پاکستان میں متناسب نمائندگی کا نظام ، انتخابی معاملات کی نگرانی کرنے والی تنظیم ’فافن‘نے پارلیمان سے بڑا مطالبہ کردیا

پاکستان میں متناسب نمائندگی کا نظام ، انتخابی معاملات کی نگرانی کرنے والی ...
پاکستان میں متناسب نمائندگی کا نظام ، انتخابی معاملات کی نگرانی کرنے والی تنظیم ’فافن‘نے پارلیمان سے بڑا مطالبہ کردیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن)فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک( فافن) نے پارلیمان سے مطالبہ کیا ہے کہ متعدد امیدواروں میں سے زیادہ ووٹ لینے والے کسی ایک امیدوار کو منتخب کرنے والے فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ نظام (ایف پی ٹی پی) پر نظر ثانی کرے کیونکہ یہ ناقص انتخابی نظام صحیح معنوں میں عوامی رائے کی نمائندہ اسمبلیاں اور حکومتیں منتخب کروانے سے قاصر ہے،فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ سسٹم کی جگہ متناسب نمائندگی کے نظام کو اپنانے کےلئے بڑے پیمانے پر بحث مباحثے اورمذاکرات کی ضرورت ہے۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان میں انتخابی عمل کا جائزہ اور بطور مبصر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’فافن‘نے کہا ہے کہ فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ سسٹم میں پڑنے ووٹوں کی اکثریت کسی نمائندگی میں تبدیل نہیں ہوتی جبکہ متناسب نمائندگی کے نظام میں 95 فیصد سے زائد ووٹ نمائندگی میں تبدیل ہو سکتے ہیں،یوں رائے دہندگان کی رائے نہ صرف ضائع ہونے سے بچ جاتی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اسمبلیاں اور حکومتیں عوام کی اکثریت کی حقیقی نمائندہ بھی ہوتی ہیں۔

ایف پی ٹی پی نظام کی فرسودگی اس وقت مزید واضح ہو جاتی ہے جب انتخابی مقابلہ دو پارٹیوں کی بجائے متعدد جماعتوں کے مابین ہو۔قومی اور صوبائی اسمبلی کی بہت سی نشستیں ایسی ہیں جہاں سہ رخی یا چہاررخی انتخابی مقابلہ بھی دیکھنے میں آتا ہے جس سے عوامی ووٹ متعدد سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں میں منقسم ہو جاتا ہے اور جیتنے والے امیدوار رائے دہندگان کے ایک قلیل حصے کے ہی نمائندہ ہوتے ہیں۔

فافن کا کہنا تھا کہ متناسب نمائندگی کا نظام متعدد سیاسی جماعتوں کے مابین کڑے انتخابی مقابلے کی صورتحال میں بہتر نمائندگی کرنے کے قابل ہے۔ پاکستان میں متناسب نمائندگی کا نظام پارلیمان کے ایون بالا یعنی سینٹ کے انتخابات ، قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر خواتین کے انتخاب اور پنجاب میں مقامی حکومتوں کے قانون میں تحصیل کونسل وغیرہ کے انتخابات کے لیے پہلے ہی رائج ہے۔ اسے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی جنرل نشستوں پر توسیع دینے کی ضرورت ہے۔

پچھلے چار عام انتخابات کے نتائج کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے لیے پڑنے والے ووٹوں کی اکثریت کسی نمائندگی میں تبدیل نہیں ہو سکی۔ اکثریتی ووٹروں کی رائے ضائع ہونے کے باعث جو اسمبلیاں وجود میں آئیں وہ انتخابات میں حق رائے دہی کا استعمال کرنے والے رائے دہندگان، کل رجسٹرڑڈ ووٹرز اور کل آبادی کے ایک اقلیتی حصے ہی کی نمائندہ تھیں۔ نتیجتاً جو حکومتیں وجود میں آئیں وہ بھی انتخاب کنندگان کے ایک چھوٹے سے حصے ہی کی نمائندگی کرتی تھیں۔

2002ء کے عام انتخابات سے لیکر اب تک کسی نمائندگی میں تبدیل نہ ہونے والے ووٹوں کی شرح میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر پڑنے والے پانچ کروڑ اڑتالیس لاکھ ووٹوں میں سے تین کروڑ گیارہ لاکھ ووٹ کسی نمائندگی میں تبدیل نہیں ہوئے یعنی 57 فیصد رائے دہندگان کی رائے اسمبلی اور حکومت سازی میں کام نہیں آ سکی،2013 کے عام انتخابات میں چار کروڑ انہتر لاکھ ووٹوں میں سے دو کروڑ تینتالیس لاکھ یعنی 52 فیصد ووٹ کسی نمائندگی میں تبدیل ہوئے بغیر ضائع ہو گئے۔

2008ءکے عام انتخابات میں تین کروڑ چھپن لاکھ ووٹوں میں سے ایک کروڑ ستتر لاکھ یعنی 50 فیصد ووٹ کسی نمائندگی کے کام نہیں آسکے۔ 2002 ءکے عام انتخابات میں تین کروڑ پڑنے والے ووٹوں میں سے ایک کروڑ انسٹھ لاکھ ووٹروں یعنی 53 فیصد رائے دہندگان کی رائے قومی اسمبلی میں کسی نمائندگی کے کام نہیں آ سکی۔صوبائی اسمبلیوں کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے،2018ء کے عام انتخابات میں معرض وجود میں آنے والی خیبر پختونخوا اسمبلی کے لیے پڑنے والے 64 فیصد ووٹ کسی نمائندگی سے محروم رہے،یہ شرح بلوچستان اسمبلی کے لیے 59 فیصد، پنجاب اسمبلی کےلئے 58 فیصد اور سندھ اسمبلی کے لیے 53 فیصد ہے۔

2002ء کے انتخابات کے بعد اور اس سے پہلے کے بعض انتخابات میں بھی وہ سیاسی جماعتیں جنہوں نے وفاقی حکومتیں تشکیل دیں، مجموعی ووٹوں کی ایک تہائی سے بھی کم اور کل رجسٹرڈ ووٹروں کے پانچویں حصے سے بھی کم ووٹ حاصل کر سکی تھیں۔ ان اعدادوشمار سے مترشح ہوتا ہے کہ ایف پی ٹی پی کا نظام عوام الناس کی آزادانہ رائے اور اکثریت کی آواز کو نمائندگی میں بدلنے سے قاصر ہے۔ دستور پاکستان کے مطابق عوام الناس کی آزادانہ رائے کو ریاست کے لیے ایک نظام مرتب کرنا چاہیے جو ریاستی طاقت اور اختیارات کو عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے۔

ایف پی ٹی پی نظام میں ہارنے والے امیدوواروں کو ملنے والے ووٹ نیز جیتنے والے امیدوار کو اپنی جیت کے لیے درکار ووٹوں سے زائد ملنے والے ووٹ انتخابی نتائج میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے اور یوں رائے دہندگان کی اکثریت کی رائے کسی نمائندگی میں تبدیل ہوئے بغیر ضائع ہو جاتی ہے۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہےتاہم بہت سی جمہوریتیں ایف پی ٹی پی کے زیادہ ترقی یافتہ اور بہتر متبادلات یعنی متناسب نمائندگی کی مختلف شکلوں کو اختیار کر چکی ہیں۔متناسب نمائندگی کے نظام میں عوام کی اکثریت کی رائے حکومت بنانے میں کام آتی ہے اور یوں ریاستیں ایسی حکومتوں کے اقتدار میں آنے سے محفوظ ہو جاتی ہیں جو رائے دہندگان اور آبادی کی اقلیت کی ہی نمائندہ ہوں۔

ایف پی ٹی پی نظام کاایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس میں سیاسی جماعتیں ٹرن آؤٹ بڑھانے میں دلچسپی نہیں دکھاتیں کیونکہ ان کے امیدواروں کو دیگر امیدواروں کے مقابلے میں محض ایک اضافی ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے زائد پڑنے والے ووٹوں کا امیدواروں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ 2018ء کے عام انتخابات میں جیتنے والے امیدواروں نے 12 فیصد غیر ضروری ووٹ حاصل کیا جس کے بغیر بھی انتخابی نتائج ویسے ہی رہتے جیسے اس کے ساتھ رہے۔

فافن کا خیال ہے کہ پاکستان میں کمزور وفاقی و صوبائی حکومتوں کی تشکیل میں ایک بڑا کردار ایف پی ٹی پی نظام کا ہے۔ اب جب پارلیمنٹ میں انتخابات کے ترمیمی بل 2020ء پر بحث ہونے والی ہے، پارلیمنٹ کو نمائندگی کے مسائل کا بغور جائزہ لینا چاہیے اور منتخب اداروں کو مضبوط کرنے کے لیے ایف پی ٹی پی کی جگہ کسی ایسے انتخابی نظام کو اختیار کرنا چاہیے جو حقیقی معنوں میں عوامی خواہشات کا نمائندہ ہو اور جس میں ہر ووٹ صرف گنا نہ جائے بلکہ وہ کسی نمائندگی میں تبدیل بھی ہو سکے۔

مزید :

قومی -