ڈپٹی کمشنروں کو تحفظ کون دے گا؟

   ڈپٹی کمشنروں کو تحفظ کون دے گا؟
   ڈپٹی کمشنروں کو تحفظ کون دے گا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہم ملتان والے ڈپٹی کمشنر کی طاقت اور اختیارات کے اس لئے قائل ہیں کہ شہباز شریف کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں نسیم صادق نام کے ایک ڈپٹی کمشنر ملتان تعینات ہوئے تھے۔ انہوں نے صرف چند ماہ،جی ہاں صرف چند ماہ میں ملتان کا حلیہ بدل دیا تھا،تجاوزات کی زد میں آیا ہوا ملتان،گندگی اور غلاظت کی ڈھیریوں پر کھڑے ہوئے شہر کے درو بام،کرپشن اور ظلم میں ڈوبا ہوا نظام،اُن کی بدولت ایسے بدل کر رہ گیا تھا،جسے کوئی بٹن دبا کر اندھیرے کی روشنی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ انہوں نے کسی ایم این اے کی سنی اور نہ ایم پی اے کی۔کسی سیاسی وڈیرے کو خاطر میں لائے اور نہ کسی اعلیٰ افسر کو جو شہر کے لئے بہتر تھا،کرتے چلے گئے۔ آج ملتان کے  گھنٹہ گھر اور مزار شاہ رکن ِ عالم کی طرف جانے والے مناظر جس خوبصورتی کے حامل ہیں،وہ نسیم صادق ہی کے دور کی یادگار ہیں۔عوام حیران تھے کہ ایک ڈپٹی کمشنر ایسا کیسے کر سکتا ہے۔بعدازاں یہ عقدہ کھلا کہ وہ شہباز شریف کے پسندیدہ افسر ہیں اور ان سے یہ اجازت لے کر آئے تھے،انہیں شہر کی بہتری کے لئے کھل کر کام کرنے کا موقع دیا جائے گا اور شہر میں تجاوزات مافیا نیز کرپٹ اہلکاروں کی سرپرستی کرنے والے ارکانِ اسمبلی کی شکایات پر توجہ نہیں دی جائے گی۔نسیم صادق بہت اچھا کام کر رہے تھے کہ انتخابات کا وقت آ گیا، نگران حکومتیں بنیں تو انہیں بھی پالیسی کے تحت تبدیل کر دیا گیا۔ اہل ِ ملتان نے بہت شور مچایا، بہت واویلا کیا کہ انہیں کام کرنے دیا جائے،مگر اُن کی نہ سنی گئی۔ آج یہ حال ہے آپ شہر کی حالت دیکھ کر کسی سے پوچھیں اس کا کیا خیال ہے تو وہ یہی کہے گا ملتان کو نسیم صادق جسے ڈپٹی کمشنر کی ضرورت ہے، برسوں بیت گئے، ملتان کو ڈپٹی کمشنر نہیں ملا جو شہر اور ساکنانِ شہر کی زندگی میں آسانیاں لا سکے۔مجھے یہ سب اِس لئے یاد آیا کہ وزیراعلیٰ مریم نواز نے ایک اجلاس میں کچھ فیصلے کئے ہیں جن میں ایک فیصلہ یہ بھی ہے کہ شہروں سے ایک ہفتے میں تجاوزات ختم کر دی جائیں۔دوسرا فیصلہ ڈپٹی کمشنروں کو کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن اور اچھی گورننس کا سسٹم ڈیزائن کرنے کا ٹاسک ہے اب میں سوچ رہا ہوں کیا موجودہ عہد کے ڈپٹی کمشنروں میں اتنا دم خم ہے کہ وہ یہ دونوں کام کر سکیں۔ میں ملتان کی مثال ہی دیتا ہوں۔گذشتہ دو اڑھائی برسوں میں ڈپٹی کمشنروں کی تعیناتی کا عرصہ اوسطاً چھ ماہ رہا ہے اب کوئی بتائے پت جھڑ کی طرح آنے والے یہ ڈپٹی کمشنر اتنے بڑے کام کیسے کر سکتے ہیں،جس افسر پر روزانہ تبادلے کی تلوار لٹک رہی ہو وہ ایسے کام نہیں کرتا کہ بَلا گلے پڑ  جائے۔ ویسے تو میں سمجھتا ہوں آج کی بیورو کریسی اُس جرأیت رندانہ سے محروم ہو چکی ہے،جو کسی زمانے میں افسروں کی پہچان ہوتی تھی آج کی بیورو کریسی تو صرف پوسٹنگ کے دُکھ میں مبتلا ہے۔ اُسے نام کمانے کی کوئی خواہش نہیں البتہ دام کمانے کے لئے وہ اپنے ایک ایک دن کو بروئے کار لاتی ہے۔ نسیم صادق کے بعد بیسیوں ڈپٹی کمشنر ملتان آئے اور چلے گئے، کسی کا نام تک لوگوں کو یاد نہیں تاہم نسیم صادق کا نام ملتان کے ایک عام آدمی کو بھی یاد ہے اور اچھے لفظوں میں یاد ہے۔

اب اس پر بحث ہو سکتی ہے کہ ڈپٹی کمشنروں کو کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دینا نتیجہ خیز ہو سکتا ہے یا نہیں، کیونکہ اس کے لئے سب سے پہلے ڈپٹی کمشنر کا خود کرپشن سے ماوراء ہونا ضروری ہے۔میں کئی بار لکھ چکا ہوں ایک ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں عین ناک کے نیچے کئی برانچیں کام کر رہی ہوتی ہیں اگر وہ اُن میں جاری کرپشن بھی نہیں روک سکتا تو پورے ضلع میں واقع سرکاری اداروں میں کرپشن کیسے روک سکتا ہے۔ سرکار نے ڈپٹی کمشنر کو بے بہا اختیارات اس لئے دیئے ہیں کہ وہ اپنے ضلع کو گڈ گورننس کا گہوارہ بنا دے۔ محکمہ صحت، محکمہ تعلیم، اکاؤنٹس آفس،پٹوار خانہ، اراضی ریکارڈ سنٹرز،رجسٹری برانچ، واسا، کارپوریشن غرض سب کچھ اس کے زیر نگیں ہوتا ہے۔ منڈیوں کے معاملات بھی اُس کی دسترس میں ہوتے ہیں، روزانہ اشیاء کے سرکاری ریٹ بھی اُس کی نگرانی میں نکلتے ہیں۔گویا کہ اس نظام میں ڈپٹی کمشنر فیصل آباد کا وہ گھنٹہ گھر ہے جس کے دروازے چاروں طرف نکلتے ہیں اِس لئے وزیراعلیٰ مریم نواز کا ڈپٹی کمشنروں کوکرپشن کے خاتمے اور گڈ گورننس کا ٹاسک دینا بے جا نہیں،مگر ان اٹھارویں گریڈ کے افسروں سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ کرپشن مافیاز سے ٹکرا جائیں۔کیا اُن میں اتنی سکت اور ہمت ہے کہ وہ ایسا کر گذریں۔جب انہیں صرف اس وجہ سے پنجاب اسمبلی میں بُلا لیا جاتا ہو کہ انہوں نے کسی ایم پی اے سے ملاقات کیوں نہیں کی اور تحریک استحقاق کے ذریعے اسے فوری طور پر عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہو اور چیف سیکرٹری اُن کی سائیڈ لینے کی بجائے ہٹا بھی دیتے ہوں تاکہ ایم پی اے صاحبان کا رُخ اُن کی طرف نہ ہو جائے تو کوئی بتائے کہ یہ ڈپٹی کمشنر کا یہ بے شمار اختیارات رکھنے والا عہدہ اس پر براجمان شخص کے لئے ایک ایسی ناؤ نہیں بن جائے گا،جو کسی وقت بھی ڈوب سکتی ہے۔بات سادہ سی ہے جب تک انتظامیہ کو سیاسی دباؤ سے آزاد نہیں کیا جاتا اُس وقت تک یہ توقع رکھنا کہ ڈپٹی کمشنر کوئی بہت بڑی توپ چلانے میں کامیاب ہو جائیں گے ایک خام خیالی ہے اور وقت گزاری کا ایک حربہ ہے۔

نظام کچھ ایسا ہے کہ ایک نوجوان سی ایس پی افسر ڈپٹی کمشنر بن کر آتا ہے اسے ایک سجا سجایا نظام ملتا ہے جس میں تیس تیس سال سے اُسی کے دفتر میں کام کرنے والے مہا گھاگ موجود  ہوتے ہیں،جن کے شہر کے بااثر افراد اور ارکانِ اسمبلی سے رابطے ہوتے ہیں، کیونکہ انہوں نے سالہا سال سے اُن کی خدمت اور جائز، ناجائز کام کئے ہوتے ہیں اگر نیا آنے والا ڈپٹی کمشنر کسی کو کرپشن  اور اختیارات سے تجاوز کے الزام میں اپنی جگہ سے ہٹاتا ہے تو آپ کے پیچھے کھڑا ہوا پورا کرپٹ مافیا اُسے بچانے کے لئے سامنے آ جاتا ہے اگر ڈپٹی کمشنر تگڑا ہو تو وہ ٹھہر جاتا ہے وگرنہ ہتھیار ڈال کے اپنی مدت پوری کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔تجاوزات کی بات ہے تو ان کے پیچھے سیاسی ہاتھ ہوتے ہیں یہ ریڑھی والے، جنہوں نے سڑکوں پر قبضے جمائے ہوئے ہیں، کسی نہ کسی کے ووٹرز اور سپورٹرز ہوتے ہیں ملتان کی پرانا شجاع آباد روڈ کی مثال دیتا ہوں،پوری سڑک بالکل بند ہے اور اندھے کو اس کا پتہ ہے، کوئی انتظامی افسر ان ریڑھی والوں کو جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے ہٹا نہیں سکتا،کیونکہ ملتان کا ایک بڑا مقتدر خاندان اُن کی پشت پر کھڑا ہے۔ ایسے میں وزیراعلیٰ مریم نواز کا صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ ڈپٹی کمشنر کرپشن  اور تجاوزات کے خلاف کریک ڈاؤن کریں، انہیں یہ فیصلہ بھی کرنا ہو گا، ڈپٹی کمشنروں کو اس ٹاسک کی تکمیل کے لئے پوری سپورٹ اور تحفظ بھی دیا جائے گا۔اس معاملے میں کسی رکن ِ اسمبلی کی نہیں سنی جائے گی اور نہ اُس کی شکایت پر ڈپٹی کمشنر کا تبادلہ کیا جائے گا، تب شاید کوئی معجزہ رونما ہو وگرنہ ایسی باتیں صرف ہوا کا بلبلہ ہوتی ہیں۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -