براعظم ایشیا کی عظیم علمی درس گاہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور

براعظم ایشیا کی عظیم علمی درس گاہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

صوبائی دارالحکومت لاہور مسلمان بادشاہوں کی تعمیر کردہ تاریخی عمارات، حضرت داتا گنج بخش جیسے بزرگوں کی درگاہوں، مساجد، باغات، شاہراہوں اور درس گاہوں کا شہر ہے۔ لاہور کی معروف درس گاہوں کا تذکرہ کیا جائے تو یہاں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، ایف سی کالج یونیورسٹی، اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی، انجینئرنگ یونیورسٹی، نیشنل کالج آف آرٹس، ایجوکیشن یونیورسٹی، ہوم اکنامکس کالج، کنیئرڈ کالج، لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی، اسلامیہ کالج ریلوے روڈ، گورنمنٹ دیال سنگھ کالج، گورنمنٹ کالج آف سائنس وحدت روڈ، ایم اے او کالج، اسلامیہ کالج سول لائنز، سینٹرل ماڈل سکول جیسے تعلیمی ادارے نوجوان نسل کے ذہنوں کی آبیاری کر رہے ہیں۔
جہاں تک گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کا تعلق ہے‘ یہ ادارہ 1864ء میں قائم ہوا اور اس کے پہلے پرنسپل پروفیسر جی ڈبلیو لائیٹنر تھے۔ اس کا الحاق کلکتہ یونیورسٹی سے تھا کیونکہ پنجاب یونیورسٹی بھی 1882ء میں قائم ہوئی۔ یورپ میں کسی بھی کالج یونیورسٹی کا معیار جانچنے کا پہلا پیمانہ اس کی قدامت سے تعلق رکھتا ہے کہ یہ ادارہ کتنا پرانا ہے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کا تعلق قدیم ترین درسگاہوں سے ہے۔
ایک بہت طویل عرصہ گورنمنٹ کالج لاہور نے بطور پوسٹ گریجویٹ کالج دنیا بھر میں اپنی اعلیٰ روایات اور شہرت کو قائم رکھا اور2002ء سے اسے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا ہے۔ اگرچہ اولڈ راوینز اب بھی اصرار کرتے ہیں کہ اس کا اصل نام گورنمنٹ کالج برقرار رکھا جائے اور اگر یونیورسٹی کا لفظ لانا ہی ہے تو اسے بریکٹ میں لکھ دیا جائے۔ گورنمنٹ کالج کو جی۔ سی کہا جاتا تھا اور جب سے یہ یونیورسٹی بنا ہے تو یہ جی۔ سی۔ یو ہوگیا ہے، لیکن اولڈ راوینز اب بھی اسے جی۔ سی کہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ دُنیا بھر میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ادارے یونیورسٹیاں بن گئے لیکن ان کا پرانا نام برقرار رہا۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی عمارت گوتھک (Gothak) طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔ اس کی مسجد ترکی کے طرز تعمیر کا نمونہ ہے۔ شاعر مشرق جس ہاسٹل میں قیام پذیر رہے اس کا نام اقبال ہاسٹل ہے۔ اس کے علاوہ نیو ہاسٹل، قائداعظم ہاسٹل اور گرلز ہاسٹل بھی طلباء و طالبات کی اقامتی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی
کا تاریخی پس منظر
1864ء میں گورنمنٹ کالج کے قیام کے بعد ڈاکٹر جی ڈبلیو لائٹنر اور ان کے بعد آنے والے پرنسپل صاحبان نے یہاں اعلیٰ تعلیمی و تدریسی نیز غیر نصابی سرگرمیوں کی روایات کو فروغ دیا۔ برصغیر پاک و ہند کے دور دراز علاقوں سے لائق ترین طلباء یہاں داخلہ لینے کیلئے آتے تھے۔ 1895ء میں شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر سر شیخ محمد اقبالؒ نے بی اے کے طالب علم کی حیثیت سے یہاں داخلہ لیا اور چار سال تک تعلیم حاصل کرتے رہے۔ انہیں اپنے زمانۂ طالب علمی میں پروفیسر آرنلڈ کی رہنمائی حاصل ہوگئی تھی جس کی بدولت علامہ اقبال کا ذہنی افق وسیع ہوا اور انہوں نے دنیا بھر کے فلسفیوں، مفکرین اور دانشوروں کے افکار اور شاعری کا مطالعہ کیا۔ بطور خاص علامہ اقبال نے مولانا روم کی مثنوی اور شعری دیوان کو حرزِ جان بناکر اس سے رہنمائی حاصل کی اور مولانا روم کے افکار کی روشنی میں ملت اسلامیہ کو بیدار کیا۔
گورنمنٹ کالج کے نامور پرنسپلز پروفیسر جی ڈی سوندھی پہلے ہندوستانی تھے جنہیں گورنمنٹ کالج کا پرنسپل مقرر کیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد پروفیسر احمد شاہ پطرس بخاری، پروفیسر یو کرامت، پروفیسر سراج الدین، قاضی محمد اسلم، خواجہ منظور حسین، ڈاکٹر سید نذیر احمد، پروفیسر ایم رشید، اشفاق علی خاں، ایم اے خان، ڈاکٹر محمد اجمل، پروفیسر صدیق کلیم، فضا الرحمان خان، ڈاکٹر عبدالمجید اعوان اور ڈاکٹڑ خالد آفتاب گورنمنٹ کالج کی سربراہی کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ ملنے کے بعد ڈاکٹر خالد آفتاب پہلے وائس چانسلر رہے، ان کے بعد پروفیسر ڈاکٹر اکرام الحق، پروفیسر ڈاکٹر محمد خلیق الرحمان نے بطور وائس چانسلر اس یونیورسٹی کے معیار کو بڑھانے کے لئے شبانہ روز کاوشیں کیں۔ حال ہی میں پروفیسر ڈاکٹر حسن امیر شاہ کو جی۔ سی۔ یو کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا ہے۔ وہ ملکی سطح پر ایک نامور ماہر طبیعات اور ماہر تعلیم کی حیثیت سے معروف ہیں اور حکومت پاکستان کی طرف سے ستارۂ امتیاز کا اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔ ڈاکٹر حسن امیر شاہ نے 26 اگست 2015ء کو بطور وائس چانسلر اپنے عہدے کا چارج سنبھالا۔اپنے آفس میں ایک ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ وہ نصابی سرگرمیوں کے فروغ پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں اور ایم فل، پی ایچ ڈی کے سکالرز کے لیے خصوصی رہنمائی کا اہتمام کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر حسن اے شاہ نے کہا کہ یونیورسٹی کے طلبا کی اخلاقی تربیت بھی بے حد ضروری ہے اور انہیں عملی زندگی میں تحمل اور برداشت سے کام لینا سکھایا جانا چاہئے۔ جب تک قوم میں تحمل اور برداشت نہیں ہوگی، مسائل حل نہیں ہوسکیں گے۔
ڈاکٹر حسن اے شاہ نے بتایا کہ یونیورسٹی میں جگہ کی قلت ایک مسئلہ ہے۔ انہوں نے سینئر فیکلٹی کے تقرر کیلئے اقدامات شروع کئے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال شاہد کو ڈین فیکلٹی آف اورینٹل لرننگ و اسلامک سٹڈیز مقرر کیا گیا ہے۔ اسی طرح وزیٹنگ پروفیسر اور ریٹائرڈ پروفیسرز کو بھی تدریسی ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سکول آف میتھی میٹکس میں پی ایچ ڈی اساتذہ کی کمی کو پورا کیا گیا ہے۔ خواتین اساتذہ کیلئے اہتمام کیا گیا ہے کہ ڈے کیئر سنٹر بنایا جائے۔ اسی طرح ریسرچ کے غیر فعال اور غیر متحرک ادارے کوبھی ازسرنو متحرک اور فعال کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی میں قدیم روایات کے ساتھ ساتھ نئی اعلیٰ روایات کو بھی فروغ دیا جائے گا۔
جی سی یونیورسٹی سے وابستہ شخصیات گزشتہ 151 سال کے دوران ایسی ہزاروں لاکھوں شخصیات گورنمنٹ کالج اور جی سی یو سے وابستہ رہی ہیں جنہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں ایک نام اور مقام پیدا کیا۔ ان شخصیات میں علامہ اقبالؒ ، فیض احمد فیض، مولانا محمد حسین آزاد، پطرس بخاری، حفیظ ہوشیار پوری، ناصر کاظمی، صوفی غلام مصطفی تبسم، خاں صاحب، قاضی فضل حق، ڈاکٹر وحید قریشی، پروفیسر محمد منور، مشکور حسین یاد، صابر لودھی، ڈاکٹر سید رضی واسطی، عبدالرؤف انجم، میرزا ریاض، ڈاکٹر سلیم اختر، پروفیسر ایم اے عظیم، ڈاکٹر حامد خان حامد، ڈاکٹر آغا یمین خاں، پروفیسر ظہیر احمد صدیقی، ڈاکٹر امتیاز احمد چیمہ، اظہر علی رضوی، ڈاکٹر صفدر محمود، ڈاکٹر عبدالحمید خیال، پروفیسر خالد مسعود صدیقی، شیر محمد گریوال، نور محمد ملک، سجاد حیدر، میرزا مقبول بیگ بدخشانی، ڈاکٹر ظہورالدین احمد، ڈاکٹر محمد اقبال شاہ، پروفیسر خواجہ محمد سعید، پروفیسر شاہد حسین، پروفیسر امتیاز احمد سعید، سعید عثمان ملک، ڈاکٹر طاہر کامران، پروفیسر غلام الثقلین نقوی، پروفیسر ارشاد حسین نقوی جیسے بے شمار اعلیٰ پائے کے اساتذہ کرام مختلف ادوار میں یہاں تدریسی فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں۔ انہی اساتذہ میں ڈاکٹر سید معین الرحمان، ڈاکٹر وحید قریشی، پروفیسر سہیل احمد خان، ڈاکٹر سعادت سعید، اصغر ندیم سید، طارق فارانی، پروفیسر توقیر احمد شیخ اور قاضی آفاق حسین جیسے معروف اساتذہ بھی قابل ذکر ہیں۔ پروفیسر صابر لودھی، ڈاکٹرنیر صمدانی، ڈاکٹر سعادت حسن سعید، ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی، پروفیسر صدیق اعوان، ڈاکٹر اقصیٰ، ڈاکٹر بابر نسیم آسی، ڈاکٹر خالد منظور بٹ، مجلہ راوی گزٹ اور کالج کی دیگر علمی و ادبی سرگرمیوں کی سرپرستی اور نگرانی کرتے رہے ہیں۔
اولڈ راوینز
اس تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل طلباء کو اولڈ راوینز کہا جاتا ہے، ان کی تعداد لاکھوں تک ہے لیکن جن شخصیات نے آسمان شہرت پر ستارے بن کر چمکنا اور ہر شعبہ زندگی میں نام اور مقام پیدا کرنا سکھایا۔ ان میں نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام، پطرس بخاری، فیض احمد فیض، ناصر کاظمی، حفیظ ہوشیارپوری، شہزاد احمد شہزاد، اشفاق احمد خاں، بانو قدسیہ، کشور ناہید، جسٹس ایس اے رحمان، جسٹس انورالحق، جسٹس نسیم حسن شاہ، ایس ایم ظفر، محمد حسین صوفی، مولانا جعفر قاسمی، ڈاکٹر مجید نظامی، عارف نظامی، قدرت اللہ چوہدری، اسد اللہ غالب، ڈاکٹر محمد اجمل نیازی، وحید رضا بھٹی، عمر مجیب شامی، شاہد رشید، اخلاق احمد تارڑ، جاوید محمود، اعتزاز احسن، وزیراعظم میاں محمد نوازشریف، یوسف رضا گیلانی، معین قریشی، ظفر اللہ جمالی، میاں محمد شہباز شریف، جسٹس خواجہ محمد شریف، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس سردار آصف سعید کھوسہ، طارق کھوسہ، ناصر محمود کھوسہ، نذیر سعید، عابد سعید، سہیل عامر، سید طاہر رضا نقوی، چودھری ظفر اقبال، اے زیڈ کے شیر دل، تسنیم نورانی، جاوید احمد قریشی، سلمان صدیق، مہر ظفر عباس لک، محمد رفیق حسن بٹ، ذوالفقار احمد چیمہ، شہباز احمد شیخ، عفت اللہ، چودھری جاوید سلیم، ڈاکٹر آصف سعید کرمانی، واصف ناگی، سید امین الحسنات شاہ، ڈاکٹر شہزاد قیصر، انیس اکرام فطرت، باصر کاظمی، جنرل راحیل شریف‘ بریگیڈیئر سفیان خاں، بریگیڈیئر شاہد مسعود، قدیر ہاشمی، عابد سعید، طاہر رضا نقوی، عرفان اقبال شیخ، جمشید اقبال شیخ الغرض ہر شعبہ زندگی کے لاتعداد اولڈ راوینز ہیں جو اس مادر علمی کی عظمت پر شاہد ہیں۔
جی۔ سی۔ یو میں طلبا و طالبات کی تعداد گیارہ ہزار کے قریب ہے جبکہ ہر شعبے میں اساتذہ کی ایک بڑی تعداد تدریسی فرائض سرانجام دے رہی ہے۔ یونیورسٹی میں تمام قابل ذکر مضامین میں ایم فل، پی ایچ ڈی، ایم اے، ایم ایس سی، بی ایس آنرز اور دیگر کورسز کا اجرا کیاگیا ہے۔ یونیورسٹی میں سینٹرل لائبریری اور پوسٹ گریجویٹ لائبریری میں لاکھوں کی تعداد میں کتب، انسائیکلو پیڈیاز، جرائد اور ہر طرح کا علمی و تدریسی مواد موجود ہے۔
یونیورسٹی کے چیف لائبریرین جناب عبدالوحید ہیں جنہوں نے مجلہ راوی کے تمام شماروں کو کمپیوٹر کے ذریعے آن لائن کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ وہ قائداعظم ہاسٹل کے سپرنٹنڈنٹ اور ایک اچھے محقق، نقاد اور ادیب بھی ہیں۔ اقبال ہاسٹل کے سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی جبکہ نیو ہاسٹل کے سپرنٹنڈنٹ خادم علی خاں ہیں۔ یونیورسٹی اور ہاسٹلز میں کیفے ٹیریاز، میس اور فروٹ شاپس بھی دستیاب ہیں۔ یونیورسٹی کی اپنی ٹرانسپورٹ ہے جس سے طلبا و طالبات کو ٹرانسپورٹ کی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں
پڑھائے جانے والے مضامین
اُردو زبان و ادب، اسلامیات اقتصادیات، الیکٹرانکس، انجینئرنگ، انگریزی زبان و ادب، ایجوکیشن، ایڈوانس فزکس، بائیو ٹیکنالوجی، باٹنی، پنجابی زبان وادب، سیاسیات، مطالعہ پاکستان، جرنلزم (صحافت) جغرافیہ، ریاضی، زوالجی سائیکالوجی، سوشیالوجی، شماریات، عربی زبان و ادب، فارسی زبان و ادب، فرانسی زبان، فزکس، فزیکل ایجوکیشن، فلسفہ، کلینکل سائیکالوجی، کمپیوٹر سائنس، کیمسٹری، قانون(لاء) تاریخ مینجمنٹ یہ تمام مضامین یونیورسٹی میں انٹرمیڈیٹ، گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کی سطح پر پڑھائے جاتے ہیں اور انہیں سے بیشتر مضامین میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر بھی متعارف ہو چکے ہیں۔
جی سی یو کے مختلف شعبے اور دفاتر
طلبا و طالبات کو معلومات فراہم کرنے اور دیگر سہولیات کے لئے مختلف دفاتر اور شعبے قائم کئے گئے ہیں، جن میں رجسٹرار آفس، کنٹرولر آفس ایگزامینیشن، ٹریژر آفس، آڈٹ آفس، لائبریری، انجینئرنگ سیل، ڈائریکٹر فے سیلٹیز آفس، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ آفس، سپورٹس، اکیڈمک پلاننگ، کوالٹی انہاسمنٹ سیل، پبلک ریلیشنز آفس، کمپیو سانس، چیف پراکٹر آفس، کمپیوٹر سائنس، میوزیکل سوسائٹی کے علاوہ نیو ہوسٹل، اقبال ہوسٹل، قائداعظم ہوسٹل اور گرلز ہوسٹل کے دفاتر ہمہ وقت طلبا و طالبات کو رہنمائی اور سہولیات فراہم کرتے ہیں۔
***

مزید :

ایڈیشن 2 -