پولیو کا پہلا کیس 

پولیو کا پہلا کیس 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پاکستان میں رواں سال کا پہلا پولیو کیس صوبہ خیبرپختونخوا سے رپورٹ ہوا ہے۔ خبروں کے مطابق  تین سالہ متاثر ہ بچے کا تعلق ضلع بنوں سے ہے۔ یہ کیس ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب فرانسیسی ایجنسی برائے ترقی (ایف اے ڈی) اور بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن (بی ایم جی ایف) کے وفود پولیو کے خاتمے کی کوششوں کا تجزیہ کرنے کے لیے ملک میں موجود ہیں۔وزارت صحت کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ایف اے ڈی اور بی ایم جے ایف کے نمائندوں نے وفاقی وزیر صحت سے ملاقات بھی کی جس میں سماجی تحفظ اور صحت سے متعلق بالخصوص پولیو کے خاتمے کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔ وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل کا کہنا تھا کہ پولیو کی موجودگی سے پتہ چلتا ہے کہ یہ وائرس ہماری کمیونٹیز میں گردش کر رہا ہے اور ہمارے بچوں کے لیے سنگین خطرہ ہے۔رمضان اور عید قریب آنے کے ساتھ آبادی کی نقل و حرکت وائرس مزید پھیلنے کا خطرہ بڑھا سکتی ہے اِس لیے ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے ضرور پلوائیں۔ نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے ذمہ داران کے مطابق انسداد پولیو کی مہم کو خاص طور پر مارچ میں اِس لیے شروع کیا گیا ہے کیونکہ رمضان اور عید کی چھٹیوں کے دوران لوگوں کی آمدورفت زیادہ ہوتی ہے۔ سندھ اور پنجاب میں 13 مارچ سے شروع ہونے والی انسداد پولیو مہم کے دوران پانچ سال سے کم عمر کے دو کروڑ 15 لاکھ سے زیادہ بچوں کو حفاظتی قطرے پلائے جانا ہیں۔ ساتویں قومی مردم شماری کی سرگرمیوں کی وجہ سے پانچ روزہ پولیو مہم دو مراحل میں مکمل کی جائے گی۔ پہلے مرحلے میں 13 سے17 مارچ کے دوران پنجاب کے 13جبکہ سندھ اور اسلام آباد کے 16 اضلاع میں پانچ سال سے کم عمر کے ایک کروڑ 74 لاکھ سے زائد بچوں کو حفاظتی قطرے پلائے گئے ہیں، دوسرا مرحلہ تین سے سات اپریل تک مکمل کیا جائے گا۔ رمضان کے دوسرے ہفتے میں بلوچستان کے 12 جبکہ خیبر پختونخوا کے 26 اضلاع میں 41 لاکھ 20 ہزار سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔


2021 ء میں پولیو نے 20 بچوں کو معذور کر دیا تھاتاہم پاکستان میں ستمبر 2022ء کے بعد سے اِس کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا۔رواں برس جنوری میں لاہور کے دو الگ الگ مقامات سے ماحولیاتی نمونوں میں پہلی بار پولیو وائرس کی تشخیص ہوئی جس کے بعد سے مزید دو نمونوں میں اِس کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے،ایک ڈیرہ اسمٰعیل خان جبکہ دوسرا نمونہ گھوٹکی کا تھا۔ ماضی میں بھی  پولیو کا وائرس مختلف شہروں میں کہیں نہ کہیں سے ملتا رہا ہے جس کی وجہ سے پولیو فری پاکستان کا خواب آج تک شرمندہئ تعبیر نہیں ہو سکا۔ دنیا بھر سے اگرچہ اِس کا خاتمہ کر دیا گیا ہے لیکن بدقسمتی سے صرف افغانستان اور پاکستان  وہ ممالک ہیں جہاں پولیو آج بھی موجود ہے اور بچوں  کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔90 ء کی دہائی کے اوائل میں رپورٹ ہونے والے 20 ہزار کیسوں کی نسبت  پولیو کیسوں کی تعداد میں 99فیصد سے زیادہ کمی آ چکی ہے تاہم اِس کا مکمل خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔ 2021ء کے دوران پاکستان کے جنوبی صوبے بلوچستان کے شہر قلعہ عبداللہ سے تعلق رکھنے والے ایک بچے کے جسم سے حاصل کیے گئے نمونوں میں پولیو کے جراثیم پائے گئے تھے، اْس کے بعد سے پاکستان میں اب یہ کیس سامنے آیا۔


عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے معیار کے مطابق کسی ملک میں لگا تار تین سال تک پولیو کا کوئی کیس سامنے نہ آنے کی صورت میں ہی اسے پولیو سے پاک ملک (پولیو فری کنٹری) قرار دیا جا سکتا ہے۔پاکستان انسداد پولیو پروگرام کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال انسداد پولیو مہم کے دوران پانچ سال سے کم عمر کے کروڑوں بچوں کو ویکسین پلائی جاتی ہے تاہم اِس کے باوجود اِس کا مکمل خاتمہ تاحال ممکن نہیں ہو سکا۔ ایبٹ آباد میں ایوب میڈیکل کالج کی ایک تحقیق کے مطابق پولیو ویکسین کے بارے میں عوام میں پائی جانے والی غلط فہمیاں، ملک کے اندر عدم تحفظ اور صحت کا ناقص نظام پولیو کے خاتمے کی مہم اور بیماری کے خاتمے میں ناکامی کی بڑی وجوہات ہیں۔ایک اور تحقیق میں پاکستان میں رائج بعض مذہبی عقائد، پاکستان، افغانستان سرحد کے درمیان غیر منظم نقل و حرکت اور پولیو ویکسین کے بارے میں معلومات کی کمی کو بھی اس کا سبب قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں بعض عسکریت پسند تنظیمیں بھی پولیو ورکرز کی ٹیموں پر حملے کرتی رہی ہیں جن میں 2012 ء سے اب تک 70  سے زائد ہیلتھ ورکرز (بشمول خواتین) اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے متعدد اہلکار جاں بحق ہو چکے ہیں۔ گزشتہ سال پولیو کا کوئی کیس سامنے  نہ آنے کے بعد اقوام متحدہ کے بچوں کا فنڈ (یونیسیف) پر اْمید تھا کہ پاکستان میں پولیو پروگرام دوبارہ مکمل طور پر فعال ہو چکا ہے اور آئندہ سال تک ملک سے مستقل معذوری کا سبب بننے والی اِس بیماری کا خاتمہ ممکن ہو پائے گا۔ یونیسیف کے ریجنل ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیاء نے سرکاری خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو میں کہا تھا کہ پولیو کا خاتمہ جلد ممکن ہو سکتا ہے تاہم کچھ ایسے چیلنج ہیں جو اِس کے مکمل خاتمے کی کوششوں میں رکاوٹ ہیں، حالیہ تباہ کن سیلاب سے بھی متاثرہ اضلاع میں اہم مراکز صحت تباہ ہو گئے ہیں اور تاریخی طور پر یہ وائرس سب سے زیادہ اِنہی اضلاع میں پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے انسداد پولیو میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔انسانی جسم میں یہ وائرس آنتوں کو اپنا مسکن بنا کر بڑھتا ہے جہاں سے یہ اعصابی نظام پر حملہ کر  کے اعضا کو متاثر کر سکتا ہے، اِس کا کوئی علاج نہیں ہے اور اِسے صرف حفاظتی ویکسین ہی سے روکا جا سکتا ہے۔افغانستان کے حالات کی وجہ سے وہاں اس کی موجودگی تو ممکن ہو سکتی ہے تاہم پاکستان میں اِس کی کوئی حجت شاید قابل ِ قبول نہ ہو۔ گزشتہ لگ بھگ دو دہائیوں سے اشہارات کے ساتھ ساتھ علمائے کرام اور معززین کے ذریعے آگاہی پیدا کی جا رہی ہے، اپیلیں کی جا رہی ہیں کہ اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے ٹیکے لگوائیں، اُنہیں اِس کے قطرے پلوائیں لیکن  کوئی نہ کوئی کیس سامنے آ جاتا ہے۔پاکستان اور اْس کے مستقبل کو اِس مرض سے محفوظ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کے محفوظ مستقبل کے لیے محکمہ صحت کی ہدایات پر من و عن عمل کریں۔ 

مزید :

رائے -اداریہ -