گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 55

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ ...
 گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 55

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کینیڈا میں ، ۱۴۹۱ءمیں ، میں ایک گورنر سے ملاقات کیلئے گورنر ہاﺅس کی طرف جا رہا تھا (میں ایک ہوٹل میں مقیم تھا) تو اے ۔ ڈی ۔ سی نے راستے میں گورنر کی سرکاری رہائش گاہ دکھائی۔ عمارت پر پرچم نہیں تھا۔ کھڑکیاں بند تھیں اور باغ اُجڑ ا پڑا تھا ۔ مجھے بتایا گیا کہ گورنر اور وزیراعظم میں ان بن ہے ۔ اس لیے وزیراعظم نے گورنر ہاﺅس کی دیکھ بھال کے لیے مقررہ گرانٹ بند کر دی ہے ۔ جب پاکستان قائم ہوا تو میں نے وزیراعظم لیاقت علی خاں سے کہا کہ اس طرح کی صورتِ حال کی تدارک کر لیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک قانون منظور کیا جس کی روسے سے طے پایا کہ پاکستان میں میں گورنر کی اقامت گاہوں سے متعلق ہر چیز کی منظوری صوبائی حکومتوں کی طرف سے نہیں بلکہ مرکزی حکومت کی جانب سے ہو گی۔ کینیڈا میں اس صوبہ کا گورنر عام زندگی میں ایک کیمسٹ تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اپنی پارٹی کا نہایت اہم آدمی بھی تھا۔ میکنزی کنگ نے ریٹائرمنٹ سے پہلے اسے ترقی دے کر اس منصب پر پہنچا یا تھا لیکن اسے رہائش اپنے ہی مکان میں رکھنی پڑتی تھی۔
میں کیلگری میں کینیڈا کی گھڑ سوار پولیس کا ہیڈ کوارٹر دیکھنے بھی گیا تھا۔ وہاں مجھے صبح کی سیر کے لیے گھوڑا حاصل کرنے میں تھوڑی سی دشواری ہوئی لیکن آخر کار مل گیا۔ میں کار میں بیٹھ کر دس میل دور ایک خاتون سے ملاقات کے لئے گیا۔ جو ایک اصطبل کی مالکہ تھیں۔ اسی روز تقریباً دس گھوڑ سواروں کے درمیان بھی دوڑ کا مقابلہ ہو رہا تھا۔ ایک لمبا تڑنگا گھوڑا مجھے بھی مل گیا۔ خاتون نے بتایا کہ یہ گھوڑا میں نے گُھڑ سوار پولیس سے چھ ڈالر میں خریدا ہے جب میں گھوڑے پر سوار ہو کر نکلا تو کچھ دور چل کر اندازہ ہوا ہے کہ وہ بھاپ کے انجن کی طرح شہ زوری دکھا رہا تھا۔سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس کا کیا کروں۔ جب ہم واپس ہوئے تو میں تھکن سے چور ہو رہا تھا۔ اصطبل کی مالکہ خود بھی ایک گھوڑے پر سوار ہمارے ساتھ چل رہی تھیں۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ گھوڑے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ میں نے جواب دیا کہ محترمہ !چھ ڈالر میں بہت مہنگا ہے ۔ تین طرح کے گھوڑوں سے بچنا چاہیے ۔ (۱)ایک وہ جو چلتے میں ٹھوکر کھاتا ہے۔ (۲) جو باگ کھینچتا ہے۔ (۳) اور جو چلتے چلتے چونکتا ہے ۔ شاید اس لیے کہ اس کی بینائی میں کوئی فتور ہوتا ہے لیکن جب آپ گھوڑوں میں سموں کی بیماری سب سے خطرناک ہوتی ہے اور اس کا پتا مشکل ہی سے چلتا ہے۔ عام طور پر گھوڑا خریدنے کے بعد ہی اس بیماری کا سراغ ملتا ہے۔
میں ایڈمنٹن بھی گیا اور وہیں پہنچ کر مجھے اس قانون کاعلم ہوا جس کے تحت ہر طرح کی ملکیت پر ہر سال ٹیکس لگتا ہے ، حتیٰ کہ زمین کا قطعہ خواہ اس پر مکان تعمیر ہوا ہو یا نہ ہوا ہو اور گھر کی کتابیں بھی ٹیکس سے مستثنیٰ نہیں۔ ایک ضعیف خاتون نے مجھے بتایا کہ ٹیکس کے کارندوں نے میری لائبریری کی قیمت کا تخمینہ دس ہزار ڈالر لگایا ۔ لیکن خود ان کے خیال میں مالیت اس سے زیادہ تھی۔ تاہم انہوں نے مناسب نہیں سمجھا ۔ اپنی املاک کی قیمتوں کے بارے میں لوگوں کے انداز سے مبالغہ پر مبنی ہوا کرتے ہیں۔ میں نے یہی قانون پنجاب میں بھی لاگو کرنا چاہا، تاکہ لوگ مجبور ہو کر شہریوں میں اپنے خالی قطعات پر مکان تعمیر کریں اور ہومحض زمین کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر مطمئن ہو کر نہ بیٹھیں ۔ لیکن اتنی آمدنی نہیں ہوئی کہ حکومت کے اس انتظام کو جاری رکھا جا سکے۔ غیر موصولہ اضافہ ٹیکس لگانا ممکن نہیں۔ کیونکہ اس طرح کا ٹیکس لگانے کے بعد حکومت کو قیمتوں میں تخفیف پر نقصان کی صورت میں چھوٹ بھی دینی پڑے گی۔ برطانیہ میں لائیڈ جارج نے ۵۱- ۴۱۹۱ءمیں اسی طرح کا قانون نافذ کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن انہیں بھی اس سبب سے اپنا ارادہ ترک کرنا پڑا۔ ہماری موجودہ حکومت نے ۵۶۹۱ءمیں ایک منافع کا ٹیکس اور ایک زائد دولت کا ٹیکس نافذ کیا ہے، لیکن یہ دونوں ٹیکس ہماری بڑھتی ہوئی ضرورت کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے۔
کینیڈا کے مغربی صوبہ کو لمبا میں بہت سے سکھ آباد ہو گئے تھے۔ میں نے وہاں کا سفر ٹرین سے کیا اور بہت لطف اندوز ہوا۔ یہاں کے جنگلات کے درخت شملہ کے درختوں کے مقابلے میں چھوٹے دکھائی دیتے تھے۔ کینیڈا کے ایک شخص نے مجھے بتایا کہ میرا مالی ایک سکھ ہے اور مجھے ہر اتوار کو اسے گوردوارہ کے باہر سڑک پر سے اُٹھا کر لانا پڑتا ہے ۔ کیونکہ وہ نشے میں دھت ہوتا ہے بہت سے انگریز سول سروس افسر ونکوور میں آباد ہو گئے تھے، جہاں کی آب و ہوا برطانیہ کی طرح نسبتاً معتدل ہے۔ کینیڈا میں جھیلیں بہت خوبصورت ہیں اور جھیل سپیر یر تو اتنی بڑی ہے کہ کینیڈا کے لوگ مذاق کے طور پر کہتے ہیں کہ اگر کوئی برطانیہ کا جزیرہ اُٹھا کر اس جھیل میں پھینک دے تو ایک لہر بھی نہیں اُٹھے گی۔ کینیڈا کے لوگ برطانیہ کے بڑے ہمدرد ہیں اور برطانیہ کے سرکاری ادارے اور عوام بھی کینیڈا کے لوگوں کی بہت عزت کرتے ہیں۔ برطانیہ میں کوئی اہم بات دولتِ مشترکہ کے تمام ممالک بالخصوص کینیڈا سے مشورہ کیے بغیر روبہ عمل نہیں آتی۔ اگر ہٹلر برطانیہ پر قابض ہو جاتا تو برطانوی حکومت ملک خالی کر کے کینیڈا جا پہنچتی اور اپنی جنگ وہاں سے جاری رکھتی ۔ چرچل جیسے آدمی کے لیے غیر ممکن تھا کہ ہتھیار ڈال دیتا۔
مجھے ٹورنٹو یونیورسٹی میں قانون کی اعزازی ڈگری دی گئی۔ گورنر جنرل کی اہلیہ لیڈی ایتھلون نے بھی اسی روز اعزازی ڈگری قبول کی۔ یونیورسٹی کے چانسلر سر ولیم مُلاک اپنی سفید داڑھی کی وجہ سے نہایت خوش رو اور جیہہ لگ رہے تھے۔ ان کی عمر کوئی نوے سال تھی۔ وہ ہائی کورٹ کے جج رہ چکے تھے، لیکن ریٹائر نہیں ہوئے۔ کیونکہ کینیڈا میں ہائی کورٹوں کے ججوں کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں۔ چنانچہ حکومت نے انہیں یونیورسٹی کا چانسلر بنا دیا۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے ججوں کے لیے ستر سال اور ہائی کورٹ کے ججوں کیلئے ۵۶سال کی عمر ہونی چاہیے میںعمر کی اس حد تک توسیع کا ارادہ رکھتا تھا ، لیکن میری وزارت ایک ہی سال رہی اور اس طرح کے معاملات کی منظوری میں خاصا عرصہ درکار ہوتا ہے ججوں کی پینشن چار ہزار روپیہ ماہانہ ہے ۔ افراطِ زر کے اس زمانہ میں یہ رقم ہر گز کافی نہیں۔ پھر ججوں کو ریٹائر ہونے کے بعد پریکٹس کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ ہمارے ملک میں لائق لوگوں کو ججی کے منصب کی طرف مائل کرنے کیلئے موزوں تدابیر اختیار کرنی پڑیں گی۔
ٹورنٹو ریلوے سٹیشن پر مجھے ایک بیحدنا گوار تجربہ سے دو چار ہونا پڑا جب ہم وہاں پہنچے تو گاڑی کے نیگرو سپرنٹنڈنٹ نے میرا ہینڈ بیگ اٹھالیا اور دوسرے سامان کو ہاتھ لگائے بغیر نہایت پھرتی سے اُسے باہر لے گیا ، ہینڈبیگ میں میرے کاغذات تھے۔ میں نے اپنے پرائیویٹ سیکرٹری میک میتھر سے پوچھا کہ میرا ہینڈنگ بیگ کہاں ہے تو اس نے کہا ۔ مجھے نہیں معلوم ۔ ہم دونوں ادھر اُدھر بھاگتے پھرتے لیکن بیگ کا کوئی پتا نشان نہ چلا۔ آخر ہم پلیٹ فارم سے باہر نکلے تو دیکھا کہ ایک شخص بیگ ہاتھ ہاتھ میں پکڑے ٹیکسی میں سوار ہو رہا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ یہ میرا بیگ ہے۔ اس نے کہا نہیں یہ تو میرا ہے ۔میں نے کہا کہ دیکھ لو بیگ پر میرا نام لکھا ہے ۔ یہ دیکھ کر اسے بیگ میرے حوالے کر نا پڑا۔ میں نے چاہا کہ اس کے ساتھ ذرا خفگی کا اظہار کروں۔ لیکن وہاں کوئی پولیس والا نہیں تھا اور اس نے مجھے دھمکی بھی دی تھی ” خبردار تاﺅ کھانے کی کوشش مت کرنا نہیں تو مکہ مار کر ناک توڑ دوں گا۔ “ ہم نہیں چاہتے تھے کہ خواہ مخواہ کا ٹنٹا کھڑا ہو، کیونکہ مجھے وہاں ایک دو دن سے زیادہ قیام نہیں کرنا تھا۔ اگر پولیس میں کیس دیا جاتا تو مجھے خاصے دن ٹھہرنا پڑتا۔ اس آدمی کے پاس اپنا کوئی سامان نہیں تھا۔ بعد میں کسی نے مجھے بتایا کہ گاڑیوں کے کچھ نیگرو سپرنٹنڈنٹ بدمعاشوں کے ایک بین الاقوامی گروہ سے ملے ہوئے ہیں۔ یہ بدمعاش گاڑی میں ایک سٹیشن پہلے سے سوار ہو جاتے ہیں اور نیگرو سپرنٹنڈنٹ بیگ اُٹھا کر ان کے سپرد کر دیتے ہیں، جن میں ان کے خیال کے مطابق نہایت بیش قرار چیزیں ہوتی ہیں۔ حالانکہ میں نے اپنا یہ اصول بنا رکھا ہے کہ خفیہ نوعیت کی کوئی بات تحریر میں نہیں لاتا۔ کیونکہ اس طرح کی کوئی اطلاع اگر ہاتھ سے نکل جائے تو اس سے زبردست قومی نقصان ہو سکتا ہے۔ اس بیگ میں صرف ڈائریاں رکھی تھیں جن میں میں نے مختلف مقامات کے تاثرات قلم بند کیے تھے اور کسی طرح کی کوئی اہم بات تحریر نہ تھی ۔ جنگ کے پورے زمانے میں جب بھی کسی اجلاس کے دوران میں مجھے کسی طرح کی اطلاع ملی، میں نے اسے کاغذ پر نہیں لکھا۔ وہ لوگ جو غیر ملکوں میں سفر کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنے ہر تھیلے پر اپنا نام لکھوا لیں اور محض کاغذ کے لیبل پر انحصار نہ کریں۔ لیبل تو کوئی شخص بھی آسانی سے پھاڑ کر پھینک سکتا ہے۔
کینیڈا میں دو ریلوے کمپنیاں اور ان کی گاڑیاں دو متوازن پٹڑیوں پر ایک دوسرے کے مقابلہ میں چلتی ہیں۔ کینیڈا پیسفک ریلوے نے انتخابات میں ووٹوں کی بھاری اکثریت حاصل کی تھی۔ چنانچہ ایک سیاسی گروہ نے اس کے مقابلہ میں ایک متوازن کمپنی نیشنل ریلویز کے نام سے قائم کر لی۔
کینیڈا کے دورے میں میرا عام تاثر یہ تھا کہ وہاں کے لوگ اپنی آخری پائی اور آخری آدمی بھی برطانیہ کے لیے جنگ میں قربان کر دیں گے اور اسے بچا لیں گے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ مسٹر میکنزی کنگ نے اعلان جنگ میں تین دن کی تاخیر کیوں کی جب کہ برطانیہ نے کینیڈا سے مشورہ کرنے اور اس کی رضا مندی لینے کے بعد ہی یہ اعلان کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ مسٹر میکنزی کنگ عمل اور ردِ عمل میں بے حد متحمل مزاج اور سست گام ہیں۔ تاہم اس تاخیر میں ان خوشیو سے قطع نظر کسی اور معقول سبب کو دخل ہو گا۔ برطانیہ سے ترک وطن کرنے والے تمام افراد کا رخ کینیڈا کی طرف موڑ دیا جائے اور انہیں مالی امداد بھی دی جائے تو کینیڈا کے عظیم تر برطانیہ بننے کے امکانات روشن نظر آتے ہیں۔
   1941ءمیں میرا دورہ ملک گیرا ہمت کا تھا۔ اس وقت ہندوستان کی ساری تجارت شمالی اور جنوبی امریکہ کے ساتھ لندن میں ہمارے دفتر کے توسط سے ہوتی تھی۔ میں اس دورہ میں یہ معلوم کرنے نکلا تھا کہ اس تجارت میں مزید توسیع کے کیا امکانات ہیں۔ اس کے ساتھ ہی میں یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ امریکہ والوں کے احساسات جنگ کے بارے میں کیا ہیں اور ان سے کس طرح کے طرزِ عمل کی توقع کی جا سکتی ہے۔ میں نے ان شہروں کا دورہ کیا۔ واشنگٹن ، نیویارک ، شگاگو ، ڈیٹرائٹ، کنساس سٹی ، سینٹ لوئی، ڈینودر، لاس اینجلز ، سٹیل ، سان فرانسسکو ، سان فرانسسکو سے میں شمال میں کینیڈا چلا گیا اور پھر وکٹوریہ سے مشرقی کی جانب اوٹاوہ جا پہنچا ۔ نیو یارک میں میری ملاقات ایک امریکی وکیل سے ہوئی جن کے نام ایک تعارفی خط پروفیسر لاسلکی سے حاصل کر کے لے گیا تھا پروفیسر لاسلکی کا، اس وقت لندن میں لیبر حکومت پر بڑا اثر تھا۔ جواب میں اس شخص نے ایک تعارفی رقعہ لاس اینجلز میں گیری کو پر کے نام لکھ کر میرے حوالے کیا ۔ وکیل کی سوتیلی بیٹی گیری کو پر کے ساتھ بیاہی ہوئی تھی۔ میں یہ برقعہ پاکر بہت خوش ہوا۔ کوپر کے توسط سے میری ملاقات چند دوسرے فلمی اداکاروں سے ہوئی۔
شگاگو اور ڈیٹرائیٹ میں میں نے بہت سے کارخانے دیکھے اور یہ سیر میرے لیے بہت معلومات افزا ثابت ہوئی۔ انہی دنوں شگاگو میں پولینڈ کا ایک جلا وطن جنرل آیا ہوا تھا۔ شگاگو میں پولینڈ کے کوئی پانچ لاکھ افراد رہتے تھے ۔ پولش زبان میں ان کا اپنا اخبار چھپتا تھا اور وہ جنگ کی تائید میں رائے عامہ پر گہرا اثر ڈال سکتے تھے۔ صبح کی گھڑ سواری یہاں بھی میرا معمول تھی۔ ایک دن جھیل کے کنارے شاہراہ پر چلتے ہوئے ایک ناگہانی مصیبت میں پھنس گیا۔ ٹریفک ان دنوں بھی اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ صبح کے وقت موٹروں کی چار پانچ قطاریں پہلو بہ پہلو شہر سے باہر نکلتی تھیں۔ پھر یہ کہ کوئی شخص ساٹھ میل گی گھنٹہ سے کم رفتار پر گاڑی نہیں چلاتا اور جب بہت سی تیز رفتار گاڑیاں ایک دوسرے کے پیچھے فراٹے بھرتی ہوئی گزرتی ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے سمندر کی لہروں کا شور بلند ہو ۔ میں نے اس روز صبح کی سڑک کے اس پہلوپر جدھر سے میں گزر رہا تھا ، لکڑی کے کھمبے کے ساتھ لگا ہوا ٹریفک کا بٹن دبانے کی بہتری کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ بٹن کام نہیں کر رہا تھا ۔ چنانچہ ٹریفک کسی طرح رکنے میں نہ آتی تھی۔ میں انتظار کرتے کرتے تھک گیا تھا کہ آخر ایک موقع ہاتھ آگیا اور میں نے سڑک پر گھوڑا ڈال دیا مگر اسے پار نہ کر سکا۔ میں مخالف سمت میں جدھر سے سواریاں آرہی تھیں ، بہت آہستہ آہستہ چلا جا رہا تھا کہ ایک پولیس مین نے مجھے دیکھ لیا اور یہ دیکھتے ہوئے کہ میں غیر ملکی ہوںکوئی دشواری پیدا نہ کی بلکہ سیٹی بجا کر ٹریفک روک دی۔ ورنہ میرا گھوڑا اور میں دونوں شدید حادثہ کا شکار ہو جاتے۔ (جاری ہے)

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 56 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں