وزیر اعلیٰ پنجاب اور پولیس کی کارکردگی میں فرق کیا ہے۔۔ ؟
لندن میں مقیم بھائی چوہدری اشفاق کے اکلوتے بیٹے نے یونیورسٹی سے اپنی گریجویشن مکمل کی تو پاکستان ضلع گجرات تھانہ ڈنگہ کے نواحی گاؤں دھکڑانوالی میں موجود بھائیوں نے اپنے بھائی سے کہا تم اپنے بیٹے کو لے کر پاکستان آؤ دادی اپنے پوتے سے ملنا چاہتی ہے۔بھائی نے خوشی خوشی اپنے بیٹے کو ساتھ لیا اور پاکستان چلا آیا۔وہاں ماں کے گھر میں سب بھائی بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک وہاں بیٹھے بڑے بھائی چوہدری مشتاق جو خود بھی ڈنمارک سے پاکستان آیا تھا، اس نے اپنے پورے خاندان کے سامنے بھتیجے کے دل پر فائر مار کر قتل کر دیا اور سب کے سامنے کہا اس کیلئے جائیداد میں حصہ لینا تھا لے لو میں نے تمھاری نسل ہی ختم کر دی، بیٹا پاپا پاپا کرتا باپ کی گود میں دم توڑ گیا اور باپ اپنے بھائیوں کے منہ تکتا رہ گیا،شاید پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلا اور انوکھا واقعہ ہوکہ باپ بیٹے کی لاش لیکر لندن آ گیا،میں نے اسے یہاں دفنانا بھی نہیں اور اس مٹی سے ہی اس نے رشتہ ختم کر دیا جس میں وہ پیدا ہوا تھا بہت بڑے جنازے میں اشکبار آنکھوں سے اس نوجوان کو دفنا دیا گیا۔یہ واقعہ پچھلے کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر بار بار وائرل ہورہا ہے اس افسوسناک واقعہ کے حوالے سے ڈی پی او گجرات ڈاکٹر مستنصر عطا باجوہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا یہ قتل ان کیلئے بڑا چیلنج تھا مقتول جس کی عمر 28سال ہے یہ اپنے والے کے ہمراہ انگلیڈ سے پاکستان آیا تھا گزشتہ ماہ 29مئی کو اسے اس کے تایا ابو مشتاق نے فائرنگ کرکے قتل کردیا اور موقع سے فرار ہوگیا پولیس نے مقتول کے والد اشفاق احمد کی درخواست پر ملزم کیخلاف قتل کا مقدمہ درج کر رکھا ہے۔ اس کی گرفتاری کیلئے وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف نے نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پولیس کو احکامات جاری کررکھے تھے۔ملزم نے ڈنمارک کا ویزہ رکھنے کی وجہ سے بیرون ملک فرار ہونے کی پوری کوشش کی جسے پولیس نے نہ صرف ناکام بنایا بلکہ اپنی تمام تر توانیاں استعمال کرتے ہوئے اسے گرفتار بھی کر لیاہے جو اس وقت ڈنگہ پولیس کی حراست میں جسمانی ریمانڈپر ہے ملزم سے آلہ قتل بھی برآمد ہو چکاہے۔ اسے قرار واقعی سزا دلوانے کیلئے بہت جلد چالان عدالت کے حوالے کیا جائیگا۔مقتول کی لاش لندن لے جانے کے حوالے سے ڈی پی او ڈاکٹر مستنصر عطا باجوہ نے بتایا مقتول کی والدہ لندن کی رہائشی ہونے کی وجہ سے انہوں نے اپنے شوہر سے اسے وہاں دفنانے کا مطالبہ کیا تھا۔مقتول نے سوگواروں میں والدین کے علاوہ دو بہنیں بھی چھوڑی ہیں۔ ڈی پی او ڈاکٹر مستنصر عطا باجوہ اچھی شہرت کے حامل اور ان کا شمار ایماندار پولیس افسران میں ہوتا ہے اس سے قبل بھی انہوں نے اپنی تعیناتیوں کے دوران یہ ثابت کیا ہے وہ محنتی اور پیشہ وارانہ مہارت کے حامل آفیسرز ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں قتل کا یہ ملزم اگربیرون ملک فرار ہو جاتا ڈنمارک نیشنیلٹی کے پیش نظراس کی گرفتاری ناممکن تھی مقتولہ کے والدین لندن مقیم اور وہاں کے نیشنیلٹی ہولڈر ہونے کے پیش نظر وہاں کی ایمبیسی نے ملزم گرفتار نہ ہونے کی صورت میں وفاقی اور پنجاب حکومت کیلئے دردسر بنے رہنا تھا۔وزیر اعلی پنجاب اور آئی جی پولیس نے اس ملزم کی گرفتاری پر ڈی پی او گجرات کو شاباش دی ہے ضرورت اس امرکی ہے پنجاب پولیس کے تمام افسران کو قتل سمیت سنگین مقدمات میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کیلئے ایسے ہی اقدامات کرنے چاہیں جس طرح ڈی پی او گجرات نے کیے ہیں۔وزیراعلی پنجاب مریم نواز کی کارکردگی کے حوالے سے انسٹیٹیوٹ فار پبلک اوپینین ریسرچ (آئی پی او آر) کی جانب سے ایک تازہ عوامی سروے کیا گیا ہے۔سروے کے نتائج کے مطابق 55 فیصد افراد نے مریم نواز اور انکی حکومت کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ آئی او پی آر کے مطابق 29 مئی سے 12 جون تک کیے جانیوالے اس سروے میں 2010 افراد کی رائے لی گئی جن میں 65 فیصد مرد جبکہ 35 فیصد خواتین شامل تھیں۔ شہری علاقوں میں 62 فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 48 فیصد افراد وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی کارکردگی سے مطمئن نظر آئے۔ آئی او پی آر کے مطابق سروے کے نتائج بین الاقوامی معیار کے مطابق مرتب کیے گئے ہیں۔ آئی او پی آر کی حقیقت کچھ اس طرح سے ہے جنرل الیکشن 2024میں سے قبل بھی ایک سروے ان کی جانب سے جاری کیا گیا تھا جس میں بتایا گیا سروے میں 3 ہزار سے زائد افراد نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اورمسلم لیگ ن پنجاب میں سب سے زیادہ مقبول سیاسی جماعت قرار دی گئی جبکہ تحریک انصاف کو مقبولیت میں دوسرے نمبر پر دکھایا گیا۔اس سے آپ سروے کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔پولیس اور وزیر اعلی پنجاب کی کارکردگی میں کوئی خاص فرق نہیں ہے،پنجاب پولیس بھی آپ کو کبھی یہ کہتی نظر نہیں آئے گی یہ پنجاب میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے ہمیشہ جرائم کی شرح میں کمی کا دعوی کیا جائے گا کرپشن کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو موجودہ سیٹ اپ میں لاہور میں چار ایس پی صاحبان صرف اسلئے فارغ کیے گئے کہ ان پر مبینہ طور پر رشوت لینے کا الزام تھا فارغ ہونیوالوں میں دو ایس پی صاحبان ایسے بھی تھے جو قتل کے مقدمات میں بھی بھاری رشوت وصول کررہے تھے موجودہ سیٹ اپ میں لاہور میں ایس پی صاحبان پر جعلی گینگ بنانے کا الزام بھی ہے اور یہ بات ایس ایس پی ڈسپلن کی ایک انکوائری میں بھی ثابت ہو چکی ہے اگر پنجاب کی بات کی جائے تو آپ کو درجنوں ایسے افسران مل جائیں گے جنہوں نے مبینہ طور پر رشوت کا بازار گرم کررکھا ہے۔