آئیے زمین کو بچائیں!  

 آئیے زمین کو بچائیں!  
 آئیے زمین کو بچائیں!  

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہیں، اس کے محض دو دن بعد ارتھ ڈے (Earth Day) یعنی یوم الارض منایا جائے گا۔ یہ دن منانے کا مقصد اس کرۂ ارض پر ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا اور ادراک بڑھانا ہے۔ یہ دن کب منانا شروع کیا گیا اور اب تک ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کے حوالے سے کیا کیا جا سکا ہے، اس بارے میں بہت سی معلومات آپ کو انٹرنیٹ اور رسالوں میں مل جائیں گی۔ پیشِ نظر سوال یہ کہ اپنی اس زمین کو اپنے لئے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ بنانے کے سلسلے میں ہم کیا کر رہے ہیں اور مزید کیا کیا جا سکتا ہے؟


عالمی سطح پر اس امر کا ادراک تو پایا جاتا ہے کہ اگر روئے ارض کو موجودہ رفتار سے آلودہ کیا جاتا رہا تو اگلی ایک دو صدیوں میں یہ جگہ انسانی بسیرے کے قابل نہیں رہے گی، لیکن یہ احساس نہیں ہے کہ ہر فرد اور ہر قوم نے اس سلسلے میں اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہے۔ موسموں کے حوالے سے حالات کس قدر تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ گلوبل وارمنگ، گرمی کی لہروں، جنگل میں ہونے والی آتشزدگیوں‘ خشک سالی اور طوفانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے تناظر میں اقوام متحدہ کے موسم کے حوالے سے قائم ادارے نے کچھ عرصہ پہلے خبردار کیا تھا کہ جن لوگوں کو بین الاقوامی سطح پر انسانی مدد کی ضرورت ہے، ان کی تعداد 2018ء میں 10 کروڑ 80 لاکھ کے مقابلے میں 2030ء تک 21 کروڑ 60 لاکھ ہو سکتی ہے۔ انہی موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے وقتاً فوقتاً کانفرنسیں منعقد کر کے آلودگی کو کم کرنے اور ماحول کو صاف ستھرا بنانے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے۔ اسی سلسلے میں 2016ء میں یوم الارض کے موقع پر ایک بڑا معاہدہ طے پایا تھا جس پر امریکہ، برطانیہ، چین سمیت 120 ممالک نے دستخط کیے تھے اور جس کا مقصد رواں صدی کے آخر تک عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رکھنا تھا، لیکن نومبر 2020ء میں امریکہ نے اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی جس کے بعد معاہدے کے طے کردہ اہداف کو پورا کرنا ناممکن ہو گیا۔


اس کے بعد نومبر 2021ء میں دو ہفتے کے طویل اور مشکل مذاکرات کے بعد گلاسگو میں اقوام متحدہ کی ماحولیاتی تبدیلی پر عالمی کانفرنس میں دو سو سے زائد ممالک نے کلائمیٹ چینج سے نمٹنے کے لیے معاہدے ”کوپ26“ (کانفرنس آف پارٹیز26) پر اتفاق کیا، لیکن اس پر کتنا عمل درآمد ہو سکا؟ یہ واضح نہیں ہے…… تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں طے شدہ اہداف عالمی درجہ حرارت میں خطرناک اضافے کو روکنے کے لیے ناکافی ہیں۔ امیر ملکوں پر الزام ہے اور غلط نہیں ہے کہ قحط، سمندر کی سطح میں اضافے، آتشزدگی اور طوفانوں کے خطرے سے دوچار غیر ترقی یافتہ ملکوں کو وہ فنڈ دینے میں ناکام رہے جن کی انہیں سخت ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ یہ ترقی یافتہ ممالک ہی ہیں جن کی وجہ سے آج پوری دنیا ماحولیاتی آلودگی جیسے گھمبیر مسائل کا شکار ہے۔ ان ممالک نے اپنے عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ اس کے ماحولیات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ لگژری زندگی کی بہرحال ایک قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے اور یہ قیمت ترقی پذیر ممالک آلودگی اور گلوبل وارمنگ کا سامنا کرنے کی صورت میں چکا رہے ہیں۔ بہت سے سائنس دان یہ سمجھتے ہیں کہ زمین کے قدرتی ماحول کو سب سے زیادہ نقصان زمین سے حاصل شدہ ایندھن تیل، گیس اور کوئلے سے پہنچا ہے۔


حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ  کے مطابق پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پانچویں سب سے زیادہ خطرے والے ملک کا درجہ دیا گیا ہے۔ یہ معلومات، بہت سی دوسری معلومات کی طرح معمولی محسوس ہوتی ہیں، لیکن دراصل معمولی نہیں ہیں۔ بلند درجہ حرارت کے نئے ریکارڈز، مدافعتی نظام کو کمزور کرنے والی سموگ، پانی کی کمی، فضلے کے انتظامی نظام اور شمال میں پگھلتے ہوئے گلیشیئرز کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ خطرہ ایک حقیقت نظر آتا ہے۔ مزید برآں، پاکستان کو درجہ حرارت میں اضافے کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس سے گلیشئرز پگھلنے کی رفتار میں اضافہ ہو سکتا ہے اور نتیجہ سیلابوں اور سطح سمندر میں اضافے کی شکل میں سامنے آ سکتا ہے۔


عالمی سطح پر ماحول کس قدر تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ہر سال 46 سے 58 ملین مربع میل رقبے سے جنگلات کی کٹائی ہو رہی ہے۔ یہ کٹائی شہری ترقی، زراعت کو وسیع کرنے، لکڑی کے حصول کے نام پر ہو رہی ہے۔ جنگل میں وسیع پیمانے پر آتشزدگی بھی جنگلات کے رقبے میں کمی کی ایک وجہ ہے۔ جنگلات کی تیز رفتار تباہی منفرد پودوں اور حیوانات کے غائب ہونے کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی صورت حال کے خراب ہونے کا باعث بن رہی ہے۔ یہ خاص طور پر ہوا کی ترکیب کو متاثر کرتی ہے۔ ایک پودا دوسری حیات کے لئے نہ صرف خوراک تیار کرتا ہے، بلکہ ہوا میں آکسیجن جاری کرتا ہے جو انسانوں اور دوسرے جانداروں کا تنفس قائم رکھے ہوئے ہے۔ جنگلات زمین پر تقریباً 30 فیصد رقبے کا احاطہ کرتے ہیں اور دنیا کی 80 فیصد پُر تعیش حیاتیات کو برقرار رکھتے ہیں۔ اب اگر وسیع پیمانے پر درختوں کی تعداد میں کمی واقع ہو گی تو اس کے انسانی صحت پر منفی اثرات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ……سوال یہ ہے کہ ان حالات میں پھر روئے ارض کو ویران ہونے سے بچانے کے لئے کیا کیا جائے؟ میرے خیال میں اس کا بہترین طریقہ زیادہ سے زیادہ درخت لگانا ہے اور دوسرا یہ کہ ہم اپنے طرزِ زندگی میں کچھ تبدیلی لائیں۔ آبادی کو کنٹرول کیا جائے اور فوسل فیول کا استعمال کچھ کم کیا جائے۔ ہمیں آنے والی نسلوں کے لئے ایسی زمین نہیں چھوڑنی چاہئے جہاں ان کے لئے سانس لینا بھی مشکل ہو۔ 

مزید :

رائے -کالم -