ٹیکس نادہندگان کے خلاف کارروائی

ٹیکس نادہندگان کے خلاف کارروائی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملک کی معاشی صورتحال پر ہونے والے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میاں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ٹیکس نادہندگان کے خلاف کارروائیوں میں تیزی لائی جائے، ملکی معیشت کی ترقی تب ہی ممکن ہے جب سب اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کریں،تمام شعبہ جات کو ٹیکس ادا کرکے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہ اجلاس وزیراعظم کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں وزارتِ خزانہ نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے وفد سے ہونے والی ملاقاتوں کے علاوہ معاشی اعشاریوں اور مہنگائی کی موجودہ صورتحال پر بریفنگ دی۔ شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ ٹیکس چوری اور اِس میں معاونت کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر رہیں گے، ملک معاشی استحکام کی جانب گامزن ہے، معیشت کی ترقی کے لئے اقدامات کی بدولت سٹاک مارکیٹ میں تیزی کا رجحان ہے،بیرونی سرمایہ کار حکومتی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں،مہنگائی کی شرح 38 فیصد سے کم ہو کر سات فیصد اور شرح سود 22فیصد سے کم ہو کر 15 فیصد پر آ گئی ہے،اِس سے ملک میں کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔اِس کے ساتھ ساتھ ملکی برآمدات میں اضافہ اور ریکارڈ ترسیلاتِ زر کی بدولت ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے،اُنہوں نے عوامی ریلیف کو ہر دوسرے اقدام پر ترجیح دینے کی ہدایت کی اور زرعی شعبے میں اصلاحات کے حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب اورصوبائی حکومت کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا۔وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بھی چند روز قبل ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ٹیکس اہداف پورے کرنے پر بھرپور زور دیا تھا،اُن کا کہنا تھا کہ 12 ہزار 970 ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف پورا کیا جائے گا، ٹیکس وصولی کے حوالے سے انفورسمنٹ اور انتظامی اقدامات کو بہتر بنایا جائے گا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے پرائمری سرپلس کا ہدف کامیابی سے پورا کیا جس کی وجہ سے عالمی مالیاتی اداروں کا پاکستان پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔اُنہوں نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کا ذکر کیا اور یہ بھی بتایا کہ آئی ایم ایف موجودہ اقدامات سے نہ صرف مطمئن ہے بلکہ حیران بھی ہے کہ خسارہ 14 ماہ میں سرپلس میں کیسے تبدیل ہو گیا۔

واضح رہے کہ پہلی سہ ماہی میں ٹیکس شارٹ فال کی خبریں سامنے آ رہی تھیں، کہا جا رہا تھا کہ حکومت ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے، لگ بھگ پونے دو سو ارب کم جمع ہوئے تھے اور دوسری سہ ماہی تک یہ کمی سوا دو سو ارب تک پہنچ سکتی ہے اِسی لئے شاید حکومت کو منی بجٹ لانا پڑے لیکن اب پاکستان نے آئی ایم ایف کو معیشت کے بہتر اعشاریے دِکھا کر اِس بات پر قائل کر لیا ہے کہ باقی ماندہ تین سہ ماہیوں میں ٹیکس وصولی کا ہدف پورا کر لیا جائے گا،اِسی لئے اب ممکنہ منی بجٹ کی خبریں دم توڑ گئی ہیں۔آئی ایم ایف کو زرعی ٹیکس کے نفاذ اور بیرونی فنانسنگ کے انتظامات کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ادارے کا وفد قرض پروگرام کے تحت پہلے اقتصادی جائزے کے لئے فروری یا مارچ میں دوبارہ پاکستان آئے گا تب تک اِسے تمام مطلوبہ اہداف پورے کرنے ہیں۔بتایا جا رہا ہے کہ حکومت ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لئے تمام فیکٹریوں اور کارخانوں میں پیداوار کی نگرانی  کے لئے ”ڈیجیٹل آئی“ کے نام سے سافٹ ویئر متعارف کرانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔

محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان میں زراعت اور لائیو سٹاک سے دو ہزار ارب روپے سے زائد کی ٹیکس آمدن حاصل کرنے کی صلاحیت موجود ہے لیکن وصولی نہ ہونے کے برابر ہے، دراصل حکومتیں غیر مقبول فیصلے لینے سے گریز کرتی ہیں، آسان ترین حل پیٹرولیم لیوی اورسیلز ٹیکس میں اضافے کے ساتھ پہلے سے ہی ٹیکس دینے والے طبقے پر مزید بوجھ لاد دینا ہوتا ہے۔یہ طریقہ کار عارضی طور پر تو فائدہ مند ہو سکتا ہے لیکن مسئلے کا مستقل حل ہرگز نہیں ہے۔ اِس سے کسی کو انکار نہیں کہ طویل مدتی بہتری کے لئے معیشت میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ ٹیکس چوری جیسے معاملات پر قابو پایا جا سکے،  ٹیکس کی شرح بڑھانے کے بجائے ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے، اُن تمام شعبوں پر ٹیکس عائد کیا جائے جو ٹیکس ادا نہیں کرتے،سالانہ سینکڑوں ارب روپے کا خون چوسنے والے اداروں کی نجکاری کی جائے اور حکومتی اخراجات کم کر کے ”سمارٹ گورنمنٹ“ کے تصور کو عملی جامہ پہنایا جائے۔معیشت کو اتنا تندرست و توانا ہونا چاہئے کہ سیاسی عدم استحکام سمیت دیگر عوامل اِس پر اثرا انداز نہ ہو سکیں۔ دنیا کی مشہور کریڈٹ ریٹنگ کمپنی موڈیز انویسٹرز سروسز (موڈیز) نے اپنی رپورٹ ”2025ء آؤٹ لُک“ میں کہا ہے کہ اگلے سال پاکستان میں سود کی لاگت مجموعی اخراجات کا قریباً 40 فیصد ہوگی جو چند سال قبل تک لگ بھگ ایک چوتھائی تھی۔ موڈیز نے رپورٹ میں مزید کہا کہ نئی کثیر الجہتی فنانسنگ کی شرائط پوری کرنے کی وجہ سے سماجی خطرات میں اضافہ ہو سکتا ہے جبکہ 2025ء میں کئی ممالک کو یوروبانڈز کی ادائیگیاں ایسی سطح تک پہنچ سکتی ہیں جو اُن کے قابل ِ استعمال بین الاقوامی ریزروز کے 10 فیصد سے زیادہ ہوں گی جس سے اُن معیشتوں پر مالی دباؤ برقرار رہے گا۔

اب اِس وقت ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ حکومتی اقدامات سے معیشت درست سمت پر گامزن ہے،اس میں استحکام آرہا ہے لیکن ادائیگیوں کے دباؤ سے نکلنے کے لئے پاکستان کو قرض لیے بغیر معیشت کا حجم اُس سطح تک لے جانا پڑے گا جہاں آمدن اور اخراجات کا توازن قائم ہو اور معاشی ترقی بڑھانے کے لئے مطلوبہ فنانسنگ بھی موجود ہو۔ اخراجات میں کمی سے کسی حد تک تو مالیاتی گنجائش پیدا کی جا سکتی ہے تاہم فنانسنگ کی مطلوبہ سطح تک پہنچنے کے لئے قرض بڑھائے بغیر آمدن میں اضافہ کرنا ہو گا جس کے لئے زیادہ سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری ملک میں لانا ہو گی،ظاہر ہے سرمایہ کاری وہاں ہوتی ہے جہاں کاروبار کے لئے حالات موافق ہوں اور سازگار ماحول فراہم کرنے کے لئے ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہو گا۔وزیراعظم کی اِس بات سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا کہ ملکی معیشت میں تب ہی ترقی آئے گی جب ہر کوئی اپنی ذمہ داری پوری کرے گا،قرض لے کر معاشی معاملات کو سنبھالنا دیرپا حل نہیں ہے،اِس سے عارضی طور پر سکون کا سانس تو لیا جا سکتا ہے لیکن مستقبل بنیادوں پر فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکتا۔ملک میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کی ازحد ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حکومت پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کو یہ اعتماد دلائے کہ عوام کا پیسہ انہی کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو رہا ہے۔جب عام آدمی کو تعلیم و صحت جیسی بنیادی سہولیات حاصل نہیں ہوتیں، کھانے کو سبزی بھی دستیاب نہیں ہوتی تو اس کا اعتماد ڈانواں ڈول ہو جاتا ہے،اسے لگتا ہے کہ اس کا دیا ٹیکس صرف حکمرانوں کی آسائشوں پر خرچ ہو رہا ہے۔ایسے میں حکومت پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کا اعتماد بحال کرے اور جو اشرافیہ ٹیکس چوری کر کے عام آدمی پر بوجھ مزید بڑھا رہے ہیں وہ بھی اپنی صفوں کو درست کرنے کا اہتمام کریں۔دنیا بھر میں بھاری ٹیکس عائد کئے جاتے ہیں اور لوگ بھرتے بھی ہیں،اِسی لئے وہ قومیں مہذب اور ترقی یافتہ کہلاتی ہیں،پاکستان میں بھی اِسی سوچ کو پروان چڑھاناہے۔

مزید :

رائے -اداریہ -