ہم سا وحشی کوئی جنگل  کے درندوں میں نہیں ۔۔۔

ہم سا وحشی کوئی جنگل  کے درندوں میں نہیں ۔۔۔
ہم سا وحشی کوئی جنگل  کے درندوں میں نہیں ۔۔۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مدد مانگتی ہے یہ حوا کی بیٹی
ایشودھا کی ہم زُلف، رادھا کی بیٹی
اے خدا، تو نے اپنی نیک بندیوں کا پردہ رکھنے کے لئے انہیں زمین میں پنا ہ دی۔۔۔  اے میرے رب، بہت مشکل میں ہوں، آج میرے لئے بھی یہ زمین پھاڑ دے، مجھے اس میں اتار دے۔۔۔ اے میرے رب،  ڈھائی گھنٹے ہو گئے،   کوئی میرے بال کھینچ رہا ہے، کوئی لباس پھاڑ رہا ہے۔۔۔ کوئی لات ما رہا ہے، پولیس والے بھی مدد کو نہیں آرہے۔۔۔ 
یہ وہ الفاظ ہیں جو لاہور کے منٹو پارک میں  چار سو سے زیادہ افراد میں گھری اور  ظلم کا نشانہ بننے والی نہتی عائشہ کے لبوں پر اُس وقت تھے جب   ان درندوں سے بچنے  کے لئے اُسے  کوئی اور راستہ نظر نہیں آ رہا  تھا۔۔۔ اس نے اپنی عزت اور جان بچانے کے لئے قریب ہی ایک تالاب میں کود کر خود کشی کا بھی سوچا لیکن وہ اس قدر خوفزدہ تھی کہ وہاں تک پہنچنے کے لئے بھی اس کے قدموں نے اُس کا ساتھ نہیں دیا۔۔۔ 
 آج عائشہ معاشرے  کے ہر فرد سے پوچھ رہی ہے کہ اُس کا قصور کیا ہے؟ 14 اگست کے دن اُس کا لباس بھی مناسب تھا۔۔۔ اس  نے آج تک کوئی ایسی ویڈیو نہیں بنائی جس میں غیر اخلاقی مواد ہو تو پھر   اپنے ہی ملک میں کون اپنی ہی بیٹیوں کےساتھ ایسا کرتا ہے؟؟؟ 14 اگست کو بھی حوا کی   بدقسمت، بے بس  اور لاچار  بیٹی   ہار گئی ،  انسانیت کے روپ میں درندوں کی حیوانیت جیت گئی۔۔۔ 
میں مس عائشہ کی تمام باتوں اور سوالات سے اتفاق کرتی ہوں۔۔۔ میں بھی یوٹیوب کےلئے ویڈیوز  بنانے کے لئے اپنے والد کے ساتھ اکثر باہر جاتی ہوں۔۔۔  آج سے پہلے کبھی یہ خوف نہیں تھا کہ  کوئی ہجوم آکر حملہ کر دے گا لیکن  اب اس واقعہ کےبعد میں بھی بہت خوف زدہ ہو گئی ہوں۔۔۔ 
اے بے ضمیرو۔۔  اگر ضمیر زندہ ہے تو مر کیوں نہیں جاتے!!!
یہ واقعہ لاہور کے منٹو پارک میں  پیش آیا ہے۔۔ وہی منٹو پارک کہ جہاں پر 23 مارچ 1940ء کو خواتین کے حقوق کے تحفظ کا عہد کیا گیا ۔۔۔ وہی  منٹو پارک کہ جہاں اس مملکت خدادداد کی بنیادپڑی۔۔۔ کوئی قوم کی بیٹی پر زندگی تنگ کرنے والوں کو  بتائے کہ اسی منٹو پارک میں منظورکی جانے والی قرارداد سے ہماری منزل کا تعین ہوا ۔۔۔ کوئی اُن تک پہنچائے کہ اسی قرارداد کی  بنیاد پر برصغیر میں مسلمانوں کے لئے الگ  وطن کے حصول کے لئے تحریک شروع کی گئی ۔۔۔ کوئی انہیں درس دے کہ  اسی قرارداد پاکستان کی منظوری کے سات سال بعد بے شمار قربانیوں سے ہم اس قابل ہو سکے کہ انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے نجات مل سکے۔۔۔

یہ وہی منٹو پارک ہے کہ جس نے مسلمانوں  کو وہ حوصلہ، ولولہ اور منزل کا شعور دیا جس نے 1946ءمیں تمام منظر نامہ بدل دیا۔۔۔ اسی منٹو پارک کی قراراداد پاکستان کے نتیجے میں 14 اگست 1947 ء کو ہمارا پیارا ملک پاکستان وجود میں آیا۔۔۔ اسی منٹو پارک  میں مسلمانوں کی آزادی کے ساتھ ساتھ ثقافتی ترقی، اقتصادی و سماجی بہبودی اور سیاسی خود ارادی کے مفادات کی بنیاد رکھی گئی  لیکن کس قدر  ظلم  ہے کہ اسی منٹو پارک میں آج  وطن کی ایک نہتی لڑکی سے اس کے خواب تک چھین لئے گئے۔۔۔
  یہ ظلم دیکھ کر اچھی طرح سمجھ آگئی  کہ لوگ بیٹی مانگنے سے کیوں ڈرتے ہیں؟؟ میں تمام مردوں سے سوال کرتی ہوں کہ  ایک لمحے کو محسوس کیجئے،  وہ آپ کی بہن  اور بیٹی ہوتو آ پ کے دل پر کیا بیتے گی؟؟ چند لمحات کے لئے محسوس کیجئے کہ جب سینکڑوں درندے اس  پر  جھپٹے ہوں گے تو اُس  کے ہونٹوں پہ  ماما،ماما کی صدائیں کس طرح کا نوحہ بیان کر رہی ہوں گی؟؟؟
ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں 
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں 
میں لاکھوں لڑکیوں کی جانب سے ریاست مدینہ کی بات کرنے والےامیر ریاست سے ہاتھ باندھ کو درمندانہ فریاد کرتی ہوں کہ ایسا قانون بنا دیجئے  کہ  ایسے درندوں کا انجام دیکھ کر کوئی بھی اس طرح کی درندگی کرنے سے پہلے ہزار بار انجام کا سوچا کرے۔۔۔
اے امیر ریاست !
ابھی اسلام آباد میں نور مقدم کے بہیمانہ قتل کی بازگشت کم نہیں ہوئی کہ لاہور میں یہ واقعہ ہو گیا۔۔۔ آپ خواتین کے حقوق کے بڑے علمبردار ہیں۔۔۔ عورت کو معاشرے میں تحفظ کا احساس دلایئے، اس کوعزت دلایئے۔۔۔مغربی دنیا اور ہمارے مخالف  ملک عالمی سطح پر ہماری سبکی کرانے کےلئے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، اس لئے دنیا کے سامنے پاکستانی معاشرے میں خواتین کی مثالی تکریم کی عملی تصویر اور نمونہ پیش کرنا ہوگا۔۔۔  آپ کو خود سامنے آکر قوم کی رہنمائی کرنا ہو گی۔۔۔ عائشہ سے ظلم جیسے حساس معاملے پر قوم تقسیم ہے، کہیں لوگ اس کے حق میں ٹرینڈ چلا رہے ہیں تو کوئی اس کےسخت مخالف ہے۔۔۔
جناب وزیراعظم! کیا قوم کی بیٹیاں آپ سے یہ پوچھنے کا حق نہیں رکھتیں کہ خواتین ظلم کا شکار کیوں ہیں؟
اور ایک آخری درخواست۔ ایسے مقامات پر  چھٹی کے دن صرف فیملیز کے ساتھ آنےکی اجازت دی جائے اور جو لوگ بھی آئے، اُن کے ٹیلی فون نمبر اور شناختی کارڈ درج کئے جائیں تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو جائے تو شہریوں کی شناخت ہو سکے۔

(زینب وحید ماحولیاتی تبدیلی کیلئے کام کرنے والی معروف سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور کیمرج کی طالبہ ہیں۔ وہ صف اول کی مقررہ،مصنفہ اورمتعدد عالمی شہرت یافتہ اداروں کی سفیربھی ہیں ۔ زینب وحید مضمون نویسی کے متعدد بین الاقوامی مقابلے بھی جیت چکی ہیں جس کے بعد انہیں اقوام متحدہ کی یوتھ سمٹ میں شامل کیا گیا۔زینب وحید کے سوشل میڈیا لنکس مندرجہ ذیل ہیں twitter.com/UswaeZainab3  facebook.com/uswaezainab.official)

نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -