جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر65
اس نے گہری نظروں سے دیکھا ۔
”تم کھاﺅ....میں بھوجن کرکے آیا تھا“ اس نے کہا۔ جب میں کھانے سے فارغ ہوا تو اس نے کہا۔”دیکھا مہاشے! کیسے ایک پل میں میں نے کایا پلٹ دی؟ یہی منش آج کی رینا تمری ہڈیوں سے گودا نکالنے والا تھا پرنتو اب کیسے تمرا داس بنا کھڑا تھا؟“ اس نے بڑے فخر سے کہا۔
”کالی داس! میں تم سے اپنے پچھلے رویے کی معذرت چاہتاہوں دراصل رادھا کی محبت میں میں اندھا ہوگیا تھا“ میں نے کہا۔ اگر کالی داس مجھے اس مصیبت سے چھٹکارہ دلوا دیتا تو اسکا بہت بڑا احسان ہوتا۔ اس وقت اس کی جس قدر ہمدردی میں حاصل کر سکتا میرے لئے بہتر تھا۔
”اب چھوڑ بھی پرانی باتیں جب ہم متر بن چکے ہیں تو کاہے کی چنتا؟“ اس نے بے پرواہی سے کہا۔
”تو نے جو کتھا(کہانی) اس کو مورکھ کو سانئی ہے میرا من بہت پرسن ہوا ہے آج کی رینا جوکشٹ تجھے بھوگنا پڑے گا۔ اس کے لئے مجھے شما کرنا کل ساری کٹھنائیوں سے تیری جان چھوٹ جائے گی“ اسنے معذرت بھرے لہجے میں کہا۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر64 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
”معافی تو مجھے مانگنی چاہئے کہ میں نے رادھا کے ساتھ مل کر تمہیں بہت دکھ دیا ہے ہاں ایک اور بات بھی مجھے تم سے کہنا ہے جب تم ....“
”جانتاہوں تو کیا کہنا چاہتا ہے کھیدو چوہڑے اور سپنا کی ہتھیا کو میں بھول نہیں پایا۔ پرنتو وہ رادھا کا اپر ادھ ہے تو نردوش ہے“ اس نے میری بات کاٹ کر کہا۔ وہ بھی رادھا کی طرح دل کی بات جان لیتا تھا۔
”کیول اتنا جان لے ، یدی رادھا کے آنے پر تو نے میرے سنگ چھل کیا تو ....“ اس کی ادھوری بات میں دھمکی پوشیدہ تھی۔
”کیا تم اب بھی یہ سمجھتے ہو کہ میں رادھا کا ساتھ دوں گا جس کی وجہ سے آج میں اس حالت میں حوالات میں پڑا ہوں؟ یہ سب کچھ اس بدبخت کی وجہ سے ہی تو ہوا ہے ورنہ میں تو ایک سیدھی سادھی زندگی بسر کرنے والا انسان ہوں۔ نہ رادھا مجھے ملتی نہ یہ دن دیکھنا پڑتے“ میں نے اس کا اعتماد حاصل کرنے کی خاطر رادھا کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ بات تھی بھی سچ، ان حالات کی ذمہ دار رادھا ہی تھی۔
”تو بہت بدھی مان ہے۔ یدی تو ستیہ کہہ رہا ہے تو سن اب کالی داس کی شکتی تجھے ان کٹھنائیوں سے یوں نکال کر لے جائے گی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور کالی داس کا متر بن کر توگھاٹے میں نہیں رہے گا۔ رادھا تو کچھ بھی نہیں ایسی ایسی سندرکنیائیں تیرے چرنوں میں بٹھا دوں گا کہ تو آکاش کی اپسراﺅں کو بھی بھول جائے گا“ اسنے مجھے لالچ دیا۔
”ٹھیک ہے کالی داس! اگر تم نے اپنا وعدہ پورا کیا تو مجھے ہمیشہ اپنا دوست پاﺅ گے“میں نے اسے یقین دلایا اور دل میں اسی بات کو دہرانے لگا۔وہ کچھ دیر میری آنکھوں میں دیکھتا رہا۔
”دھن باد خان صاحب! تم ایک گھر سے منشہور جو کچھ تمرے من میں ہے ۔وہ میں جانتا ہوں اب تو کسی بات کی چنتا نہ کر دیکھ کالی داس کیا کرتا ہے۔ تجھے ابھی کالی داس کی شکتی سے جانکاری نہیں کیول آج کی رینا اس کوٹھڑی میں بتا لے پھر سب ٹھیک ہو جائے گا“ اس نے مجھے تسلی دی۔ میں نے منہ سے کچھ نہ کہا بس سر ہلا کر اس کی بات کی تائید کی۔
تھوڑی دیر بعد سپاہی کرم دین چارپائی اور بسترلے آیا۔ اس کے جانے کے بعد کالی داس بولا۔
”اب مجھے آگیا دے....ابھی جا کر بہت کچھ کرنا ہے پرنتو تو چنتا نہ کرناسب ٹھیک ہو جائے گا۔“
میں نے ایک بار پھر اسکا شکریہ ادا کیا۔اچانک وہ میری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ رادھا نے مجھے بتایا تھا کہ کالی داس زبردست پراسرار قوتوں کا مالک ہے۔ اس کے لئے نظروں سے اوجھل ہونا یا ہزاروں کوس دور پہنچ جاتا کوئی مشکل بات نہیں۔
میری چوٹوں میں بہت درد ہو رہا تھا۔ کمبختوں نے بری طرح میری دھنائی کی تھ۔
”کیا کالی داس واقعی میری مدد کرے گا؟“ لیکن اس وقت اس پر اعتبار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ عمران دوبارہ نہیں آیا تھا میں دکھتے جسم کے ساتھ لیٹ گیا۔ سارے واقعات ایک بار پھر میرے ذہن میں تازہ ہوگئے۔ مجھے خود سے شرم آرہی تھی۔ جو کچھ میں نے اس مجبور اور بے بس لڑکی کے ساتھ کیا تھا اور اس کی سزا تویہی تھی کہ مجھے پھانسی پر لٹکا دیا جاتا۔ لیکن میں خود غرض ہوگیا تھا۔ میرے سامنے صائمہ اور بچوں کے چہرے آگئے۔ مجھے اپنی سزا کی اتنی فکر نہ تھی ،جو کچھ میں نے کیا تھا میں واقعی سزا کا حقدار تھا۔ لیکن صائمہ اور بچے....ان کا قصور کیا تھا؟ اگرمیں جیل چلا جاتا تو ان کا پرسان حال کون ہوتا؟ میں انہی سوچوں میں غرق تھا کہ کمرے میں ایک بار پھر اندھیرا چھا گیا۔ شاید بلب پھر فیوز ہوگیا تھا۔ اچانک میرے نتھنوں سے خوشبو کا جھونکا ٹکرایا۔ کمرے میں کسی اورکی موجودگی کا احساس ہوا۔
”رادھا....؟“ میرے ذہن میں فوراً خیال آیا۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن رادھا جب آتی تو گلاب کی مہک سے کمرہ بھر جاتا۔ خوشبو تو اب بھی آرہی تھی اور بہت ہی مسحور کن مہک تھی لیکن یہ گلاب کی خوشبو نہ تھی۔
”مہاراج ! مجھے شما کر دو۔“ کمرے میں بسنتی کی مدہر آوازآئی۔
”بسنتی....؟“ بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔
ہاں مہاراج ! میں ابھاگن بسنتی ہی ہوں“ اس کی مغموم آواز آئی۔
”مجھے شما کر دو۔ میں نے گھور پاپ کیا ہے پرنتو میں تمرے پریم میں پاگل ہوگئی تھی۔ تم ہو ہی اتنے سندر کہ کوئی بھی ناری تمہیں دیکھ کرکچھ بھی کر سکتی ہے۔“
اچانک کمرے میں دودھیا روشنی پھیل گئی جیسے چاند نکل آیا ہو۔ واقعی کمرے میں چاند نکل آیا تھا۔ بسنتی میری چارپائی کے بالکل پاس کھڑی تھی۔ اس کے وجود سے اٹھتی مہک میرے مشام جان کو معطرکیے دے رہی تھی۔ گہرے نیلے رنگکے مختصر گھاگرے چولی میں اس کا جسم قیامت ڈھا رہا تھا۔ پیار سے میرے کندھوں پر ہاتھ رکھ کراس نے مجھے لٹا دیا اور میرے اوپر جھک آئی۔ اس کی گرم سانسیں میرے چہرے کو چھونے لگیں۔ میں ہوش و حواس کھو بیٹھا۔ حدت سے اس کا پنڈا تنور بنا ہوا تھا۔
”آج کی رینا مجھ سے اتنا پریم کرو کہ میری بیاکل آتما شانت ہو جائے“ اس کی خمار آلود سرگوشی ابھری۔
”جس سمے میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا میرا من میرے بس میں نہیں ر ہاتھا۔ تم تو دیوتاﺅں سے بھی جیادہ سندرہو۔ میں نے آج تک تمرے جیسا سندر منش نہیں دیکھا“ وہ میرے اوپر چھا گئی ۔ گھنے سیاہ بالوں نے مجھے ڈھک دیا۔ میں یہ بھی بھول گیا کہ اس وقت حوالات کے کمرے میں سزا کا منتظر ہوں کل میرے ساتھ کیا ہوگا میں یہ نہیں جانتا تھا؟ بسنتی کے قرب نے جیسے دنیا سے بیگانہ کر دیا تھا۔
”پریم“ وہ میرے اندر جذب ہونے لگی۔ اس کی خود سپردگی دیکھ کر میں بھی زیادہ دیر بے حس نہ رہا سکا۔ خود بخود میرے ہاتھ حرکت میں آگئے۔ اس کی نرم و نازک انگلیاں میرے بالوں میں الجھ گئیں۔ ماتھے پر ہاتھ لگا تو زخم میں درد کے باعث میرے منہ سے سسکاری سی نکل گئی۔
”کیا ہوا میرے میت؟ مجھ سے پریم کرونا“ اس کے چین آواز آئی۔
”تمہارا ہاتھ لگنے سے زخم میں درد شروع ہوگیا ہے میرا سارا جسم زخموں سے چور ہے اس حالت میں میں کیسے تمہاری”خواہش پوری کر سکتا ہوں؟“ میں نے کراہتے ہوئے کہا۔
”پریتم! ابھی تمرے سارے دکھ سکھ بدل دیتی ہوں، یدی تم آگیا دو تو میں اسی سمے ان پاپیوں کے گھربھسم کر دوں جنہوں نے تم پر انیائے کیا ہے“ اس کے لہجے میں اپنائیت تھی۔ شاید وہ میرے زخموں کو ٹھیک کرنا چاہتی تھی کہ مجھے انسپکٹر کی بات یاد آئی اس نے کہا تھا کہ وہ اسی حالت میں مجھے جج صاحب کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہے۔ یہ میرے حق میں بہتر تھا۔ جج کی ہمدردی میرے ساتھ ہوتی۔ یہ خیال آتے ہی میں نے بسنتی کو روک دیا۔
”ٹھیک ہے پرتم! سب کچھ ایسے ہی رہے گا پرنتو تمہیں درد نہیں ہوگا“ اس نے کہہ کر میرے جسم پر اپنا کومل ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔ آپ یقین کریں اس کے ہاتھ کا میرے جسم پر پھرنا تھا کہ یکدم درد سے نجات مل گئی۔
”بسنتی ! میں جانتا ہوں کہ تم ان کے گھروں کو جلا کر راکھ کر سکتی ہو لیکن کالی داس چاہتا ہے کہ میں باعزت طور پر بری ہو جاﺅں، اگر تم نے ان کے گھر جلائے تو ہو سکتا ہے میں ساری زندگی جیل کی سلاخوں سے نہ نکل سکوں“ میں نے وضاحت کی۔ مجھے خطرہ تھا کہ یہ جن زادی کہیں ان سب کے گھروں کو نہ جلا دے۔ اس کے لئے ایسا کرنا کیا مشکل تھا؟
”پرنتو پاپیوں نے جو تمرے سنگ کیا ہے اس کا بدلہ تو انہیں ملنا ہی چاہئے نا“ اس کے لہجے میں اپنایت تھی۔
”لیکن یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے تو ہوا ہے جس وقت وہ لوگ مجھے مار رہے تھے تو میں نے کئی بار تمہیں پکارا تھا لیکن تم نہ آئیں“ میں نے گلہ کیا۔
”وہ سب میں نے کالی داس کی اچھا کے انوسار کیا تھا وہ رادھا کو پراپت کرنا چاہتا ہے اس نے مجھے وچن دیا ہے یدی میں اس سمے اس کی سہائتا کروں تو وہ رادھا کو اپنے بس میں کر لے گا پھر ہمیں ایک دو جے سے پریم کرنے میں کوئی روک نہ ہوگی“ وہ میری بانہوں میں سما گئی۔ اس رات کی کہانی بھی عجیب ہے۔ حوالات کے کمرے میں اس قسم کی رات شاید ہی کسی نے بسر کی ہو۔ ٹھیک ہے میں اس وقت مجبور تھا لیکن سچ پوچھیں تو بسنتی کے وصال کے لئے میں خود بھی بے چین تھا۔ مجبوری اپنی جگہ لیکن اس میں میری نفسانی خواہش کو بھی دخل تھا۔ صبح دم جب وہ جانے لگی تو بڑے پیار سے مجھے تسلی دی۔
”چنتا نہ کرنا سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا“ اس کے جانے کے بعد لائٹ خود بخود آن ہوگئی۔ لیکن اب میں ان باتوں کا عادی ہو چکا تھا۔ حیران ہونا میں نے چھوڑ دیا تھا۔ روشنی میں میں نے اپنے زخموں کا جائزہ لیا جن سے خون نکل کر جم گیا تھا۔ زخم ویسے ہی تھے لیکن درد یا تکلیف کا نام و نشان نہ تھا۔ یہ بھی ایک عجیب تجربہ تھا۔ تھکن سے میرا برا حال تھا۔ بسنتی جو کچھ میرے لئے کر رہی تھی اس کا اس نے پورا پورا ”معاوضہ “ وصول کیا تھا ۔ نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی۔ کسی نے جھنجھوڑ کر مجھے جگا دیا۔ نیند بھی کتنی مہربان شے ہے ہر دکھ تکلیف خواہ وہ جسمانی ہو یا ذہنی، اس سے نجات دلا دیتی ہے۔ میں آنکھیں کھول کر دیکھا سپاہی کرم دین مجھے آوازیں دے رہا تھا۔
”بھئی سچ پوچھ تو میں نے کسی کو حوالات کے کمرے میں اتنے آرام سے اور گہری نیند سوتے ہیں دیکھا۔ مجھے بھی پولیس میں آئے ہوئے دس سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے“ اس نے حیرت سے کہا۔ دن کا اجالا ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔
”میں ناشتہ لاتاہوں“ وہ جانے لگ تو میں نے کہا مجھے رفع حاجت کے لئے جانا ہے۔ کچھ دیر وہ سوچتا رہا پھر بولا ”اچھا آﺅ میرے ساتھ۔“ میں اس کے پیچھے باہر نکل آیا۔ وہ مجھے لے کر ایک طرف چل پڑا۔(جاری ہے)
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر66 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں