رضی احمد رضوی۔کچھ یادیں 

   رضی احمد رضوی۔کچھ یادیں 
   رضی احمد رضوی۔کچھ یادیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دو تین مہینے پہلے کسی وجہ سے کالم نگاری کے شغل میں ایک رخنہ پڑ گیا پھر ایسا ہوا کہ مہینوں قلم اُٹھانے کی ہمت نہ ہوئی۔ اگرچہ اِس عرصے میں بہت کچھ ہوا۔ کالم کا موضوع شعر کی طرح پہلے حاشیہ خیال میں آتا ہے لہٰذا کاغذ پر اُتارنے سے پہلے کالم مکمل ہو چکا ہوتا ہے۔ اگرچہ اِس دوران کئی موضوعات ایسے سامنے آئے کہ ذہن میں تو کالم بن گیا لیکن میں عملی شکل نہ دے سکا۔ بظاہر ایک دو وجوہات تھیں کچھ بیرونی دوروں کو فائنل کرنا تھااور دوسرا ”پنچ لائن“ کے نام سے کالموں کی کتاب کی چھپائی بھی ایک مصروفیت تھی۔ اب میں ایک تو اِن مصروفیتوں کو نپٹا چکا ہوں اور پھر ایک مہربان رضی احمد رضوی کے سفرِ آخرت پر قلم اُٹھانے پر مجبور ہو گیا ہوں۔ اگر میں ایسا نہ کرتا تو ذہن پر ہمیشہ ایک بوجھ رہتا۔کچھ عرصہ پہلے بھی کئی دوستوں کا ساتھ چھوڑ جانے پر مجھے کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔رضوی صاحب کی رحلت کچھ غیرمتوقع اور خاص حالات میں ہوئی۔ وہ پاکستان آئے اسلام آباد رہے لیکن ملاقات نہ ہو سکی بس جنازہ پڑھنے کا موقع ملا۔ 

رضوی صاحب نے اپنے کیریئر کا آغاز خبررساں ایجنسی پی پی آئی سے کیا پھر پی ٹی وی کے ایک ادارے ایشین ٹیلی وژن سروس میں آگئے اورپھر وہ پی ٹی وی نیوز اور کرنٹ افیئرز کی ٹیم میں شامل ہو گئے اور نیوز ڈیپارٹمنٹ میں نیوز ایڈیٹر کی پوسٹ سنبھالی۔ مجھے اُن کے ساتھ کام کرنے کا موقع نہیں ملا کیونکہ میں 1980ء میں فیصل آباد چلا گیا جہاں میں نے نیوز بیورو کا چارج سنبھالا۔ فیصل آباد سے اسلام آباد میری واپسی 1986ء میں ہوئی۔ رضوی صاحب 1985ء میں پی ٹی وی چھوڑ کر امریکہ چلے گئے جہاں انہوں نے وائس آف امریکہ کی اُردو سروس میں سینئر پوزیشن پر کا م کیااور منیجنگ ایڈیٹر پوسٹ سے ریٹائر ہوئے۔ میری اُن سے تفصیلی ملاقات وہیں ہوئی۔ ہوا یوں کہ جولائی 1987ء  میں میں فیملی کے ساتھ ذاتی دورے پر برطانیہ پہنچا۔ وہاں سے میں نے اکیلے امریکہ جانے کا قصد کر لیا۔ امریکہ میں میں نے نیویارک میں لینڈ کیا وہاں میرا قیام ایک سابق کولیگ سید نجم الحسن کے پاس رہا۔ کچھ دنوں بعد میں اوریگن میں ایک دوست کے پاس چلا گیا۔ وہاں سے واپسی پر میں چند دن وسکانسن میں ایک سابق کولیگ مرحوم قیصر عباس رضوی کے پاس ٹھہرا۔ وہاں سے میں گرے ہاونڈز بس پر واشنگٹن ڈی سی پہنچا۔ گرے ہاونڈز کے سٹاپ پر رضی احمد رضوی صاحب اور نقی عباس صاحب مجھے لینے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ رضوی صاحب مجھے گھر لے گئے فیملی سے ملوایا، پرُتکلف کھانے کا اہتمام کیا۔

میری رہائش نقی عباس صاحب کے پاس رہی۔ وہ رضوی صاحب کے بالکل قریب ہی رہتے تھے۔نقی عباس صاحب کے ساتھ میں نے پی ٹی وی کراچی اور کوئٹہ میں کام کیا۔ بعد میں وہ پی ٹی وی چھوڑ کر امریکہ منتقل ہو گئے اب تک وہیں ہیں۔ اُن سے رابطہ رہتا ہے یوں تین دن رضوی صاحب اور نقی صاحب کے ساتھ گزارے۔ شام کی محفلوں میں ایک سینئر براڈ کاسٹر یونس واسطی صاحب بھی شامل ہوتے تھے وہ بھی وائس آف امریکہ کی اُردو سروس میں تھے۔ دن میں میں اور نقی صاحب شہر کی سیر کرتے تھے۔

رضوی صاحب ایک دن مجھے اپنے دفتر لے گئے۔ وہاں ایک وسیع نیوز روم میں صلاح الدین صاحب، سلطان غازی صاحب، اکمل علیمی صاحب، افضل حیدر صاحب، یونس واسطی صاحب اور اظہار کاظمی صاحب جیسے  ناموربراڈ کاسٹرزسے ملاقات ہوئی۔ سب اپنے شعبے میں بہت نمایاں لوگ تھے۔ اُردو سروس کے ساتھ دوسری سروسز ملا کر ایک ڈویژن بنایا گیا تھا۔ ڈویژن ہیڈ ڈاکٹر برائن سلور تھے۔ اُن سے ملاقات ہوئی ڈاکٹر سلور نے غالب پر ڈاکٹریٹ کی ہوئی تھی اور ستار اچھا بجا لیتے تھے وہ پاکستان بھی آ چکے تھے۔ یہ بڑا یادگار ٹور تھا۔ اتنے سینئر لوگوں سے ملاقاتیں رہیں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ وقت گزرتا گیا ایک دفعہ رضوی صاحب پاکستان آئے تو اُن سے پی ٹی وی کے ساتھیوں سمیت ملاقات ہوئی۔ تقریباً تین سال پہلے میں امریکہ گیا اور اتفاق سے میرا قیام واشنگٹن ڈی سی میں ہی رہا اس دوران سب دوستوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ نقی عباس صاحب اور خالد حمید صاحب بھی وہیں تھے۔ سب نے باری باری میرے لئے کھانے کا اہتمام کیا۔ رضوی صاحب نے شنواری ہوٹل میں میرے لئے کھانے کا پروگرام بنایا جس میں خالد حمید، نقی عباس صاحب اور ورلڈ بینک کے سابق افسرڈاکٹر سہیل ملک کے علاوہ وائس آف امریکہ کے کئی لوگوں نے شرکت کی جن میں اسد حسن اور کوکب فرشوری صاحب بھی شامل تھے۔کچھ دنوں بعد رضوی صاحب کو کسی اورشہرجانا پڑا۔ انہوں نے مجھے مسیج کیا کہ میری واپسی تک آپ نے جانا نہیں لیکن افسوس کہ میں پہلے ہی واپسی کا پروگرام فائنل کر چکا تھا۔ یوں یہ میری اُن سے آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ ویسے تو میں ڈیڑھ مہینے بعد دوبارہ امریکہ جانے والا ہوں لیکن افسوس وہ اس سے پہلے بہت دور جا چکے ہیں۔

 فروری میں اُن کے پاکستان آنے اور اسلام آباد پہنچنے کا پتہ چلا تو میں نے شکور صاحب کو فون کیا تاکہ رضوی صاحب کے اعزاز میں پروگرام ترتیب دیا جائے لیکن شکور صاحب نے کہا کہ وہ ابھی فیملی کے ساتھ مصروف ہیں لیکن چند دن بعد افسوسناک خبر ملی کہ وہ دنیا چھوڑ گئے ہیں۔ یوں ملاقات کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ انہوں نے اِس دورے میں اپنے سارے قریبی رشتہ داروں سے ملاقات کر لی اور اپنے وطن کی مٹی میں سو گئے۔ایک اچھے پروفیشنل کے علاوہ رضوی صاحب ایک نفیس شخصیت کے مالک تھے میں نے کسی سے اُن کے خلاف حرف ِشکایت نہیں سُنایہ کوئی معمولی بات نہیں۔ خدا تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔

مزید :

رائے -کالم -