جب تخت اچھالے جائیں گے....!

جب تخت اچھالے جائیں گے....!
جب تخت اچھالے جائیں گے....!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آج کا کالم فیض احمد فیض کی اس مشہور نظم ”ہم دیکھیں گے“سے شروع کرتے ہیں جو انہوں نے عشروں قبل لکھی تھی اور اقبال بانو نے اس کو گا کر زبان زد عام کردےا تھا۔ اس نظم کو فےض احمد فےض بھی بہت پسند کےا کرتے تھے اور اقبال بانو کے ہر پروگرام مےں اس نظم کی فرمائش بار بار کی جاتی تھی۔ پاکستان کے موجودہ حالات مےں اس نظم کو بار بار پڑھنے اور سننے کو جی چاہتا ہے ۔دراصل فےض احمد فےض جےسے انقلابی فلسفی نے اس نظم مےں اےک اےسی خواہش کا اظہار تھا جو تقرےباً 50 سال بعد بھی وےسی ہی ہے اور اس کی تعبےر ہمےں نہےں مل سکی، بلکہ اس نظام مےں اور زےادہ بگاڑ پےدا ہو چکا ہے۔ آج کے پاکستان مےں جمہورےت اور آمرےت کے علاوہ ملوکےت کا بھی چلن عام ہے۔آج ملکی بدترےن حالات کے تناظر مےں فےض احمد فےض جےسے انقلابی شاعرو فلسفی کے افکار کو دوبارہ سے زندہ کرنے کی اشد ترےن ضرورت ہے، تاکہ خواب غفلت مےں سوئے ہو ئے اس ملک کے عوام جاگ کر اس ملک کا بچاﺅ کر سکےں۔
اگر اس نظم کو غور سے پڑھےں تو اس مےں و ہی کچھ لکھاگیا ہے، جس کی آج پاکستان کو شدےد ترےن ضرورت ہے،جس قسم کے نظام اور طرز حکمرانی کو آج پاکستان مےں سند بخشی جا چکی ہے، اس مےں حاکم کا تصور جابرانہ اور ظالمانہ ہے ۔ حکمرانوں کی بنےادی ترجےح مےںلوٹ مار ، اپنے خاندانوں کے اثاثوںمےں اضافہ اورعوام کو کمزور و بے بس کرنا شامل ہو چکا ہے ۔عوام کا رشتہ حاکم اور محکوم سے بھی بڑھ کر بادشاہ اور رعاےا کا بن چکا ہے ۔جمہورےت اور آمرےت کی بات تو چھوڑےں، اس ملک مےں عوام کاجےنا مشکل ہو چکا ہے تو مرنا مشکل ترین۔عوام کی مشکلات اور معاشی نا انصافےوں کی داستان روز بروز لمبی ہوتی جا رہی ہے اور ان حکمرانوں کی پشتوں کی پشتےں مضبوط ترےن ہو رہی ہےں۔ عوام کو اےک اےسے گورکھ دھندے مےں پھنساےا جا چکا ہے کہ آج ان کو اپنی بھی خبر نہےں ۔پاکستانی عوام بقول شاعر:
کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لئے
سوال ےہ ہے کتابوں نے کےا دےا مجھ کو
کرپشن ہمارے معاشرے مےںاس بُری طرح سے سراےت کر چکی ہے کہ اس کا خاتمہ اےک خواب ہی نظر آتا ہے۔ جب حکمران ہی کرپٹ ہوں گے تو پھر معاشرہ کےسے ٹھےک ہو سکتا ہے؟رےاست کے چار بنےادی ستونوں مےں سے اےک ستون صحافت کو بھی گردانا جاتا ہے ۔دکھ کی بات ہے کہ آج وہ بھی حکومتی عہدیداروں کی طرح اس کرپشن سے لپٹے ہوئے نظام مےں اس کا حصہ بنے ہوئے ہےں اور اپنا ”حصہ“۔ وصول کر رہے ہےں ۔
....ہم دےکھےں گے؟پاکستان کے موجود ہ سےاسی اور معاشی تنزل شدہ حالات اور عوامی رد عمل کو دےکھتے ہوئے تو بظاہر اےسا کچھ ہوتا نظر نہےں آرہا۔آج پاکستان کے عوام پر جمود طاری ہو چکا ہے ،ہرسُوسکوت نظر آرہا ہے ،لوگ اپنی راے کا سرعام اظہار کرنے سے بھی گرےز کرتے نظر آرہے ہےں ۔بے بسی اور ظلم و ستم کے مارے ہوے عوام کی خاموشی کی سمجھ کسی کو بھی نہےں آرہی ۔ان کی خاموشی کےا رنگ لاتی ہے؟ اللہ ہی جانتا ہے۔ جب ظلم و ستم کے کوہ گراں .... روئی کی طرح اڑ جائےں گے....اور راج کرے گی خلق خدا.... جو مَےں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔کون دےکھے گا؟؟........ جب اہل صفا مردود حرم مسند پر بٹھائے جائےں گے۔
 اقبال کے تصور کردہ پاکستان مےںتو آج عوام کے خواب بھی مر رہے ہےں ۔ ظلم کے کالے پہاڑوں سے بھی نہ رکنے والے خواب مر رہے ہےں ۔ ظلم کے دوزخوں سے بھی نہ رکنے والے خواب ٹوٹ چکے ۔ مقتلوں مےں پہنچ کر نہ جھکنے والے خواب بھی ٹوٹ کر رےزہ رےزہ ہو کر بکھر چکے ۔ خواب جو ارسطو تھے، وہ بھی ٹوٹ چکے ۔ اب تو پاکستان کے عوام کے خواب بھی مر چکے ہےں ۔اس قوم کو سےاسی بے وفاﺅں کا سامنا ہے ۔
کب سب بت اٹھائے جائےں گے اور عوام مسند پر بٹھائے جائےں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دےکھےں گے ۔بس نام رہے گا اللہ کا ۔جو ناظر بھی ہے منظر بھی۔اور راج کرے گی خلق خدا جو مَےں بھی ہوں اور تم بھی۔
پاکستان کی سلامتی کا سوال ہے اور ہم سب کو سوچنے کی ضرورت ہے :
پا بجولاںچلوآج بازار مےں پا بجولاں چلو
رختِ دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمےں قتل ہو آئےں ےارو چلو
پا بجولاںچلوآج بازار مےں پا بجولاں چلو

مزید :

کالم -