انجمن طلبہ اسلام
پاکستان کی طلبہ تنظیموں میں ایک نمایاں نام ’’ انجمن طلبہ اسلام ‘‘ کا ہے، جس کی تشکیل20جنوری1968ء کو کراچی میں ہوئی۔ دیکھتے یہ تنظیم پور ے ملک میں پھیل گئی۔ اپنے48سالہ سفر میں اس تنظیم نے متعدد کار ہائے نمایاں انجام دےئے ، طلبہ میں خدا پرستی اور محبت رسول پر مبنی جذبوں کو پروان چڑھانے کے لیے جدوجہد کی، وطن عزیز میں چلنے والی تحریکو ں میں اہم کردار ادا کیا ، طلبہ میں سماجی فلاحی سرگرمیوں کو فروغ دیا اور وطن عزیز کی طلبہ سیاست پر جو نقوش ثبت کیے وہ ہماری قومی زندگی کا قابلِ فخر سرمایہ ہیں۔ انجمن طلبہ اسلام نے فرقہ پرستی سے بالا تر ہوکر اعتدال کی راہ اختیار کی ۔ بقول ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر کے ’’یہ تنظیم شخصی کرشمے کے ارد گرد نہیں چلتی بلکہ اپنے مقاصد کی بناء پر فعال ہے‘‘۔ اپنے سسٹم کے باعث انجمن کسی گروہ کی پیروکار بن سکی نہ کسی ایک شخصیت کے حلقۂ عقیدت کی اسیر۔انجمن طلب�ۂ اسلام واحد طلبہ تنظیم ہے جو کسی سیاسی جماعت کی ذیلی تنظیم نہیں ہے ۔ انجمن اپنے فیصلے اور پالیسیاں خود مرتب کرتی آئی ہے ۔ انجمن طلبۂ اسلام کا تحریکی کردار: ۔انجمن طلبہ اسلام نے اپنے قیام سے اب تک مختلف تحریکوں میں اہم کردار ادا کیا ہے
16دسمبر1971 ء کو بھارتی جارحیت، سیاستدانوں کی ہوسِ اقتدار اور غلط دفاعی پالیسیوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ رونما ہوا۔ تاریخ پاکستان کا یہ وہ المناک سانحہ تھا ، جس پر پاکستان بنانے والوں کی آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں۔3 جنوری 1973 ء کو جب حکومتِ وقت نے بنگلہ دیش منظوری کے لیے نشتر پارک کراچی میں جلسہ منعقد کیا تو انجمن طلباء اسلام کا ایک جیالا کارکن عبدالواحد بلوانی حب الوطنی کے جذبے کے تحت تمام تر حفاظتی انتظامات توڑ کر اسٹیج پر چڑھ گیا اور ’ ’بنگلہ دیش نامنظور‘‘کا نعرہ بلند کیا۔اس نعرے نے پورے جلسے کی بساط ہی پلٹ دی اور ہر طرف سے بنگلہ دیش نامنظور کے نعرے بلند ہونے لگے۔عبدالواحد کو جرأت وغیرت کے اس اظہار کے نتیجے میں تشدد اور جیل کی سزا جھیلنی پڑی۔بھارتی جارحیت کے نتیجے میں قید پاکستانی فوجیوں کی رہائی کے لئے انجمن نے اپنا پہلا تنظیمی ’’ہفتہ بیدار�ئعالمی ضمیر‘‘15تا21جون 1973 ء منایا۔ انجمن نے ہمیشہ وطن سے محبت پر مبنی جذبوں کو پروان چڑھایا اور ہر موقعہ پر نظرےۂ پاکستان کی پاسدار ی کا حق ادا کیا۔ 1974ء کی تحریک تحفظِ ختم نبوت میں انجمن نے نمایاں حصہ لیا اور تحریک کو جلا بخشی۔ اس سلسلے میں جب21 اگست 1974 ء کو لاہور ہائی کورٹ نے کارکنانِ انجمن کی رہائی کی ضمانت پر یہ حکم صادر کیا کہ کارکنانِ انجمن رہائی کے بعد ختم نبوت پر تقریریں نہیں کریں گے تو انجمن کے رہنماؤں نے بھری عدالت میں کہا’’ ختم نبوت پر اظہار کرنا ہمار ا بنیادی حق اور ایمانی تقاضا ہے اور دنیاکی کوئی طاقت ہمیں ہمارے اس حق سے محروم نہیں کرسکتی‘‘ ۔ اس تحریک میں انجمن کے متعدد کارکنوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جانے کا سرکاری اعلان جیل میں رہ کر سنا۔
1977کے الیکشن میں حکومتی دھاندلی کے بعد چلنے والی تحریکِ نظامِ مصطفی کے دوران، طلبہ تنظیموں کا جو اتحاد بنا ، اس کی صدارت کی ذمہ داری انجمن کے صدر امجد علی چشتی کو سونپی گئی۔ روسی انخلاء کے بعد افغان مسلمان بین الاقوامی سازشوں اور باہمی چپقلش کے باعث افغان جہاد کے ثمرات کو سنبھال نہ سکے۔بعد ازاں عراق و افغانستان پر امریکہ و اتحادیوں کے غاصبانہ قبضے اور شہریوں کے قتل عام کے خلاف انجمن نے ہر فورم پر آواز اٹھائی اور مقبوضہ ممالک کی آزادی کے لئے مزا حمتی تحریک چلائی۔انجمن طلبۂ اسلام نے ہمیشہ نبی کریم ﷺ کی ناموس اور اسلامی شعائر کی حرمت پر اُٹھنے والی ہر آواز پر لبیک کہا ۔ جنوری1 197ء میں ڈاکٹرپنہاس، 1989ء کے اوائل میں ملعو ن سلمان رشدی ،2006ء و2008ء میں یورپی اخبارات میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت اور 2010میں فیس بک کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کے خلاف انجمن طلبہ اسلام نے بھر پور انداز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ قانونِ توہین رسالت کو ختم کرنے کی سازشوں کے خلاف متعدد مواقع پر اپنے جذبوں کا اظہار کیا۔ یہ حضور نبی کریم کی محبت ہی تو تھی کہ جب عاشقانِ رسول 11اپریل 2006 ء کو کراچی میں یوم میلاد النبی پر نشتر پارک میں جمع ہوکر نبی کریمؐ سے اپنی عقیدت کا اظہار کر رہے تھے کہ دہشت گردی کا المناک سانحہ ہوا۔ شہداءِ عید میلاد میں انجمن کے سابق مرکزی سیکریٹری جنرل حافظ محمد تقی، مرکزی سیکرٹری جنرل، پیر محمد پیرل اور انجمن کے رفیق ذاکر حسین بھی شامل تھے۔
کشمیر کی آزادی کے سلسلے میں انجمن اقوامِ متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں پر عمل درآمد کیلئے کوشاں ہے جبکہ بائیں بازو جو بظاہردنیا بھر کی مزاحمتی تحریکوں کا حامی ہے ، کشمیر کی مزاحمتی تحریک پر مہر بہ لب ہے۔ 8 اکتوبر 2005ء کی وہ صبح کیسے بھلائی جاسکتی ہے جب پاکستان اور آزادانہ کشمیر کے عوام زلزلے کا شکار ہوئے۔ اس موقع پر اس تنظیم کے کارکنان نے اپنا گھر بار چھوڑ کر امدادی کا روائیوں میں حصہ لیا ۔ انجمن کے متعدد رہنماؤں نے عید الفطر کے ایام زلزلہ زدگان کی بحالی کرتے ہوئے گزارے۔انجمن طلبۂ اسلام انسانی حقوق کا احترام کرتی ہے اور مذہب، زبان، رنگ، جنس، نسل کی بنیاد پر ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہے۔ انجمن ایسے کسی خود کُش حملے، فضائی بمباری اور تباہی سے قطعی اتفاق نہیں کرتی ، جس سے معصوم و بے قصور انسانی جانوں کا ضیاع اور املاک کا نقصان ہوتا ہے۔انجمن مسلمانوں کے خلاف عالمی طاقتوں کے غیر منصفانہ اور جارحیت و دہشت گردی پر مبنی اقدامات کی مذمت کرتی ہے۔ انجمن مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی سازشوں پر احتجاج کو ایک فطری ردِ عمل قرار دیتی ہے اور طاقت کے بجائے انصاف کو عالمی امن کا ضامن خیال کرتی ہے۔ انجمن کا خیال ہے کہ عالمی سطح پر غربت کے خاتمے، خیر سگالی اور امن کے قیام کے لیے دنیا کو اسلامی دشمنی پر مبنی فکر اور تقسیمِ دولت کے غیر منصفانہ طریقوں سے نجات پانا ہوگی۔ انجمن روشن خیالی،رواداری ، حقیقی ثقافت، سافٹ امیج اور خواتین و اقلیتوں کے حقوق کے نام پر اسلامی اقدار ونظر ےۂ پاکستان کو پامال کرنے کی مذموم کوششوں کی مذمت کرتی ہے۔صوفیاء عظام کے طریقے پر سماجی انقلاب پر یقین رکھنے والی اس تنظیم نے طلبہ کو خدمتِ خلق اور محبتِ انسانیت کا درس دیا ۔اس کے کارکنان کئی مرتبہ ’’ خیر الناسِ من ینفع الناس‘‘ کی عملی تفسیر بنے ۔ کارکنانِ انجمن کا یہ جذبہ کئی مرتبہ لوگوں کے جینے کا سہار ا بنا۔راولپنڈی میں اوجڑی کیمپ کا واقعہ ہو،ملک میں کہیں بھی سیلاب ہو ،زلزلہ آجائے یا کوئی اور حادثہ پیش آئے،انجمن کے کارکنان نے امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا اور متاثرہ دلوں کے زخموں پر مرہم رکھا۔ انجمن نے اپنی سماجی خدمات پر اقوام متحدہ کے نمائندوں اور دیگر مبصرین سے خراج تحسین کے علاوہ 1992ء میں ’’انجمن ہلال احمر‘‘سے ’’سماجی خدمات ایوارڈ‘‘بھی وصول کیا ۔
تعلیم کی اہمیت کے پیش نظر انجمن نے پہلی مرتبہ 23مارچ تا2اپریل1971 ء ،’ ’اسلامی نظام تعلیم مہم ‘‘منانی شروع کی۔13 دسمبر1973ء کو طلبہ مسائل کے حل کے لئے طلبہ تنظیموں اور یونین کے نمائندوں کی مشترکہ طلبہ کانفرنس کراچی میں منعقد کی۔ 2 تا 8 فروری 1976 ء، ’ ’ ہفتہ اسلامی نظام تعلیم‘‘منا کر، تعلیم کی اصلاح اور فروغ کے لئے جدوجہد کی۔نظامِ تعلیم کی بہتری کے لئے انجمن نے کئی مرتبہ اپنی سفارشات متعلقہ حکام کو پیش بھی کیں اور کئی مرتبہ درسی کتب میں مختلف اغلاط کی نشاندہی کی اور اپنی جدوجہد سے اُنھیں درست کرایا۔ مختلف طلبہ تنظیموں کے اتحاد ’’ متحدہ طلبہ محاذ‘‘ کی صدارت کئی مرتبہ انجمن طلبہ اسلام کے پاس رہی۔ اے ٹی آئی ایک امن پسند طلبہ تنظیم ہے ، اس تنظیم کی کوششو ں سے طلبہ اور تعلیمی ادارے تعلیمی امن کی ضرورت اور طریقہ کار سے آگاہ ہوئے۔اس سیشن کو انجمن ،’’تعلیم برائے امن سال ‘‘کے طور پر منا رہی ہے۔ انجمن طلبہ اسلام کے اعتدال پسندانہ نظریات او ر مثبت سرگرمیوں نے خاموش طلبہ کے دلوں میں ایک مقام پیدا کیا ، جس کا اظہار مختلف طلبہ یونین الیکشنوں میں اے ٹی آئی کی واضح کامیابیوں سے ہوتا رہا ہے۔
انجمن طلبہ اسلام کا یہ روشن کردار اکثر لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل رہا ہے ۔انجمن کی تاریخ جن خدمات اور کاوشوں کو سمیٹے ہوئے ہیں،ان کا ذکر ان صفحات کے مختصر دامن میں نہیں سمویا جاسکتا۔ انجمن نے طلبہ کو رسول اللہ کے دامن سے وابستہ کرنے اور ان میں بامقصد جذبوں کو پروان چڑھانے میں جو کردار اداکیا ہے، وہ ہمارے معاشرے کا ایک روشن باب ہے ۔ اس سلسلہ میں انجمن طلباء اسلام ملک بھر میں گولڈن جوبلی کی تقریبات منعقد کرے گی ۔جبکہ مرکزی تقریب وفاقی درالحکومت میں04 مارچ 2017میں ہو گی ۔جس میں مختلف شعبہ ہائے زند گی سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات شرکت کریں گی۔