کے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، بے راہ روی بڑھ رہی ہے اور سیاست میں تشدد کا عنصر پروان چڑھ رہا ہے۔ اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں روشنی کی نہ تو کوئی کرن نظر آتی ہے اور نہ ہی ایسی حکمت عملی مرتب کرنے کے کوئی اثرات دکھائی دے رہے ہیں جس سے آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جا سکے۔سیاست دانوں کے جذباتی اور ہیجان انگیز بیانات سے اردو اخبارات کے صفحات گراں بار نظر آتے ہیں مگر ان مسائل کے معروضی تجزیے اور ان کے ممکنہ اور قابل قبول حل کی نشاندہی کرنے والے مضامین بہت کم چھپتے ہیں جس سے صورت حال مزید گھمبیر ہو رہی ہے۔وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ قابلِ مذمت ہے  لیکن اس واقعہ کے بعد تحریک انصاف کی طرف سے جو جذباتی ردعمل سامنے آیا، وہ بھی کوئی خوش آئند نہیں۔ اس سے قبل  مسلم لیگ  نون کے راہنما احسن اقبال اور  مسلم لیگ نون کے قائد میاں محمد نواز شریف کے ساتھ جامعہ نعیمہ میں بھی ایسا ہی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تھا اور اب سیاست میں اس کے اثرات بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، جس کی ایک جھلک حال ہی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھی دکھائی دی اگر سیاسی جماعتوں نے اس کے تدارک کیلئے سنجیدگی سے اقدامات نہ کئے تو ملکی سیاست انتہائی آلودہ ہو جائے گی اور آئندہ ہونے والے انتخابات زیادہ پر تشدد ہوں گے اور پھر ان واقعات پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔


سیاست میں تشدد کی لہر اور سیاست دانوں کے تندوتیز بیانات میں سینٹ انتخابات نے  مزید اضافہ کیا اور اب ایک دفعہ پھر غدار غدار کی گردان سنائی دے رہی ہے۔ سینٹ انتخابات میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کا کردار منفی رہا اور جس طرح سینٹ کے اراکین کی خریداری کی بازگشت سنائی دی،اس سے سینٹ کے  ”حمام“ میں سب یکساں دکھائی دئیے اور اگر کوئی سیاسی جماعت صاف شفاف تھی تو پاکستان مسلم لیگ قاف اور اس کی قیادت تھی۔ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی نے جس طرح سیاسی حکمت عملی، دوراندیشی اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پنجاب سے سینٹ کے تمام امیدواروں کو بلا مقابلہ کامیاب کروایا، وہ  سیاسی بصیرت و قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے، تحریک انصاف کی قیادت کو چاہیے کہ وہ اپنے وزیروں اور مشیروں کو ہدایت دے کہ وہ مسلم لیگ قاف کی قیادت سے اصلاح لیا کریں۔


سینٹ انتخابات میں تحریک انصاف کی قیادت نے اراکین کے اتوار بازار لگنے کے حوالے سے جو راگ الاپا اس میں وہ خود بھی پورا نہیں اتر پائی، ہمارا المیہ یہ ہے ہم خود بہتری کے راستے پر نہیں چلتے صرف دوسروں کو تلقین کرتے ہیں۔ سینٹ انتخابات میں اگر اپوزیشن نے خرید وفروخت کی تو حکومت خود بھی کم نہیں رہی۔ باقی ساری باتیں ایک طرف، بلوچستان میں سینٹ کے انتخابات میں تحریک انصاف نے عبدالقادر کو ٹکٹ دیا جو بعد ازاں احتجاج پر اس سے واپس لے لیا گیا، اس کے باوجود عبدالقادر نے نہ صرف سینٹ کا انتخاب لڑا بلکہ کامیاب بھی ہوا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے جسے پارٹی کا ٹکٹ ہی نہیں دیا گیا، اس نے الیکشن کیوں لڑا، مان لیا کہ اوپن بیلٹ نہ ہونے کی وجہ سے ووٹ دینے والوں کا پتہ نہیں چل سکتا لیکن اس کے تائید کنندہ اور تجویز کنندہ کی تو جواب طلبی ہو سکتی ہے۔ تحریک انصاف الیکشن کمیشن پر تنقید کر رہی ہے کہ ہم الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کرینگے، جذباتی بیانات دئیے جا رہے ہیں، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اگر  الیکشن کمیشن نے اپنے اختیارات استعمال کئے تو تحریک انصاف کی نہ صرف بلوچستان سے عبدالقادر کی نشست خالی ہو جائے گی بلکہ تائید اور تجویز کردہ ارکان اسمبلی کے خلاف بھی کارروائی ہوسکتی ہے نیز یہ کہ تحریک انصاف کا فارن فنڈنگ کیس بھی الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے۔ بزرگوں نے اسی لیے سوچ سمجھ کر بات کرنے کی تلقین کی ہے اور نادان دوست سے دانا دشمن بہتر بھی اسی لیے کہا گیا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -