قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 92
لیہ کے اس مشاعرے میں جاتے ہوئے راستے میں ایک لطیفہ ہوا۔ ظہیر کا شمیری اور مذاق میں حبیب جالب پر سوار تھے۔ یہ مذاق جاری تھا کہ راستے میں ایک نہر آئی۔ شام کا وقت تھا سب نے کہا کہ چلو اس نہر پر تھوڑی دیر رکھ کر ریسٹ کرتے ہیں۔ جالب نے کہا’’ دوستو بات سنو! اور ظہیر صاحب آپ بھی سنئے‘‘ پھر کہنے لگے ’’ سب لوگ ہاتھ اٹھا کر دعا کریں کہ میری تمنا پوری ہو‘‘ سب نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ یا خدا اس کی تمنا پوری کری۔ پھر سب نے پوچھا کہ تمہاری تمنا کیا ہے ۔ تو جالب کہنے لگے کہ میری تمنا یہ ہے کہ زندگی میں ایسے کئی دن آئیں۔ اسی طرح شام کا سہانا وقت ہو، دریا کا خوبصورت کنارہ ہو سبزہ زار ہو، پھول کھلے ہوں ، پرندے چہچہارہے ہوں اور ہم سب دوست بیٹھے ہوں لیکن یہ ظہیر کاشمیری موجود نہ ہو۔ ان کے اس مذاق پر ایک قہقہہ بلند ہوا۔ لیکن ظہیر کاشمیری کی کیفیت دیکھنے والی تھی۔ ہر چند کہ وہ بہت زندہ دل آدمی ہیں لیکن لمحاتی طور پر ان کی کیفیت ذرا مختلف ہو گئی۔ پھر اس کے فوراً ہی بعد قہقہوں میں شامل ہو گئے۔ اور یوں جالب صاحب نے ظہیر کاشمیری سے بہت سے مذاقوں کا بدلہ ایک ہی مذاق میں لے لیا۔
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 91 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
شاعر سربراہ ادارہ
میں پہلے کہیں عرض کر چکا ہوں کہ میری ادبی تربیت امام باڑے میں ہوئی ہے اور مذہبی تربیت مسجد اہل حدیث میں۔ میرا بچپن زیادہ تر ہمارے گھر کے قریب واقع مسجد میں گزرا ہے۔ وہاں پر جو مسئلے بیان ہوتے ہیں مجھ پر ان کا اثر یہ تھا کہ میں ظلم ہوتے ہوئے نہیں دیکھتا تھا خواہ یہ ظلم اپنے اوپر ہو یا کسی اور کے اوپر ۔ اسی طرح امام باڑے میں بھی حضرت امام حسینؓ کی شہادت اور کربلا کے واقعات اور یزید کے ظلم و ستم کے واقعات سے جو نتیجہ اخذ ہوتا ہے وہ بھی یہی تھا کہ ظلم خواہ کسی پر ہو نہیں ہونا چاہیے۔ یہ تو بڑے واقعات ہیں ان کا میرے چھوٹے سے ذہن پر اثریوں ہوا کہ اگر کوئی زور آور لڑکا کسی کمزور لڑکے کو مار رہا ہو تو تو میرا اس کمزور لڑکے سے تعلق ہو نہ ہو میں اس کی طرف سے بول پڑتا تھا اور اس طاقتور لڑکے سے جنگ مول لے لیتا تھا۔
آگے چل کر جب مجھے رائٹرز گلڈ کی سیکرٹری شپ ملی تو اس زمانے میں مجھے ادیبوں کی مدد کرنے کا موقع ملا۔ جب کہیں کسی ادیب کے ساتھ زیادتی ہوتی تو میں بول اٹھتا ۔ ریڈیو پاکستان سے ایک فرمائشی پروگرام اس وقت بھی چلتا تھا جب میں رائٹرز گلڈ کا سیکرٹری نہیں تھا ۔ اس پروگرام میں درجنوں فرمائش کرنے والے کے نام نشر کئے جاتے تھے اور اس کے بعد گلوکار اور موسیقار کا نام بتا کر نغمہ سنا دیا جاتا تھا لیکن شاعر کا نام نہیں آتا تھا کہ یہ گیت کس کا لکھا ہوا ہے۔ ان کے اس سلوک کی وجہ سے مجھے بہت غصہ آتا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ پورے گانے کی بنیاد جس چیز پر ہے وہ شاعری ہے۔ کیونکہ پہلے شاعر نے گیت لکھا تو پھر اس کی دھن بنی، اسے گایا گیا اور سامعین نے اس کی فرمائش کی لیکن شاعر کا نام ہی نہیں دیا جارہا۔
اس سلسلے میں پہلے تو میں مقامی طور پر جھگڑا کرتا رہا۔ پھر اس کے بعد میں سنٹر سے بھی کوشش کرتا رہا۔ اس دوران دو تین ڈائریکٹر جنرل بھی تبدیل ہوئے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہو رہی تھی۔ ان دنوں ریڈیو کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوتا تھا۔ میں دوبار پہلے بھی اپنے خرچ پر اسی مسئلے کیلئے کراچی جا چکا تھا۔ جب میں تیسری بار وہاں گیا تو ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر رشید صاحب تھے انہی نے میرے خط کے جواب میں مجھے وہاں بلوایا تھا۔ میں وہاں گیا تو انہوں نے اپنے متعلقہ اہلکار ان کو بلوا کر ان کے ساتھ میری میٹنگ کروائی اور ان سے پوچھا کہ قتیل صاحب کو یہ بتائیں کہ فرمائشی فلمی گانے کے ساتھ شاعر کا نام کیوں نہیں آتا ۔ وہ کہنے لگے کہ وقت کا مسئلہ ہے کیونکہ ہمارے پاس وقت بہت کم ہوتا ہے ۔ مجھے بے حد غصہ آیا۔ اس زمانے میں میں غصے سے آپے سے باہر ہو جایا کرتا تھا۔ چنانچہ میں نے برا بھلا کہہ کر کہا کہ آپ فرمائش کرنے والوں کے تو پچیس نام سنا دیتے ہیں جن کا اس نغمے کی تخلیق کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن جو شخص اس نغمے کی تخلیق کرتا ہے اس کا یک نام نہیں لیتے اور کہتے ہیں کہ وقت کم ہوتا ہے ۔ اگر آپ فرمائش کرنے والوں میں سے صرف ایک نام کم کرلیں تو شاعر کا نام آجاتا ہے ۔ بلکہ میں نے یہاں تک کہا کہ وقت کم ہونے کی دلیل دیتے ہوئے آپ مجھے بڑے احمق انسان نظر آرہے ہیں اور آپ کو ایسی دلیل دیتے ہوئے شرم نہیں آتی۔ ڈائریکٹر جنرل میرا نکتہ سمجھ گئے تھے ۔ انہوں نے مجھے ٹھنڈا کیا اور پھر خود ان پر گرم ہو گئے۔ اور کہنے لگے کہ قتیل صاحب اس مسئلہ کیلئے پچھلے دو تین سال سے جدوجہد کر رہے ہیں اور کیا آپ لوگوں نے اس چھوٹی سی بات کیلئے اس معاملے کو لٹکا رکھا تھا۔ انہوں نے اسی دن تمام ریڈیو سٹیشنوں کو پالیسی کے طور پر خط لکھا کہ آئندہ نغمے کے ساتھ شاعر کا نام ضرور دیا کریں۔ چنانچہ اس کے بعد فلمی فرمائش کے ساتھ شاعر کا نام بھی آنے لگا۔
یہ خبر شمع دہلی میں شائع ہوئی جو اس وقت پاکستان کو بھی کوریج دیتا تھا۔ ساحر لدھیانوی بھی انڈیا میں اس مسئلہ کے لیے کوشاں تھے کیونکہ وہاں بھی یہ زیادتی ہورہی تھی۔ ساحر لدھیانوی نے ’’شمع ‘‘ میں یہ خبر پڑھی تو انہوں نے وہاں بھی اس خبر کا حوالہ دے کر جنگ لڑی اور بالآخر انڈیا میں بھی فلمی گانوں کی فرمائش کے ساتھ شاعر کا نام آنا شروع ہو گیا۔ اور پھر ’’شمع ‘‘ نے اسی حوالے سے اپنا اداریہ بھی لکھا تھا۔ اس وقت شمع میں اداریہ بھی آتا تھا۔
وہ مسئلہ تو ہم نے اس وقت حل کروا دیا تھا لیکن یہ الگ بات ہے کہ وہ لوگ جو حرام کی تنخواہیں کھاتے ہیں اب بھی شاعر کا نام چھوڑ جاتے ہیں۔ اس سے ایک تو یہ نقصان ہوتا ہے کہ ریڈیو کی اپنی وضع کردہ پالیسی کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور دوسرا شاید ریڈیو والوں کو پتہ نہیں ہے کہ وہ کاپی رائٹ ایکٹ کی بھی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اگر کوئی شاعران پر مقدمہ کر دے تو وہ مواخذے کے لائق ہیں کیونکہ اس ایکٹ کے تحت مصنف کے نام کا حوالہ دیئے بغیر اس کی کوئی بھی چیز استعمال نہیں کی جا سکتی۔ تیسرا نقصان یہ ہے کہ نام نہ لینے کی وجہ سے وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ رائلٹی رجسٹر میں بھی شاعر کے نام کا اندراج ہونا ہوتا ہے اور اگر اس رجسٹر میں اس کا نام درج نہیں ہو گا تو وہ اپنی رائلٹی سے بھی محروم ہو جائے گا۔ یہ سلسلہ اب بھی چل رہا ہے لیکن میں اب اس سلسلے میں تھک چکا ہوں چونکہ میں نے اپنی برادری کے لیے ساری زندگی جو جدوجہد کی ہے اس میں دیکھا کہ جب میں نے شاعر کا نام دلوانے والا معرکہ سر کیا تو مجھے تو ایک بھی مبارکباد نہیں آئی تھی۔اور جب میں نے ان جھگڑوں سے بھی کئی بار ریڈیو کا بائیکاٹ کیا یا ریڈیو نے میرے نغموں پر پابندی لگائی تو کہیں سے بھی کوئی میری ہمدردی کیلئے آگے نہیں بڑھا ۔اگر زیادہ سے زیادہ کسی نے کہا تو یہ کہ اگر ملاقات ہوئی تو زبانی طور پر واہ واہ کر دی اور کہا کہ آپ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ اب بھی ایسی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں لیکن اب میں اگر زیادہ سے زیادہ کچھ کرتا ہوں تو خود بائیکاٹ کر دیتا ہوں۔
برادری کے لئے لڑنے کی میری عادت ایسی ہے کہ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کبھی ساتھ ان کا نام نہیں آتا تھا جبکہ پروڈیوسر کا نام ضرور آتا تھا۔ اس کے علاوہ گلوکار کا نام بھی آجاتا تھا جو خود سکرین پر نظر بھی آرہا ہوتا تھا لیکن شاعر کا نام نہیں دیا جاتا تھا۔ اس سلسلے میں متعدد بار اس وقت کے منیجنگ ڈائریکٹر ضیاء جالندھری سے بات کی جو اتفاق سے شاعر بھی تھے۔
میرا تو تجربہ یہ ہے کہ جس ادارے کا سربراہ شاعر ہو گا اور وہ اندرونی طور پر یہ محسوس کر رہا ہو کہ اسے جتنی شہرت ملنی چاہئے وہ نہیں ملی تو وہ انتقام پر اتر آئے گا اور اس کا بدلہ دوسرے شاعروں سے لے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضرت ضیاء جالندھری شاعروں سے بدلہ تو لے ہی رہے تھے کیوں نہ ان کے گیتوں کے ساتھ ان کے نام نہیں دیتے تھے لیکن انہوں نے میرے ساتھ یہ کیا کہ ٹیلیفون پر یہ حکم صادر کر دیا کہ میرے گیتوں پر بین ہے۔ جب مجھے اس بات کا پتہ چلا تو میں نے پریس کانفرنس کر کے ان کی باتوں کا جواب دیا۔ جس کے بعد انہوں نے پابندی اٹھا دی۔ میں نے دلیل کے طور پر پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ شاعروں کے ساتھ زیادتی یوں ہو رہی ہے کہ اگر کسی اور کا نغمہ ہو تو اس کے ساتھ شاعر کا نام نہیں آتا لیکن جب حضرت ضیاء جالندھری اہتمام کے ساتھ اپنا نغمہ ٹیلی کاسٹ کرواتے ہیں تو نغمہ شروع ہونے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی ان کا نام دیا جاتا ہے۔ میری اس پریس کانفرنس کے بعد مجھ سے پابندی تو اٹھ گئی لیکن ان ضیاء صاحب کی کچھ ایسی سنی گئی کہ تقریباً اسی افراد نے ایک معذرت نامے پر دستخط کئے جس میں مارشل لاء حکومت سے کہا گیا تھا کہ وہ سندھ میں تشدد بند کرتے ہیں ایسا نہ ہو کہ وہاں مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا ہو جائیں ۔
ادھر اس معذرت نامے کا چھپنا تھا ادھر ضیاء صاحب کو موقع ملا اور انہوں نے مجھے اور باقی لوگوں کو ٹیلیویژن پر بین کر دیا۔ اور میرے سلسلے میں تو انہوں نے خاص طور پر کہہ دیا کہ جب تک میں ٹی وی پر ہوں قتیل شفائی نہیں آسکتا۔ انہوں نے میرے خلاف یہ سب کچھ ذاتی سطح پر لے کر اسے انا کا مسئلہ بنا لیا اور یہ نہیں سوچا کہ یہ ایک جائز بات ہے اور اسے مان لینا چاہیے۔ کیونکہ وہ بھی ماشاء اللہ شاعر تھے اور میں اسی لیے کہتا ہوں کہ خدا کسی شاعر کو کسی محکمے کا سربراہ نہ بنائے۔(جاری ہے )
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 93 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں