شورش کاشمیری تجھے یاد کرے ہے زمانہ
رشید احمد صدیقی نے کہا تھا "شورش کاشمیری ابو الکلام کے طنطنہ قلم اور ظفر علی خان کے ہمہمہ انشاء کا وارث ہے۔ ”زمیندار“کی زبان، ظفر علی خان کی صحافت، عطاء اللہ شاہ بخاریؒکی خطابت اور آزاد کی نثر کے وارث کا نام تھا شورش کاشمیری۔سن کا تو علم نہیں، لیکن اتنا معلوم ہے کہ ان کے پر دادا سری نگر سے مہاراجا گلاب سنگھ کے عہد میں نقل مکانی کرکے امرت سر (پنجاب) میں آبسے تھے۔بعد میں ان کے دادا امیر بخش لاہور چلے آئے انہوں نے ایبک روڈ انار کلی پر ایک تنور لگایا، یہاں کشمیری باقر خانی اور قلچے بیچنے لگے اس کاروبار میں انہوں نے خوب نام کمایا۔امیر بخش کے دو بیٹے تھے، ایک کا نام نظام الدین تھا یہی شورش کاشمیری کے والد محترم تھے۔
عبدالکریم شورش 14اگست1917ء کو لاہور میں پیدا ہوئے انہوں نے دیو سماج ہائی سکول انار کلی میں تعلیم پائی۔ یہ زمانہ سائمن کمیشن کی ہندوستان میں آمد کا تھا۔کسی بھی ہندوستانی کو اس میں شامل نہ کرنے کی وجہ سے پور ا ملک شعلہ جوالہ بنا ہوا تھا،شہرشہر خفیہ اور شدت پسند جماعتیں قائم تھیں۔ تحریک آزادی کی رفتار تیز ہو گئی تھی، نوجوانوں پر ان حالات کا گہرا اثر تھا۔ لالہ لاجبت رائے کا دنیا سے اٹھ جانا،بھگت سنگھ کی موت، جلیانوالہ باغ کا واقعہ یہ حالات تھے جب شورش نے اپنی زندگی کو آزادی کی تحریک کے لئے وقف کر دیا۔ابتداء میں ایک ہندو دوست کے ساتھ مل کر ”بال بھارت سبھا“قائم کی۔ابتدائی عمر میں ہی وہ مولانا ظفر علی خان کے ”زمیندار“کے قاری بن گئے تھے، کیونکہ یہ اخبار ان کی دادی اماں پڑھا کرتی تھیں۔شورش نے پہلی تقریر مسجد شہید گنج کے ہنگامے کے دنوں میں 1935ء میں شاہی مسجد لاہور میں کی، جس پر وہ گرفتار ہوئے،مقدمہ چلا تین سال قید اور تین سو جرمانے کی سزا ہوئی۔ بعد میں تین ماہ کی قید کے بعد وہ رہا ہوگئے۔1935ء سے 1939ء تک ہر سال چند ماہ جیل میں جانا ان کا معمول بن گیا۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ 1944ء میں صرف 47سال کی عمر میں 9برس جیل میں گزار چکے تھے۔
شورش شروع میں ظفر علی خان سے متاثر تھے۔ چودھری افضل حق سے ملاقات اور مسجد شہید گنج کے واقعات نے ان کو بڑے بڑے مسلمان لیڈروں سے متنفر کر دیا۔فروری 1939ء میں وہ مجلس احرار میں شامل ہو گئے تھے۔37مئی 1945ء کو ان کی انبالہ میں اپنی ماموں زاد سے شادی ہو ئی، دلہن لے کر لاہور آئے تو ولیمہ میں دوسرے احباب کے ساتھ مولانا ظفر علی خان بھی موجود تھے۔ انہوں نے ارتجالاً تین اشعار کا یہ قطعہ کہا:
گجردم لے کے قاصد یہ مسرت زا پیام آیا
کہ انبالہ سے شورش پھنا ناسی اک دلہن لایا
میرے دل سے دعا نکلی کہ اس جوڑے کے سر پر
نبی کی رحمتوں کا اور خدا کے فضل کا سایہ
مبارک ہو تمہیں شورش یہ تیری خانہ آبادی
ترے گھر آ گئی اک اور انگریزوں کی فریادی
عبد الکریم کے معاشی حالات بہتر نہ تھے شادی کے بعد انہوں نے مختلف ناشروں کے ہاں اجرت پر کام کرنا شروع کیا،مسودوں کی تصحیح، ترتیب، نظرثانی کے علاوہ خود بھی لکھتے اس طرح چار پانچ سو روپیہ حاصل کرلیتے۔اس کے بعد پر بودھ چندرجو کہ مشہور کانگرسی لیڈر لالہ پنڈی داس کے داماد تھے کے ساتھ مل کر ایک پبلشنگ ہاؤس قائم کیا۔مولانا آزاد کی شہرہ آفاق کتاب ”غبار خاطر“کا دوسرا ایڈیشن انہوں نے شائع کیا اس ادارہ کا شیرازہ تقسیم کے بعد بکھر کر رہ گیا۔
بد قسمتی سے شورش تعلیم جاری نہ رکھ سکے، لیکن قید بند کے ایام میں اپنے عہد کے مشہور مشاہیر علم ادب کی رفاقت، صحبت،اور وسیع مطالعے نے ان کو اس قابل بنا دیا تھا کہ اپنے عہد کے تمام علوم پر نہ صرف انہوں نے اپنی گرفت مضبوط کر لی تھی،بلکہ بعض علوم میں ان کی حیثیت انسائیکلوپیڈیا کی سی تھی۔انہوں نے مولانا آزاد سے نثر کا پُرشکوہ انداز سیکھا، مولانا ظفر علی خان کی تتبع میں صحافتی شاعری اختیار کی اور سید عطا ء اللہ شاہ بخاری کی پیروی میں وہ شعلہ بیان خطیب بن گئے انہوں نے اپنے تئیں مولانا آزاد کی مصنوعی شاگردی کا دعویٰ بھی کیا ہے جیسا کہ ان کا یہ شعر ہے
کسی ذلیل قلم کار سے تعلق کیا!
خدا کا شکر ہے، تلمیذ بوالکلام ہوں میں
اس بات سے کوئی صاحب علم انکار نہیں کرسکتا کہ ظفر علی خان موضوعاتی ہنگامی شاعری کے امام تھے شورش اس میدان میں ان کے ہم قدم رہے حد یہ کہ ظفر علی خان کو کہنا ہی پڑا
شورش سے مرا رشتہ ہے اور وہ ازلی ہے
میں وقت کا رستم ہوں تو وہ ثانی سہراب
وہ ابتدا میں احسان دانش اور بعد میں ظفر علی خان اور تاجور نجیب آبادی سے بھی اصلاح کلام لیتے رہے۔
احسان نے اپنی سوانح عمری ”جہان دانش“میں لکھا ہے کہ شورش پہلے ”الفت“تخلص کرتے تھے ”شورش“ تخلص احسان دانش ہی کی دین تھی۔زندگی کے آخری لمحے تک وہ اپنا کلام احسان کو دکھلاتے رہے۔ 1944ء میں جیل سے رہائی اور گھر پر نظر بندی کے ایام میں انہوں نے ”اسرار بصری“کے قلمی نام سے بھی لکھا۔
شورش کشمیری نظم،نثر کے میدان میں ظفر علی خان کے بعد اردو کے سب سے بڑے قلم کار تھے یہ ان کی خوش بختی تھی کہ زندگی ہی میں ان کا قلمی سرمایہ تقریباًشائع ہوگیا تھا۔ان کی سوانح عمری صرف ایک کتاب پر مشتمل نہیں، بلکہ چار کتابیں مل کر ان کی خود نوشت سوانح عمری کو مکمل کرتیں ہیں۔
شورش نے سوئے حرم کی طرف مبارک سفر کیا تو انتہائی محبت و عشق میں ڈوبے ہوئے الفاظ کے ساتھ انہوں نے ”شب جائے کی من بودم“ میں اس سفر کو تحریر کیا۔کلام کے تین مجموعے ”گفتی ناگفتی“ ”چہ قلندرانہ گفتم“ ”الجہاد الجہاد“ شائع ہو چکے ہیں۔ شورش نے اپنے زمانے کے مشاہیر کے تاثراتی خاکے بھی تحریر کیے جو کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں جن میں ”حسین شہید سہروردی“ ”سید عطاء اللہ شاہ بخاری“ ”میاں افتخارالدین“ اور ”حمید نظامی“ کی اہمیت علمی اور ادبی حلقوں میں مسلم رہی ہے۔انہوں نے علامہ اقبال کے خطبات، مقالات، ارشادات اور خطوط کو ”فیضان اقبال“ کے نام سے شائع کیا ہے۔ ان کی کتاب ”اس بازار میں“ ایک تحقیقی کتاب ہے جس میں موصوف نے خود چل پھر کر بازارِ حسن میں موجود نوح انسانی کی زندگی کے خفیہ گوشوں کو مہارت کے ساتھ بے نقاب کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
ان کی صحت خراب رہنے لگی تھی 22اکتوبر 1975ء کو تبخیر معدہ کا شدید دوری پڑا جس پر بغرض علاج میو ہسپتال میں داخل ہو گئے پہلے صحت کچھ بحال ہوئی پھر 24اکتوبر 1975ء بروز جمعہ شب کو اچانک صحت بگڑ گئی 25اکتوبر 1975ء ساڑھے بارہ بجے شب علم و عمل کا یہ خورشید حرکت قلب بند ہونے سے اس جہان سے ابد ی جہان سدہار گیا۔ جنازہ بروز ہفتہ 25اکتوبر شام کو اٹھا میانی صاحب کے تاریخی قبرستان میں سپرد خاک کر دیئے گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
رئیس امروہی نے تاریخ لکھی ہے:
یاد شورش میں ہے اشکوں کی تراوش اے دل
اور سینے میں غم ہجر سے سوزش،اے دل
سوزش غم میں کہاں فکر کی کاوش،اے دل
”حاصل شورش غم“ ہے غم سوزش دل
1975ء
٭٭٭٭٭