میڈیاکی کالی بھیڑوںکا بھی احتساب ضروری ہے

میڈیاکی کالی بھیڑوںکا بھی احتساب ضروری ہے
میڈیاکی کالی بھیڑوںکا بھی احتساب ضروری ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ارسلان افتخارکیس نے ملک میں ایک بھونچال کی سی کیفیت پیداکردی ہے ،کیونکہ اس کیس میں ملزم چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخارمحمد چودھری کے بیٹے ارسلان افتخار ہیں۔ بلاشبہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اس معاملے پر ازخود نوٹس لے کر ملکی تاریخ میں عدل وانصاف کے حوالے سے ایک روشن مثال قائم کی ہے۔ اس کیس میں جھوٹا اورسچاکون ہے؟ اس کا فیصلہ تو عدالت کرے گی، اس لئے ہم اس پر کوئی رائے نہیں دے سکتے ،لیکن یہ طے ہے کہ اس کیس نے بہت سے انکشافات کوجنم دیا ہے، جن میں سے اہم ترین یہ ہے کہ میڈیا کے وہ اینکرپرسن جودن رات ملکی کرپشن کا رونا روتے اورسیاستدانوں پر یہ الزامات لگاتے نظرآتے تھے کہ انہیںعوام کی بجائے امریکی ڈالروں اور سوئس اکاونٹس سے زیادہ پیار ہے جن کی خاطر وہ ملکی مفادات کو بیچ دیتے ہیں ،اب خود بھی عوام کے سامنے ننگے ہوگئے ہیں اور عوام سے بکاومال ہونے کے طعنے سن رہے ہیں۔
عوام ان نام نہاد دانشوروں کے اصل چہرے سامنے آنے پر سخت مایوس ہوئے ہیں ،کیونکہ ایک صحافی کو بھی ایک جج کی طرح غیرجانبدار ہونا چاہئے، تبھی وہ حالات کی بہتر رپورٹنگ کرکے عوام کے سامنے اصل حقائق پہنچاسکتا ہے، لیکن یہ اس کیس کا کرشمہ ہے کہ کرپشن میں ڈوبے سیاستدانوں کا احتساب کرکے اُن کے مکروہ چہروں کو عوام کے سامنے بے نقاب کرنے والا میڈیاخود بھی کرپشن کے اس حمام میں ننگا نظرآرہا ہے ۔کرپشن نے ہی ہمارے ملک کا بیڑاغرق کررکھا ہے ،سیاستدانوں کی بڑی تعدادکا اس میں بہت بڑا حصہ ہے، جنہوں نے سیاست کو خدمت کی بجائے ایک منافع بخش کاروبار بنارکھاہے ، اُن کو بے نقاب کرنے پر میں نے میڈیا کو ہمیشہ خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ اوورسیز پاکستانی اپنے ملک سے ہزاروں میل دور بیٹھ کر بھی پاکستان کے پروگرام بڑے شوق سے دیکھتے آئے ہیں، لیکن اب میڈیا کے چندنامور اینکرز کے ملک ریاض سے فیضیاب ہونے کی اطلاعات نے بے شمار اوور سیز پاکستانیوں کو بری طرح مایوس کیا ہے ۔آج کل پاکستان کے ساتھ ساتھ یہاں امریکہ میں بھی پاکستانی میڈیا زیربحث ہے اوراس پرانگلیاں اٹھائی جارہی ہیں ۔
 گزشتہ دنوں اس موضوع پر گفتگوکرتے ہوئے ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ ملک ریاض نے تو ملک کو ایک منڈی بنارکھا تھا جس پر مَیں نے عرض کی کہ ملک ریاض کی ذات کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ میری ذاتی طور پر اُن سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی، لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوںکہ اگر کسی کو خریدناجرم ہے تو خود کو بیچنااس سے بھی بڑاجرم ہے۔ یہ توایسے ہی ہوا کہ ایک طوائف کے کوٹھے پر جاکر ایک صاحب نے دلال سے کہاکہ تم کتنے بے غیرت ہو کہ نوجوانوں کوگمراہ کررہے ہو تواس پر اس دلال نے کہاکہ یہ بتاو تم ہمارے پاس آئے ہو یا ہم تمھارے پاس گئے ہیں؟ اس نے کہاکہ مَیں آیا ہوں تواس پر اس دلال نے کہا کہ پھر اگرہم بے غیرت ہیں تو تم ہم سے بھی بڑے بے غیرت ہو،کیونکہ ہم تو اپنے گھر میں بیٹھے ہیں، جبکہ تم اس گناہ کے اڈے پر خودچل کرآئے ہو، بہرحال اس میڈیاسکینڈل کے بعد میڈیا کی غیرجانبداری پرجس طرح سوال اٹھ رہے ہیں، اس کے بعد ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا کا بھی کڑا احتساب کیا جائے اور اُن کالی بھیڑوں کو نکال باہرکیا جائے جو صحافت کے لبادے میں بڑی بڑی شخصیات کو بلیک میل کرکے ذاتی فوائد حاصل کرتی اور اپنی دلکش لفاظی سے عوام کو بیوقوف بناتی رہی ہیں۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ،ان کی جگہ بآسانی پُر ہوجائے گی۔ 

مزید :

کالم -