وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر71

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر71
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر71

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گاماں رستم زماں اورامام بخش اس قافلے کے سالار اعلیٰ تھے جو نیروبی روانہ ہو چکا تھا۔
نیروبی پہنچنے پرہائی کمشنر نواب صدیق علی خاں اور پاکستان کی نامور شخصیات نے پہلوانوں کا استقبال کیا اورمقامی پہلوانوں کو دنگل کے شیڈول کا اعلان کرنے کا کہہ دیا گیا۔
پہلی جوڑ مادھو سنگھ اورکلاپہلوان کی جبکہ دوسری اچھا پہلوان اورمہندر سنگھ سے قرار پائی۔ بھارت اورپاکستان کے تارکین وطن بڑے جوش و خروش سے دنگل دیکھنے آئے تھے۔ افریقی عوام بھی کثیر تعداد میں موجود تھی۔ انڈین ہائی کمشنر اور نواب صدیق علی خاں مہمان خصوصی تھے۔ دنگل کا رنگ سجانے کے لیے پہلے مقامی پہلوانوں کو میدان میں بلایا گیا۔ ان کے بعد کلا پہلوان اورمادھوسنگھ کوبلایا گیا۔ کلا پہلوان بغیر ڈھولوں کے تیز تیز سپاٹے لگاتا اکھاڑے میں اترا۔ مادھو سنگھ خم ٹھونکتا مست خرابی سے اکھاڑے کوسلامی دینے کے بعد میدان میں آگیا۔
ابھی دونوں پہلوان ایک دوسرے سے لگنے ہی لگے تھے کہ پاکستانی اورہندوستانی تماشائیوں نے نعرہ زنی شروع کردی۔ دونوں طرف سے اپنے اپنے پہلوانوں کوہلہ شیری دی جارہی تھی۔تماشائیوں کی یہ توتکار اورلاف زنی کھیل کا حصہ ہوتی ہے لیکن یہاں دو دیرینہ دشمنوں کے درمیان کھیل کے میدان میں زندگی کا پہلا مقابلہ ہو رہا تھا۔

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر70  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب بھی پاکستان اورانڈیا کے درمیان کرکٹ اورہاکی کا مقابلہ ہوتا ہے دونوں طرف کی عوام میں ہیجان برپا ہوجاتا ہے اورپھرایک ایسا میدان جہاں دونوں ٹیموں کے تماشائی موجود ہوں توکسی فساد کے پیش نظر وہاں انتظامات سخت کرنے پڑ جاتے ہیں۔یہی صورت حال نیروبی میں ہونے والی کشتیوں کے درمیان پیش آرہی تھی۔ چونکہ ابھی پاکستان اورانڈیا کی خود مختاری کو چند سال ہی ہوئے تھے لہٰذا مسابقت کے خیال سے دونوں طرف کے پہلوان اورتماشائی بڑے مضطرب تھے۔
اس وقت اسٹیڈیم میں کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔ نعروں کے درمیان ہی کلا پہلوان اورمادھو سنگھ پرتول کرایک دوسرے پر جھپٹ پڑے۔ کلا پہلوان حمیدارحمانی والا رستم ہند کا خاص شاگرد تھا۔ اس کا اکھاڑے میں اتارا بڑا شاندار ہوتا تھا۔ لڑنت بڑی جانداراورمتاثر کن ہوتی تھی۔اس مقابلے میں بھی کلا پہلوان نے اپنے ماضی کی یاد گار کشتیوں کوتازہ کردیا۔مادھو سنگھ نے جب آتے ہی کلا پہلوان کی کسیں بھرنے کی کوشش کی توکلا پہلوان نے برق رفتاری سے مادھو سنگھ کے پہلو میں ہتھ کٹی ماری تھی۔ مادھو سنگھ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا۔ اسی ایک لمحہ میں کلا پہلوان نے اسے زوردار پبی ماری۔ مادھو سنگھ دھڑام سے منہ کے بل زمین بوس ہوا۔ تماشائی کلا پہلوان کی تیزی پر نعرے مارنے لگے بلکہ اٹھ کربھنگڑے ڈالنے لگے۔منصف نے اسے مداخلت قراردیا اورکشتی روکنا چاہی۔ اس موقع پر نواب صدیق علی خاں اٹھے اور مائیک پرآکرپاکستانی تماشائیوں کو نظم وضبط کی تلقین کی اورکشتی جاری رکھنے کا اشارہ دیا۔
کشتی جاری رہی۔کلا پہلوان ،مادھوسنگھ کو نیچے دبا کررگید رہا تھا۔ وہ اسے چھاتی کے ساتھ طوفانی ریلے مارتا تومادھوسنگھ بلبلا اٹھتا اور اس کا سرا کھاڑے کی مٹی میں دھنس دھنس جاتا۔ خوب رسوا کرنے کے بعد کلا پہلوان نے مچھلی غوطہ مارا اور مادھوسنگھ کوصاف چت کردیا۔ مسلمان توخوشی سے دیوانے ہو گئے اوربھنگڑے پربھنگڑا ڈالنے لگے۔
کلا پہلوان کی جیت سے مسلمانوں کے حوصلے بڑھ گئے۔ اس کے بعد اچھا پہلوان اور تھمن سنگھ کے لاڈلے مہندر سنگھ کا مقابلہ تھا۔ مہندرسنگھ کے حمائتی اسے اپنے نرغے میں لے کراکھاڑے میں آئے۔ وہ اس وقت فیل بے زنجیر بنا ہوا تھا۔ نشہ چڑھی آنکھوں کے ساتھ وہ مسلمان تماشائیوں کو خونخواری سے دیکھ رہا تھا۔ گویا کہہ رہا ہو۔
’’میں دیکھ لینا واں تہادے اچھے نوں۔‘‘
مسلمان تماشائی اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اچھے کے نعرے لگا رہے تھے۔
اچھے دے نعرے وجن گے۔
تھمن دے کڑچھے نچن گے۔
مہندر سنگھ اکھاڑے میں اترا تواچھا پہلے ہی منتظرکھڑا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کرمہندر سنگھ سے دست پنجہ کرنا چاہا تومہندر نے اپنا ہاتھ نہ بڑھایا۔ اچھے نے پرواہ نہ کی مگر مہندر اسے کینہ توز نظروں سے دیکھ کردانت کچکچانے لگا۔
’’میں تینوں کچا نہ چبا جاواں تے سنگھ دی اولاد نہ سمجھیں۔‘‘
اچھا اس کی نظروں کا مفہوم جان کر دھیرے سے مسکرا دیا اورپھر اسے تول کر حملہ کردیا۔
اچھا پہلوان بڑے اعتماد کے ساتھ مہندرسنگھ پر حملہ آورہوا تھا مگرمہندر بڑا کایاں تھا۔ اس نے اپنے حریف کے حملے کو روکا اور خود اس کی بغل میں گھس گیا۔ اس سے قبل کہ مہندر اپنا کام دکھا جاتا،اچھے نے جواباً پٹھی دے ماری۔ مہندر سنگھ ہوا میں اچھلا اور اکھاڑے کے کنارے کے پاس جاگرا۔ اچھے کی پٹھی بڑی تباہ کن ہوتی تھی۔ حریف اس کو مشکل سے ہی برداشت کرپاتا تھا۔
مہندرسنگھ واقعی اصیل بوٹی تھا۔ اس نے اچھے کی پٹھی کا خیر مقدم کیا اورگرتے ہی اپنے لچکیلے بدن کے ساتھ دوبارہ کھڑا ہوگیا اور پھر تووہ بپھرے سانڈ کی طرح اچھے پر حملہ آورہوگیا۔
اچھا مہندر سنگھ کو اپنے داؤ میں کھیلاتا رہا اور تین بار تو مہندر چت ہوتے ہوتے بچا تھا۔ آخر وقت پروہ ہر داؤتوڑ دیتا، کشتی کو پندرہ منٹ ہو گئے تو اسے برابر چھڑانے کی چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ تھمن سنگھ نے تو منصف کوکہلوا بھی بھیجا کہ کشتی برابر چھڑا دی جائے مگرخلیفہ بلوڈٹ گیا۔
’’ناں بھئی ،ایہہ تے ڈگ ڈیہہ پرہی فیصلہ ہوگا۔‘‘
تھمن سنگھ نے قہر آلود نظروں سے خلیفہ بلو کودیکھا اورکہا۔’’سوہنیا اس طرح توکشتی ختم نہ ہوگی۔‘‘
’’ضرور ہوگی۔‘‘خلیفہ نے وثوق سے کہا۔’’اچھا برابر کی کشتی پسند نہیں کرتا۔ اب سمجھو دوچار منٹ کی بات رہ گئی ہے۔ پھر دیکھنا کشتی فیصلہ کن ہوتی ہے یا نہیں۔‘‘
’’بڑا مان ہے بھئی اچھے پر۔‘‘تھمن سنگھ نے طنز کیا۔ ’’تم کیا سمجھتے ہو جونے (یونس پہلوان)کوگرانے کے بعد اچھا رستم زماں بن گیا ہے۔ ساڈا مہندر شیرہے کوئی ڈھگا نہیں جو گرجائے گا۔‘‘
ادھر یہ دونوں بحث میں الجھے ہوئے تھے اور ادھر اچھے نے مہندر سنگھ کو’’اک ٹنگی‘‘مارکر چت کردیا۔ کشتی20ویں منٹ میں اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔
خلیفہ بلو نے تھمن سنگھ کی طرف دیکھا اورکہا۔’’لے بھئی تھمن سنگھ اب جاکر اپنے شیر کوسنبھال۔۔۔‘‘کہہ کر خلیفہ بلو اکھاڑے میں کودا اور اچھا کا منہ چوم کراسے پنڈال میں بٹھانے لے گیا۔ پاکستانیوں کے شملے اونچے ہوگئے تھے۔ انہوں نے پورے اسٹیڈیم میں ٹولیاں بنا کرپھیلا دیں جوبھنگڑے ڈال رہی تھیں۔
انعامات کا دور چلا تونواب صدیق علی خاں نے بھولوبرادران کوپیٹھ ٹھونک کرکہا۔ ’’آپ لوگوں نے پاکستان کا نام بلند کر دیا ہے۔ ہماری خواہشوں کی لاج رکھ لی ہے۔ مسلمانوں کا مان رکھ لیا ہے۔ آج نیروبی کے ہرمسلمان گھرانے میں آپ کے ترانے گائے جارہے ہیں۔ مبارک ہو آپ شاہ زوروں کو۔۔۔میری دعا ہے خدا آپ کو اسی طرح ملک و قوم کا نام روشن کرنے کی توفیق دے۔‘‘
اس رات بھولو برادران پر انعامات اور دعوتوں کی بارش ہوتی رہی۔ پاکستانی تارکین وطن ان دعوتوں میں ایک دوسرے سے نمبر لے جانے کی تگ ودو میں لگ گئے۔ دوچار دن یہاں آرام کرنے کے بعد بھولو برادران کویوگنڈا سے دعوت ملی جہاں اندر سنگھ نامی ایک سردار صاحب نے مسلمان شاہ زوروں کی پکڑیں دیکھنے کا اہتمام کیا تھا۔ پاکستانی پہلوانوں نے دعوت قبول کی اورعازم یوگنڈا ہوئے۔ اندر سنگھ نے توقع سے بڑھ کر ان کا استقبال کیا اور ان پر نوٹوں کی بارش کردی۔ اس نے جھیل وکٹوریہ کے قریب چھنچا کے مقام پر ایک عظیم الشان دنگل کرایا۔ بھولو برادران چند سکھ اور ہندو پہلوانوں سے نمائشی مقابلے کرہی رہے تھے کہ اچانک ’’قبا کا‘‘ قبیلے کے جوان آدھمکے۔ تمام قوی ہیکل اور خونخوار قسم کے اجڈ شاہ زور تھے۔ قبا کا قبیلہ پورے افریقہ میں شہ زوری کے حوالے سے مشہورہے۔ ان جوانوں نے جب پاکستانی پہلوانوں کوکشتی کرتے دیکھا تو تالیاں پیٹ کران کا مذاق اڑانے لگے۔
’’یہ بڈاوے کہاں سے پکڑ لائے ہو۔بھلا یہ کیا کشتی لڑیں گے۔‘‘
اسی پر موقوف نہیں انہوں نے پہلوانوں پر مٹی کے ڈھیلے پھینکنے شروع کردیئے۔ ان کا سربراہ عدی امین تھا۔ (وہی جو1971ء کو صدرجنرل عدی امین کے نام سے یوگنڈا کا حکمران بنا) وہ قبا کا قبیلے کا ہیوی ویٹ چیمپئن تھا۔
بھولو برادران نڈر اوربے باک تھے۔ انہوں نے جب دیکھا کہ ان وحشیوں کے ہاتھ اورزبانیں کچھ زیادہ ہی چلنے لگی ہیں تو وہ سراپا احتجاج بننے کی بجائے خم ٹھونک کران کے سامنے آگئے۔
ہاں بھئی تہانوں کی تکلیف ہوئی ہے؟‘‘
’’ہم سے بھی کشتی لڑو، پھرمانیں۔‘‘ ان کا سربراہ بولا۔’’سنا ہے تم جادوگر ہو۔مزہ توتب ہے جب ہم پر اپنا جادو چلا کر دکھاؤ۔‘‘
’’کشتی کے کچھ اصول ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ہم تمہاری خواہش پوری کریں گے۔‘‘
’’ہماری کچھ شرائط بھی ہیں۔‘‘ عدی امین بولا۔’’یہ کشتیاں تمہاری نہیں ہماری مرضی کے مطابق ہوں گی۔ دستور ہمارا چلے گا‘‘
’’چلے گا۔۔۔‘‘اچھا پہلوان نے رضا مندی دی۔’’اس کے علاوہ بھی جس کے دستورکہتے ہوماننے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
تماشائیوں نے پاکستانی شاہ زوروں کو ان وحشیوں سے کشتی کرنے سے روکنا چاہا مگروہ اپنا کہا واپس لینے پر تیار نہ تھے۔ تارکین وطن کو خوف تھا کہ پہلوان افریقی دستور کے مطابق کشتی نہ لڑ سکیں گے۔ افریقی دستوربڑا عجیب تھا مگر یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ افریقی کشتی پاکستان کی’’ملاکڑا‘‘کشتی سے ملتی جلتی ہے۔ جس میں دونوں پہلوان سر جوڑ کرایک دوسرے کی کمر قابو کرلیتے ہیں اورطاقت کے زور سے ایک دوسرے کوگرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
قبا کا قبیلہ کے جوان کشتی کی تیاری کرنے لگے تو اندر سنگھ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اس نے اچھا پہلوان کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے اورکہا۔
’’اوئے متروکچھ نے خیال کرو۔یہ وحشی تمہیں مارڈالیں گے۔‘‘
اکی پہلوان نے اندرسنگھ کوتسلی دی اوربڑھک مارکربولا۔’’سردارجی جی گھبراؤ نہیں۔۔۔دیکھا جائے گا۔اللہ کا نام لے کر ان کے سورما کو اکھاڑے میں لے کرآئیں۔‘‘
اکی کی بڑھک نے دوسروں کو مہمیز دی اور سب کے ہاتھوں میں کھجلی ہونے لگی۔ ’’اکی بادشاہ پہلے ہمیں لڑنے دو۔‘‘
’’ناں بھئی۔۔۔پہلا شکار میں کروں گا۔‘‘ اکی نے حتمی اعلان کردیا۔’’پھرتم آگے آنا۔‘‘
اکی پھرسے کندن بن چکا تھا۔ وہ اکھاڑے کے درمیان گیا اور قبا کا والوں کوشہ دی۔’’نکالو اپنا سورما۔‘‘(جاری ہے)

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر72 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں