نوجوانانِ اسلام اور یہودی ایجنسیوں کی سازشیں(قسط1)

نوجوانانِ اسلام اور یہودی ایجنسیوں کی سازشیں(قسط1)
نوجوانانِ اسلام اور یہودی ایجنسیوں کی سازشیں(قسط1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ٹرپل ایکس فلمیں ایک سازش، جس سے مسلمان بے خبرہیں،تو یہ نصیحت آمیز تحقیق و تاریخ پڑھو۔۔۔مفتی اسماعیل طورو پورنو گرافی عصر حاضر کا ایک بہت بڑا ناسور ہے۔ یہ وہ زہر ہے، جس کا کوئی تریاق دریافت نہ ہو سکا،لوگوں کے رویئے اور انداز زندگی اسی کی بدولت جنسی خود غرضی کی بھینٹ چڑھے ۔۔۔!ہم اکثر سوچتے ہیں آخر یہ کھیل شروع کب ہوا۔۔۔؟اس کا تاریخی پس منظر کیا ہے ۔۔۔.؟


اس کے وجود کے بنیادی محرکات کیا تھے ۔۔۔؟
آج تاریخ میں کیسی جدتیں لائی جا رہی ہیں ۔۔۔؟
قارئین ! تاریخ میں سب سے پہلے پورنو گرافی بطور ہتھیار سلطان صلاح الدین ایوبی (1137ء تا 1193ء) کے دورِ حکومت میں ہوئی۔ اسے بطور ہتھیار سب سے پہلے صلیبی بادشاہوں نے استعمال کیا۔ کہانی کچھ یوں ہے صلیبی ہر میدان میں مسلمان نوجوانوں کے ہاتھوں شکستِ فاش سے سخت پریشان تھے۔ اسلامی افواج صلیبی جمعیت اور متحدہ قوتوں پر بھاری ثابت ہو رہی تھیں۔ صلیبیوں کی سوچ کا دھارا اُس وقت بدلا جب ڈیڑھ لاکھ مسلمان فوج نے بحر اوقیانوس کے ساحلوں پر 15لاکھ صلیبی جنگجو ڈھیر کر دیئے۔ اِس موقع پر متحدہ صلیبی فوج کا بادشاہ رونالڈ پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ آخر ایک بڑی میٹنگ کا انعقاد ہوا۔ اِس میٹنگ میں مسلم اور صلیبی افواج کا موازنہ کیا گیا۔ معلوم ہوا مسلمان رات بھر سجدوں میں روتے ہیں اور دن بھر میدانوں کی للکار تے ہیں ان کے اندر ایک دُنیا آباد ہے جسے وہ ایمان کہتے ہیں۔ یہی ایمان اُنہیں دُنیا کے ہر خوف و ڈر اور لذت پرستی سے بہت دور کر کے، انہیں بہترین جنگجو بنائے رکھتا ہے، جبکہ صلیبی فوجی رات بھر زنا کی محفلوں اور دُنیا کی رنگ رلیوں میں مشغول رہتے ہیں۔ لہٰذا دُنیا چھوڑ کر ایک نئے جہاں کا خوف انہیں شکستِ فاش سے دو چار کرتا ہے۔ اس کے علاوہ دوران جنگ مسلمان فوجیوں کی آنکھوں سے جو وحشت ٹپکتی ہے۔ وہ صلیبی قوتوں پر خوف طاری کر دیتی تھی۔ اس کے ساتھ نعرۂ تکبیر کی فلک شگاف صدائیں اور مسلمانوں کا اپنی اپنی جگہ پر فولاد بن جانا بھی صلیبیوں کے لئے ایک مسئلہ بن گیا تھا۔۔۔!


صلیبیوں کی اس تاریخی میٹنگ میں ہرمن نامی انٹیلی جنس آفیسر بھی موجود تھا۔یہ وہ شخص ہے جس نے صلیبی تاریخ میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہچایا۔ یہ نہایت شاطر اور ذہین و فطین شخص تھا۔اس نے مسلمان اور صلیبی نوجوانوں کی نفسیات پر بات کرتے ہوئے واضح کیا۔ میری ساٹھ سالہ زندگی کا تجربہ ہے کہ عیاشی پسند وجود کبھی بھی زندگی کے میدان میں بہترین سپاہی نہیں بن سکتا۔ خصوصاً وہ لوگ جو سیکس کے معاملات میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کی جسمانی و روحانی طاقتیں ختم ہو کر رہ جاتی ہیں اگر مَیں مسلم فوج کی بات کروں تو مسلمان فوج میں ایسے نوجوانوں کی اکثریت ہے جو سیکس کی لذت سے یکسر نا آشنا ہیں۔ان میں سے جو شادی شدہ بھی ہیں وہ بھی اِس چیز کو ایک حد تک آزما پاتے ہیں۔ تصور کی رعنائیاں اور خوبصور ت نظارے ہمیشہ ان کی پہنچ سے دور رہے ہیں۔ انہیں مذہب سے آگے اور پیچھے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ لہٰذا ہم اگر ان میں جنسی بھوک پیدا کر دیں تو ان کی سوچ اور نظریات کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔ اس مشن کی کامیابی کی ایک مثال وہ مسلمان بادشاہ اور وزراء بھی ہیں جو شروع میں سطان صلاح الدین ایوبی کے ساتھ تھے ،لیکن ہماری خوبصور ت لڑکیوں نے جب سے انہیں اپنی حسین اداؤں کا اسیر کیا ہے تب سے وہ خدا اور رسول کو جانتے ہی نہیں ہیں، انہیں سلطان ایوبی اپنا سب سے بڑا دشمن نظر آتا ہے۔ ان مسلمان وظیفہ خوروں میں سے وہ جرنیل بھی شامل ہیں، جن کی حکمت عملیاں اور بہادری کے واقعات میدانوں کے نقشے بدل ڈالا کرتی تھیں۔ آج وہ صلیبیوں سے نگاہیں جھکا کر بات کرتے ہیں، کیونکہ ہم ان کے اندر عورت اور جنسیات کی روح داخل کرچکے ہیں۔ اگر یہی حربہ پوری مسلمان فوج پر آزمایا جائے تو یقیناہم کامیاب ہوں گے، کیونکہ مسلمان نوجوان کے لئے یہ ایک بالکل نئی چیز ہوگی اور وہ اس کے لئے جنونی ہوسکتے ہیں ۔۔۔!
ہرمن کے اس خیال پر رونالڈ نے کہا :’’ہم متعدد بار نہایت خوبصورت لڑکیاں مسلمان فوج میں داخل کر چکے ہیں۔ اس کام میں ہمیں شدید تخریب کاری بھی کرنا پڑی تھی، لیکن مسلمان فوج ان حسین لڑکیوں کی طرف دیکھنے کا تکلف ہی نہیں کرتی ۔اور متعدد لڑکیاں مسلمان فوج کا کردار دیکھ صلیبی حمایت چھوڑ چکی ہیں،لہٰذا تمہارا یہ منصوبہ ناکام ہے ۔۔۔! ‘‘
ہرمن نے فوری جواز پیش کرتے ہوئے کہا تھا: ’’حضور جب تک آپ کے اندر کسی چیز کا تصور موجود نہ ہو اس کا ہونا نہ ہونا بے معنی ہوتا ہے۔ ہمیں مسلم فوج میں جنسی دُنیا کا تصور پیدا کرنا ہے۔ایسا تصور جو اُن کی سوچ کی راہداریوں میں برہنہ عورتوں کو حسین اداؤں کے ساتھ گردش کرتا دکھائے۔ اس کے بعد وہ خود کو ہماری ثقافت کے حوالے کر دیں گے، کیونکہ یہ ہماری ایجاد ہوگی، یہی واحد طریقہ ہے، جس سے ہم مسلمانوں کو شکست دے سکتے ہیں۔۔۔!‘‘


رونالڈ ہرمن کی اس بات پر بہت زیادہ سنجیدہ ہوگیا اور سرگوشی بھرے لہجے میں بولا :
’’ آخر تم کہنا کیا چاہتے ہو۔۔۔!‘‘
ہرمن نے نہایت شاطرانہ انداز میں تاریخ کا سب سے بھیانک منصوبہ رونالڈ کے سامنے پیش کر دیا۔ دُنیا کے سامنے یہ منصوبہ آرٹ پورنو گرافی کے نام سے سامنے آیا۔ اس منصوبے کے ایک سال بعد سلطان صلاح الدین ایوبی کو اطلاع ملی کہ فوج کے کچھ نوجوان رات کو غائب پائے جاتے ہیں۔ نوجوانوں میں اکثر جنسی گفتگو بھی سنی گئی ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس چیز کو اتنا سنجیدگی سے لیا کہ خود بھیس بدل کر ان نوجوانوں کا پیچھا کیا۔ یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ سلطان ایوبی بذات خود بھیس اور آواز بدلنے کے ماہر تھے۔ تاریخ میں متعدد بار ان کی ایک دوسری شخصیت کے روپ میں دشمن کے ساتھ ملاقات کی روایات موجود ہیں۔ یہاں تک کہ ایک جنگ میں شکست کے بعد صلیبی اعلیٰ افسران کو سلطان کے سامنے پیش کیا گیا۔ سلطان نے ایک افسر سے پوچھا :
’’رات جس شخص سے تم نے کہا تھا، مَیں ایوبی کو اس کی سانس کی مہک سے پہچان سکتا ہوں بتاؤ وہ کون تھا ۔۔۔!‘‘
وہ صلیبی افسر بولا :
’’حضور وہ ایک عربی تاجر تھا، جس کی غلط بیانی نے ہمیں آپ کے سامنے لا کھڑا کیا۔۔۔!‘‘
سلطان ایوبی نے مسکراتے ہوئے کہا :
’’ وہ میں خود تھا ۔۔۔!‘‘
وہ حیرت زدہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو تکتا رہ گیا۔۔۔!
دوستو! فوج کے کچھ نوجوانوں کی پرسرار حرکتوں پر سلطان ایوبی خود ان کے پیچھے گئے تو معلوم ہوا فوجی قیام گاہ سے کچھ فاصلے پر ایک قافلہ رکا ہے، جو بظاہر مسلمان ہیں، لیکن ان کے پاس فحش تصاویر کے کچھ نمونے موجود ہیں۔ جب سلطان نے وہ تصاویر دیکھیں تو دنگ رہ گئے۔ ان میں ایسی منظر کشی کی گئی تھی کہ کوئی بھی نوجوان سیکس کے لئے جنونی ہو سکتا تھا۔اسی دوران سلطان صلاح الدین ایوبی کو دمشق اور مصر کے دیگر شہروں سے اطلاعات ملیں کہ شہر میں فحش تصاویر کے قبہ خانے کھل گئے ہیں، جہاں جنسی اشتعال انگیز تصاویر دکھائی جاتی ہیں۔ نوجوانوں کو جنسیات کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے۔ ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ مسلمان نوجوان بڑی تیزی سے برائی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔۔۔!(جاری ہے)


سلطان صلاح الدین ایوبی نے فوراً اپنی جنگی پیش قدمی روکی اور پورنو گرافی کے اس ناسور کے خلاف محاظ کھولا۔ اس حوالے سے سطان صلاح الدین ایوبی نے ایک تاریخی تقریر میں کہا تھا :
’’ ہر قوم کی طاقت اس کا اچھا یا برا کردار ہوا کرتا ہے، دشمن ہماری اصل طاقت کا اندازہ لگا چکا ہے۔ اب وہ سامنے کی جنگ کبھی نہیں کرے گا۔ اسی لئے دشمن اب ہمارے قومی کردار پر حملہ آور ہوا ہے، کیونکہ ضروری نہیں جنگ میدانوں میں ہو۔ جنگ سوچ اور رویوں کی بھی ہوتی ہے۔ جو قوم اس پر غالب آجاتی ہے وہ فتح یاب ہوتی ہے۔۔۔!
میرے معزز قارئین ۔۔۔!
صلیبی انٹیلی جنس آفیسر ہرمن ایک نہایت ذہین اور شاطر انسان تھا۔اگر آپ پوری صلیبی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو یہ شخص پوری تاریخ میں چھایا ہوا نظر آئے گا۔ صلیبی جب ہمت ہار چکے تھے تو اس شخص نے ان میں جان ڈال دی۔ اسی کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے دُنیا کے مشہور مصور اور منظر نگار وں کو منہ مانگی قیمت پر خریدا گیا۔ ان سے ایسی فحش تصویر کشی کروائی گئی کہ دیکھ کر نظریں ہٹانا مشکل ہوجاتا تھا۔ وہ سیکس جس پر لوگ ایک حد تک توجہ دیتے تھے پھر اسے بے حد سوچنے لگے۔ صلیبی بادشاہوں نے جب اپنے اس منصوبے کو سو فیصد کامیاب ہوتے دیکھا تو اپنی کتابوں میں اس کا تذکرہ بڑی شان سے کیا۔۔۔!


اگرچہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس زہر کو مارنے کی پوری کوشش کی، لیکن اس مسئلے کا پوری طرح ادراک نہ ہوسکا، کیونکہ اس زہر کے اثر کو دیکھتے ہوئے حسن بن صباح کے فرقے نے اسے بطور ہتھیار اپنایا۔ صلیبیوں سے اس آرٹ گرافی کی نئی جدتوں پر مانگ کی۔ یوں حسن بن صباح کی پہاڑوں میں بنائی ہوئی پرسرار جنت میں ایک اور ہتھیار کا اضافہ ہوا اور اسی دوران سلطان بیت المقدس کی فتح کے بعد چل بسے۔ صلیبی اپنا دم خم کھو چکے تھے لیکن ان کا تیار کردہ زہر پورنو گرافی مسلسل فحاشی کے جراثیم پھیلاتا رہا۔ یوں صدیاں بیت گئیں۔ زمانے کے رنگ ڈھنگ بدل گئے اور کئی ثقافتیں آئیں اور مٹ گئیں ۔۔۔!


آخر اٹھارویں صدی کا سورج طلوع ہوا۔ یہ وہ صدی ہے جب سائنس کے علم میں انقلاب کی فضا پیدا ہونا شروع ہوئی تھی۔ نئی جدتیں اور نئی منزلیں روشن ہو رہی تھیں۔ اٹھارویں صدی کے شروع میں پورنو گرافی پر ایک بار پھر نئے انداز میں کام شروع ہوا۔ اس بار پورنو گرافی کے لئے لکڑی کا استعمال ہوا۔ اس کے علاوہ درختوں کو بھی کانٹ چھانٹ کر جنسی عضو کی طرح بنا دیا گیا، فرانس میں ہوئے اس تماشے پر لوگوں کا ہجوم لگ گیا۔ لوگ بے پناہ دلچسپی سے لکڑی کے بنے جنسی سامان اور درختوں پر ہوئی زیادتی جوق در جوق دیکھنے آرہے تھے۔اس وڈ پورنوگرافی پر لوگوں میں جنسی آزاد خیالی پیدا ہوئی۔ لہٰذا لوگوں کی دلچسپی دیکھتے ہوئے امریکہ، فرانس اور لندن میں وڈ پورنو گرافی کے چھوٹے چھوٹے پورن ہاؤس کھل گئے، جو ایک چھوٹا سا جنگل ہوتا تھا، جس میں پورنو گرافی کے فن پارے درختوں پر عیاں ہوتے تھے ۔۔۔!
دوستو۔۔۔! 1839ء میں کیمرہ ایجاد ہوا۔۔۔!
اس ایجاد نے جہاں سائنس کی دنیا میں ایک بہت بڑا جادو کیا، وہیں یہ بہت جلد پورنو گرافی کا اہم ہتھیار بن گیا ۔۔۔ 1855ء میں پہلی باراسے اس مقصد کے لئے استعمال کیا گیا، لیکن اس میں مسئلہ یہ تھا کہ کیمرہ تصویر کی صرف ایک کاپی بناتا تھا۔ اس تصویر کو بہت زیادہ شیئر نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اسی لئے پورنو گرافی کا جن مشکل کا شکار ہوگیا ۔۔۔لیکن یہ مسئلہ اُس وقت مسئلہ نہ رہا جب 1863ء میں پرنٹر ایجاد ہوا۔ اس ایجاد کے ساتھ ہی سیکس تصاویر سے بھرپور پلے کارڈز اور جنسی خاکے لوگوں کے ہاتھ میں آچکے تھے ۔۔۔


1871ء میں جنسی تصاویر بلیک اینڈ وائٹ رزلٹ میں پوری شدت کے ساتھ مارکیٹ آچکی تھیں۔ ان مارکیٹوں میں فرانس کی مارکیٹ سب سے آگے رہی ۔۔۔
دوستو! 1876ء ویڈیو کیمرہ ٹیکنالوجی منظر عام پر آئی۔ اس ٹیکنالوجی میں ویڈیو کیمرہ ایک منٹ میں ساٹھ تصاویر کو کیپچر کرتا تھا۔ پھر ان تصاویر کو چرخا نما مشین پر ایک بڑے رول بنڈل کی صورت چڑھایا جاتا۔ پھر اس چرخے کو ہاتھ سے چلایا جاتا۔ اس سے تصویر اس تیزی سے گھومتی تھی مانو۔۔۔! ایسے لگتا جیسے ویڈیو پلے ہو رہی ہو۔ اس طریقہ عمل کو آگے چل کر ٹی وی ٹیکنالوجی میں استعمال کیا گیا۔ آج جو ہم حرکت کرتی اور زندہ محسوس ہوتی HD ویڈیوز دیکھتے ہیں دراصل یہ ہزاروں تصاویر کا مجموعہ ہوتی ہیں،جو اس تیزی اور صفائی سے پلے ہوتی ہیں کہ ہمیں تصویر حرکت کرتی نظر آتی ہے ۔۔۔!
دوستو۔۔۔! ویڈیو ٹیکنالوجی کے وجود میں آتے ہی یورپی ممالک میں فلم ساز انڈسٹری کا ابتدائی ڈھانچہ بننا شروع ہوا۔ اس کے ساتھ ہی تاریخ میں پہلی بار باقاعدہ پورن انڈسٹری کا آغاز ہوا پہلی پورن فلم 1895ء میں ریلیز ہوئی۔ اسے لومئیر برادرز انڈسٹری نے پہلی بار عوامی نمائش کے لئے فرانس میں پیش کیا۔اس کے ڈائریکٹر مسٹر البرٹ کرچنر تھے۔ پہلی پورن فلم 16منٹ کی تھی، جس میں ایک عورت کو برہنہ انداز میں ہوش ربا ادائیں دکھاتے ہوئے پیش کیا گیا۔ یہ فلم نہایت منافع بخش ریکارڈ کے ساتھ مقبول ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی سیکس کی خواہش ضرورت سے بڑھ کر جنون میں بدل گئی۔یورپ کے گلی کوچوں میں لوگ بے ہودہ مذاق اور چھیڑ خوانی کرنے لگے۔ پھر یہی چیز آگے چل کر یورپی ثقافت کا حصہ بن گئی۔۔۔!

(دوسری قسط)
انیسویں صدی کے آغاز میں کیمرہ ٹیکنالوجی میں مزید بہتری آئی۔ مناظر پہلے سے زیادہ صاف اور معیاری ریکارڈ ہونے لگے۔ اس کے ساتھ ہی فرانس اور دیگر یورپی ممالک نے سرکاری سطح پر پورن تھیٹر کھول دیئے، جہاں پورن اداکاروں کی پیداوار کا سلسلہ شروع ہوا۔۔۔!1920ء تک یورپی تہذیب پورنو گرافی کے اس زہر میں ڈوب چکی تھی۔ عوام سر عام سڑکوں کو بیڈ روم بنائے اپنا شوق پورا کرنے لگے۔ ساحل سمندر عیاشی کے اڈے بن گئے۔میاں بیوی ایک دوسرے کی ذمہ داریوں سے بھاگنے لگے ۔۔۔!1970ء میں پورنو گرافی کا زہر برصغیر میں داخل کرنے کی کوشش کی گئی۔ پہلے پہل یہ صرف تصاویر پر مشتمل تھا۔ اسے ویڈیو دکھانے کے لئے یورپی کمپنیز نے پاکستان و بھارت میں پورن سینما کی اجازت چاہی۔ اس کے جواب میں صرف انکار ہی نہیں کیا گیا،بلکہ پورنو گرافی کو باقاعدہ ایک جرم قرار دیا گیا۔۔۔!


دوسری طرف یورپی ممالک میں سیکس ویڈیوز کی ڈیمانڈ کم ہونا شروع ہو گئی، کیونکہ ایک ہی سین ہر فلم میں دیکھ کر عوام بور ہونے لگے تھے۔ دوسرا بذات خود ان کا معاشرہ اتنا آزاد ہوچکا تھا کہ ویڈیو دیکھنے کی ضرورت روز بروز کم ہونے لگی۔اس صورتِ حال سے پریشان ہوکر پورن انڈسٹری نے پورنو گرافی کے نئے انداز پر کام کرنے کے بارے میں سوچا۔ یوں پورن کیٹیگری پراجیکٹ کا آغاز ہوا۔ اس میں سیکس کو کئی اقسام میں تقسیم کر دیا گیا۔ ہر قسم کا اپنا ایک منفرد انداز ہوتا تھا۔۔۔!


اگر آج ہم کسی پورن ویب سائٹ کو اوپن کریں تو ہمارے سامنے ایک لسٹ اوپن ہو جاتی ہے، جس میں سیکس کی مختلف کیٹگریز نظر آتی ہیں۔ جب کیٹیگری پراجیکٹ یورپی عوام کے سامنے لایا گیا تو دیکھنے والوں کا اژدھام لگ گیا،کیونکہ اس دفعہ فحاشی کے مناظر روایتی طریقوں سے ہٹ کر ریکارڈ کئے گئے تھے، یہ پراجیکٹ پورن انڈسٹری کے لئے آب حیات کی صورت اختیار کر گیا، کیونکہ اسی کی بدولت ہر شخص کی جنسی نفسیات ابھر کر سامنے آئیں۔ مثلا ایک شخص دھواں دار جنسی مناظر کے بجائے ریلیکس پورن دیکھنا پسند کرتا ہے، تو اس کے لئے الگ کیٹیگر ی موجود ہوگی۔اور یقیناًًپانچ سال بعد بھی وہ ریلیکس پورن دیکھنا ہی پسند کرے گا۔ یوں ہر شخص کی جنسی خواہش کے مطابق اسے پورن گرافی کا نشہ ملنے لگا۔۔۔!
1980ء میں وی سی آر ٹیکنالوجی برصغیر میں عام ہوئی۔ اگرچہ ستر کی دہائی میں کمپیوٹر بھی پاکستان میں اکا دکا جلوہ گر ہوچکے تھے، لیکن عام لوگ اس سے نا آشنا تھے۔ لہٰذا لوگ پردہ سکرین سے ہٹ کر وی سی آر کی طرف متوجہ ہوئے۔ اسی دوران پاکستان فلم انڈسٹری بھی پوری شان سے ابھر کر سامنے آئی۔ یورپی کمپنیز نے جب ایشیائی لوگوں کا وی سی آر کی طرف رجحان دیکھا تو ان کی آنکھوں میں لالچ کی چمک پیدا ہوئی۔ یوں فحش فلمیں پاکستان، بھارت اور دیگر ایشیائی ممالک میں بلیک ہو کر بکنے لگیں۔۔۔!


1998ء میںیورپی پورن انڈسٹری نامعلوم ہاتھوں میں چلی گئی۔پہلے یہ صرف جنسی کاروبار کے طور پر استعمال ہوتی تھی، لیکن پھر اسے پوری دنیا کو جنسی دہشت گردی کے لئے چنا گیا۔ پورن انڈسٹری میں ایک ایسا جنسی طریقہ متعارف کروایا گیا، جو براہِ راست کینسر ، گلوریا اور دیگر تباہ کن بیماریوں کا موجب ہے۔ اس طریقہ کار کو اورل سیکس کہتے ہیں۔ آپ نے ایک چیز اکثر نوٹ کی ہو گی۔ پورن فلم کی چاہے کوئی بھی کیٹیگری ویڈیو دیکھ لیں۔ فلم کے سٹارٹ میں اورل سیکس کا مظاہرہ ضرور کیا جاتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے یہ بھی ایک باقاعدہ جنسی عمل کا حصہ ہے۔۔۔!
سائنسی میڈیکل رپورٹ کے مطابق ہمارے جسم میں ایک مادہ منی کے ساتھ خارج ہوتا ہے، جو ڈی این اے میں اکثر خرابی کا باعث بنتا ہے۔ اگر وہ منہ کے ذریعے معدے میں چلا جائے یا دانتوں میں اس کی کوئی باقیات رہ جائیں۔ تو وہ منہ کے خلیات میں p16 پروٹین نامی مادہ پیدا کر دیتا ہے، جو منہ کے کینسر اور بلڈ پرابلمز کو جنم دیتا ہے اور یہ وہ بیماریاں ہیں جن کا علاج یہودی لیبارٹریوں کے علاوہ کہیں نہیں ملتا۔ ان بیماریوں کی تمام دوائیاں اسرائیلی کمپنیز نہایت مہنگے داموں فروخت کرتی ہیں۔ ان بیماریوں سے متاثرہ مریضوں کے چہرے بدل جاتے ہیں اور موت سسک سسک کر آتی ہے، لہٰذا اورل سیکس کے شوقین اپنا شوق پورا کرنے سے پہلے چشم تصور میں انجام بھی سوچ لیں۔۔۔!


اورل سیکس دراصل خفیہ یہودی ایجنسیوں کا ذریعہ آمدنی ہے۔ اسی کے ذریعے لوگ ان کا شکار بنتے ہیں اور لاکھوں ڈالر لٹاتے ہیں۔ اورل سیکس کے ساتھ سکیٹ ایٹنگ اور پس ڈرنکنگ سیکس کی ویڈیوز بھی منظر عام پر آرہی ہیں، جویہودی ایجنسیوں کی سازش کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ان پورن ویڈیوز میں کام کرنے والے اداکاروں کو شوٹنگ کے فوری بعد،ان کے منہ میں مخصوص سپرے کیے جاتے ہیں جو منہ میں گری غلاظت کے تمام جراثیم ختم کر دیتے ہیں۔ ہمارے عام علماء کا خیال ہے کہ پورن ویڈیوز صرف مسلمانوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال ہوتی ہیں۔ حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ یہودی ایجنسیوں کا ٹارگٹ پوری دُنیا کے مذاہب ہیں، کیونکہ تمام مذاہب ان کے انتہا پسند نظریات کو ہر صورت رد کرتے ہیں۔۔۔!


یہودی نہایت مہارت سے شاطرانہ چال چلتے ہوئے ایک ایسے منصوبے پر کام کر رہے ہیں، جسے ون ورلڈ آرڈر کہتے ہیں، یعنی ایک ایسی دنیا جہاں کسی خدا کا تصور نہ ہو، جہاں کوئی تہذیب نہ ہو، جہاں کوئی قانون نہ ہو۔ بس ایک ہی اصول ہو اور وہ ہے یہودی غلامی، اس مشن کی تفصیلات بہت چشم کشا ہیں ۔۔۔!
بس اتنا کہوں گا کہ پوری دُنیا پر یہودی راج کے لئے ہر وہ ہتھکنڈہ آزمایا جا رہا ہے جو آج کی تاریخ میں ممکن ہے۔ لوگوں کو ہر طرف سے جنسی، نفسیاتی، سیاسی، سماجی اور مذہبی غرض ہر طرف سے پھنسایا جا رہا ہے اور ہم لوگ بے خبری میں پھنس رہے ہیں۔ یہودی ایجنسیوں کے خفیہ ہتھکنڈوں پر حقیقت کا چاقو چلانے کے لئے یوٹیوب پر الماس یعقوب نام سے ایک چینل موجود ہے۔ اس کا مطالعہ ضرور کیجئے اور اسے سبس کرائب کیجئے۔ اس کے ساتھ اس بھائی کا شکریہ بھی ادا کیجئے۔ جو نہایت محنت سے یہودی ہتھکنڈوں سے پردہ اٹھا رہے ہیں ۔۔۔!


دوستو۔۔۔!بیسویں صدی کا سورج طلوع ہوا۔ ایشیا میں ابھی دھندلے معیار کی ویڈیو ٹیکنالوجی کا دور ختم نہیں ہوا تھا،جبکہ یورپی ممالک میں HD ٹیکنالوجی منظر عام پر آچکی تھی۔ ہالی وڈ فلم انڈسٹری بے مثال فلمیں پروڈیوس کر رہی تھی۔ اس کے علاوہ یورپی ممالک انٹرنیٹ کی ٹیکنالوجی سے بھی بھر پور فائدہ اٹھا رہے تھے،جبکہ پاکستان میں پہلی بار انٹرنیٹ سروس 1992ء میں آئی۔ اسے ایک یورپی کمپنی برین نیٹ نے پاکستان میں پرائیویٹ طور پر لانچ کیا تھا۔ اس کے پہلے انجینئر منیر احمد خان تھے، جنہوں نے پاکستان میں انٹرنیٹ سرور کو کنٹرول کیا۔ اس کی ابتدائی سپیڈ 128k تھی۔۔۔!


1995ء میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن لمیٹڈ یعنی پی ٹی سی ایل نے انٹرنیٹ آل پاکستان کے لئے خرید لیا، 2000ء میں انٹرنیٹ پاکستانی عوام میں مقبول ہونا شروع ہوا۔ اس کے ساتھ ہی پورن گرافی کا زہر بھی سرحدیں پھلانگتا ہو ا داخل ہوا۔ یورپی ممالک میں پہلے پہل پورن گرافی سینما میں دکھا کر جنسی تصویروں کے ذریعے پیسہ کمایا جاتا تھا، لیکن انٹر نیٹ نے یہ جھنجھٹ ختم کردیا۔ انٹر نیٹ نے باقاعدہ خود آن لائن مارکیٹنگ پروسیس کھول کر پورنو گرافی کو بطور پراڈکٹ پیش کیا۔ جسے عوامی سطح پر اتنی پذیرائی ملی کہ سب ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ یورپی پورن انڈسٹریز کو سب سے زیادہ آن لائن ٹریفک ایشیا سے ملی ۔۔۔!


2015ء کی گوگل رپورٹ کے مطابق روزانہ 90لاکھ پاکستانی پورن ویب سائٹس کا وزٹ کرتے ہیں، جبکہ بھارت سے روزانہ چھ کروڑ لوگ فحش ویب سائٹس کا وزٹ کرتے ہیں، جس سے پورن انڈسٹری روزانہ کروڑوں ڈالر کا منافع کماتی ہے۔ یہ وہ تعداد ہے جو ویب سائٹس بلاک ہونے کے باوجود کسی نہ کسی طرح مطلوبہ سائٹس تک پہنچ ہی جاتی ہے، جبکہ گوگل پر پورن تصاویر دیکھنے والوں کی تعداد پاک و بھارت میں کروڑوں میں ہے۔۔۔!


دوستو ۔۔۔!کہتے ہیں ہر چیز کی ایک انتہا ہوتی ہے۔ لہٰذا دو صدیوں سے پورن گرافی دیکھنے والے عوام اُکتا گئے، کیونکہ نو فلم میں کام کرنے والے اداکار اور اداکارائیں نہایت خوبصورت ہوتی ہیں۔ اور ان کی جنسی پاور بھی زبردست ہوتی ہے، لیکن جب لوگ اس فعل کو حقیقت بنانے کی کوشش کرتے ہیں، تو زیادہ تر انہیں اپنے پرانے ساتھی پر گزارا کرنا پڑتا ہے، جو عرصہ پہلے اپنی جنسی کشش کھو چکا ہوتا ہے۔ نفسیات کے اس دھارے نے پورن انڈسٹری مالکان کو ایک بار پھر سوچ کے کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ یوں 2014ء میں ایک منفرد ٹیکنالوجی وجود میں آئی۔ اس ٹیکنالوجی کو سلیکون سیکس گرل کہتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی میں سلیکون دھات سے ایک نہایت خوبصورت لڑکی کا وجود تراشا جاتا ہے۔ پھر اسے اس قدر حقیقی بنایا جاتا ہے کہ اصل وجود اور اس مجسمے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ایسے لگتا ہے جیسے یہ ابھی بول پڑے گی۔ اس کا جسم اتنا نرم و نازک بنایا جاتا ہے کہ زندہ وجود کی نزاکت کو رد کرتا ہے۔ ان کی خوبصورتی، جسم کی نرمی اور بناوٹ کا انداز ایسا ہے کہ بس جان ڈالنے کی کمی رہ گئی ہے۔ انہیں دیکھ کر آنکھیں بار، بار دھوکہ کھاتی ہیں۔ ان سلیکون گرلز کو جنسی خواہش کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے مخصوص اعضا میں ایسے مصالحے استعمال کئے گئے ہیں کہ فحاشی کا سکون تین گنا بڑھ جاتا ہے۔اسی طرح خواتین کے لئے سلیکون بوائز کے نہایت خوبصورت مجسمے بنائے گئے۔ ان مجسموں کی ایک اہم خاصیت یہ بھی ہے کہ آپ ان کی جسمانی لچک کو کسی بھی زاویئے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں ۔۔۔!لیکن یاد رکھئے ۔۔۔! ان سلیکون جنسی مجسموں میں کچھ ایسے راز بھی چپکے ہیں جو آپ کو دائمی جنسی مریض بنا سکتے ہیں، کیونکہ تمام سیکس میڈیسن بھی انہیں مجسموں کے خالق بنا رہے ہیں۔ ایک طرح سے یہ لوگ بیماری لگانے کے بھی پیسے لیتے ہیں۔علاج کے نام پر مستقل گاہک بنا کربھی لوٹتے ہیں۔۔۔!
2015ء میں سلیکون مجسموں کو یورپی مارکیٹ میں لانچ کیا گیا۔ جیسے ہی یہ مجسمے مارکیٹ میں آئے تو خریداروں کے ہجوم لگ گئے۔ ان مجسموں کی بدولت مرد و عورت کا باہمی جنسی تعلق بھی کمزور ہو گیا، جس سے شرح پیدائش میں واضح کمی واقع ہوئی۔ اسی کے ساتھ ورچول رئیلٹی ڈیوائس نے رہی سہی کسر پوری کردی۔۔۔!


یورپی ممالک میں شرح پیدائش تو اٹھارویں صدی سے ہی کمزور پڑ گئی تھی، لیکن 2010ء کے بعد یہ کمی شدید تر ہوگئی۔ البتہ مسلم کمیونٹی میں شرح پیدائش برقرار رہی۔ اسی صورتِ حال سے گھبرا کر بعض ممالک میں چلڈرن ہاؤس قائم کردئیے گئے ہیں، جہاں عورت و مرد کو بھاری رقم دے کر بچہ پیدا کیا جاتا ہے۔ بچے کی تمام افزائش چلڈرن ہاؤس کے ذمہ ہوتی ہے۔ ہالینڈ میں بچہ پیدا کرنے والی عورت کو دس ہزار ڈالر دیئے جاتے ہیں،جب عورتوں نے انکار کیا تو رقم ان کی مرضی پر متعین کی گئی۔۔۔!
آج اگرچہ مسلمان بھی اس کا شکار ہیں، لیکن پھر بھی ہم اپنے مذہب ،ثقافت اور نسل کو لئے برابر چل رہے ہیں، جبکہ مغربی معاشرہ اس قدر ٹوٹ چکا ہے کہ آرٹیفشل بچے پیدا کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔۔۔!


2013ء میں امریکی پارلیمنٹ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا تھا کہ 2050ء تک اسلام کی افرادی قوت پورے یورپ پر حاوی ہو جائے گی، لہٰذا اسلام کو ہر طرف سے گھیر کر محدود کیا جائے۔ لوگوں کے دِلوں میں اسلام کے لئے نفرت پیدا کر کے انہیں اپنے آزاد معاشرے کا حصہ بنا یا جائے ۔۔۔!
یہی وجہ ہے آج پوری دنیا میں اسلامی شدت پسندی دکھائی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ملحد اسلام کو نوچ رہے ہیں۔ سیاست میں بڑے بڑے لبرل داخل کئے جا رہے ہیں۔ مقبوضہ علاقوں مسلمانوں کا قتل عام کروایا جارہا ہے، کیونکہ دشمن جان چکا ہے کہ اس کا ہتھیار خود اسکی قوم کو ختم کرچکا ہے، لیکن جاتے جاتے مسلمانوں پر آخری وار ضرور کرتے جاؤ۔۔۔!

مزید :

رائے -کالم -