غلط بخشیا ں یا حامد کی پگڑی محمود کے سر

غلط بخشیا ں یا حامد کی پگڑی محمود کے سر
 غلط بخشیا ں یا حامد کی پگڑی محمود کے سر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نیوز چینل ’’بول‘‘ سے جشن آزادی کے موقع پر 14اگست2017ء کو شام سَوا پانچ بجے سے ساڑھے پانچ بجے تک پس پردہ کمنٹری میں مشہورِ زمانہ نظم:
مِلت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
کیف بنارسی کو بخش دی گئی۔۔۔ جبکہ یہ نظم میاں بشیر احمد کی ہے جو قیام پاکستان کے بعد تُرکی میں پاکستان کے پہلے سفیر مقرر کئے گئے تھے۔میاں بشیر احمد،جسٹس شاہ دین ہمایوں کے فرزندِ ارجمند تھے۔انہوں نے رسالہ ’’ہمایوں‘‘ اپنے والدِ گرامی کے نام پر جاری کیا تھا اور اس کی پیشانی پر شاہ دین ہمایوں کا یہ مشہور ضرب المثل شعر درج ہوتا تھا:
اُٹھو! وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی،
دوڑو! زمانہ چال قیامت کی چل گیا
اِنھی جسٹس شاہ دین ہمایوں کے نام پر مال روڈ پر ’’شاہ دین بلڈنگ‘‘ بھی سو سال سے زیادہ عرصے سے قائم ہے۔اِنھی شاہ دین ہمایوں کے صاحبزادے میاں بشیر احمد نے23 مارچ1940ء کے منٹو پارک کے جلسے میں شرکت کی اور اُن کی متذکرہ نظم انور غازی آبادی نے اپنے مخصوص لب و لہجے کے ساتھ پڑھ کر سنائی:
ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
ملت ہے جسم، جاں ہے محمد علی جناح
کیف بنارسی کا ترانہ جو قیام پاکستان کی جدوجہد میں نعرہ بنا رہا، وہ دراصل یہ تھا:
لے کے رہیں گے پاکستان
بٹ کے رہے گا ہندوستان
’’بول‘‘ چینل ہی سے ’’یومِ آزادی‘‘ 14اگست2017ء کو مشہور اینکر پرسن ڈاکٹر عامر لیاقت نے ایک بہت مشہور شعر بغیر شاعر کے نام کے اس طرح سنایا:
مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
جبکہ میر طاہر حسین کا یہ شعر دراصل صحیح یُوں ہے:
مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملے جس کو سبق یاد رہے
دراصل اس غزل کے قافیہ ردیف ہی یاد رہے۔ آباد رہے وغیرہ ہیں۔! اس شعر کو مومن خان مومن سے بھی منسوب کر دیا جاتا ہے۔انڈیا سے چھپی ہوئی کتاب ’’انتخاب اُردو شاعری‘‘ کے مرتب پرکاش پنڈت نے مومن کے نام سے یہ شعر اسی طرح درج کر رکھا ہے:
مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس کو سبق یاد رہا
ایسی غلط بخشیاں یا ’’حامد کی پگڑی محمود کے سر‘‘ کا مظاہرہ اکثر اوقات اہلِ قلم خصوصاً کالم نویس حضرات کرتے ہی رہتے ہیں۔۔۔روزنامہ ’’92نیوز‘‘ میں منگل15اگست2017ء کو اپنے کالم ’’ترکش‘‘ میں فاضل کالم نویس آصف محمود نے ایک بہت مشہور، بلکہ ضرب المثل شعر داغ دہلوی کے نام سے اس طرح لکھا ہے:
جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا
تمہیں منصفی سے کہہ دو تمہیں اعتبار ہوتا
یہ شعر داغ دہلوی کا نہیں اسماعیل میرٹھی کا ہے اور ’’کلیاتِ اسماعیل میرٹھی‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔
روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ لاہور کی اشاعت پر 7اگست 2017ء میں سعد اللہ شاہ نے اپنے کالم ’’باد نما‘‘ میں ذیلی عنوان ’’سیاست۔۔۔نواز شریف اور عمران‘‘ کے تحت ایک مشہورِ زمانہ شعر اس طرح درج کیا ہے:
چھوڑا نہ صید تُو نے کسی کو زمانے میں
تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں
اس صورت میں شعر کے پہلے مصرعے کا ’’دھڑن تختہ‘‘ کر دیا گیا۔ سعد اللہ شاہ خود بھی شاعر ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں، ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ مرزا محمد رفیع سودا دہلوی کا صحیح شعر دراصل یوں ہے:
ناوک نے تیرے صَید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں
روزنامہ’’نوائے وقت‘‘ 2اگست2017ء کے ادارتی صفحہ نمبر2 پر فضل حسین اعوان نے اپنے کالم بعنوان ’’شفق‘‘ میں ذیلی عنوان’’خون بدلتے نہیں‘‘ کے تحت ایک مشہور شعر بغیر شاعر کے نام کے اس طرح رقم فرمایا ہے:
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس قدر فقیہان بے توفیق
متذکرہ شکل میں حضرت علامہ اقبالؒ کے اچھے بھلے شعر کے دوسرے مصرع کا دھڑن تختہ کر دیا گیا ہے، جبکہ علامہ کا صحیح شعر یُوں ہے:
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
روزنامہ ’’خبریں‘‘ لاہور کی7اگست2017ء کی اشاعت میں صوفیہ بیدار صاحبہ کے کالم ’’امروز‘‘ میں فیض احمد فیض کا ایک مشہور شعر اس طرح درج کیا گیا ہے:
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کر
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کر
صوفیہ بیدار خود بھی شاعرہ ہونے کا ادعا رکھتی ہیں۔فیض کے متذکرہ شعر کی ردیف ’’کر‘‘ نہیں ’’کے‘‘ ہے،یعنی:
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے
اسی غزل کا ایک اور شعر بہت مشہور ہے:
اِک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
غلطی ہائے مضامین
اکیڈمی آف لیٹرز کے بانی ڈائریکٹر پراجیکٹ اور بعدازاں ڈی جی اور چیئرمین احمد فراز کی تاریخ ولادت اکادمی کے مطبوعہ غزل کیلنڈر2015ء میں 14جنوری 1931ء درج ہے۔اُن کے چیئرمین بننے سے پہلے کی اکادمی ہی کی شائع شدہ وقار احمد رضوی کی کتاب ’’اُردو غزل‘‘ میں تاریخ و سن پیدائش1926ء درج ہے،جبکہ ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے خود اپنی تاریخ پیدائش 12جنوری1931ء بتائی، یہی سن و تاریخ ان کے قومی شناختی کارڈ پر بھی درج ہے، اس طرح صحیح ولادت و وفات کے سن یُوں ہیں:
احمد فراز
ولادت: 12جنوری1931ء
وفات: 25 اگست2008ء
روزنامہ ’’نئی بات‘‘ لاہور کی اشاعت پیر 25جنوری 2016ء میں ادارتی صفحہ نمبر2 پر ’’اعتراف‘‘ کے عنوان سے ایک فاضل کالم نویس شاہد گل نے اپنے کالم کے آخر میں ایک شعر بغیر شاعر کے نام کے یُوں درج کیا ہے:
موت آ جائے گی مہ پاروں کو
ہائے اللہ یہ بھی مر جائیں گے
یہ شعر دراصل اس بے تُکی شکل میں نہیں،بلکہ بشیر مُنذر کا یہ شعر صحیح شکل و صورت میں یُوں ہے:
موت لے جائے گی ماہ پاروں کو
ہائے یہ لوگ بھی مر جائیں گے
شعر کے تخلصّوں میں صفاتِ قصابیت!
ایک مشہور شاعر، ڈراما نگار اُردو ادب میں خنجر لکھنوی بھی ہو گزرے فدا علی خنجر لکھنوی۔ پھر اسی خنجر تخلص کے ساتھ موجود بنگلہ دیش میں ایک صاحب فن شاعر اسماعیل ہلالی خنجر بھی تھے جنہوں نے حضرت جگر مراد آبادی کی صحبت میں رہ کر فنِ شاعری میں کمال حاصل کیا تھا۔ان کے بیٹے ہلال ہمایوں نے بنگالی اہلِ زبان ہوتے ہوئے بھی میٹرک کے امتحان میں اُردو میں امتیازی پوزیشن لی تھی۔ وہ بقول اشرفی بہاری ایسی اچھی اُردو بولتے ہیں، کیا اُردہ اہلِ زبان بولیں گے۔
انہوں نے ’’بنگلہ اُردو سوسائٹی‘‘ بھی بنائی جس کے تحت منعقدہ مشاعروں میں وہ نظامت بھی خود کرتے ہیں۔ خنجر قسم کے تخلص سے متاثر ہو کر مشہور شاعر مصطفےٰ زیدی بھی شروع شروع میں ’’تیغ الٰہ آبادی‘‘ رہے، اُنہی دِنوں کا یہ ادبی لطیفہ مشہور ہے کسی نے پوچھا کہ ’’تیغ الٰہ آبادی کی شادی ہو گئی؟‘‘ تو اسرار الحق مجاز نے کہا: ’’ایسی کون سی دوشیزہ ہے جو دیکھتے بھالتے جانتے ہوئے بہ قائمی ہوش و حواس، تہہ تیغ ہونا پسند کرے گی؟

مزید :

کالم -