معیشت کے کمزور ستون

  معیشت کے کمزور ستون
  معیشت کے کمزور ستون

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پہلے ہوائی جہاز کریش ہوتے تھے،اب ہماری سٹاک ایکسچینج کریش ہوتی ہے۔خبر آئی ہے کہ کراچی سٹاک مارکیٹ کریش ہونے کی وجہ سے سرمایہ کاروں کے پانچ کھرب 41ارب روپے ڈوب گئے ہیں، شیدا ریڑھی والا پوچھ رہا تھا باؤ جی۔ یہ کھرب کا کیا مطلب ہوتا ہے، میں نے بتایا 100ارب روپے جمع ہوں تو کھرب بنتا ہے اور ارب کتنا ہوتا ہے، اُس غافل نے پوچھا:میں نے کہا جب 100 کروڑ روپے اکٹھے ہو جائیں تو ایک ارب بن جاتا ہے، شکر ہے اُسے کروڑکا پتہ تھا وگرنہ اُس کو بھی بتانا پڑتا۔ شیدا کہنے لگا بابو جی جن لوگوں کی اتنی بڑی رقم ڈوب گئی انہیں تو غشی کے دورے پڑ رہے ہوں گے۔میں نے کہا شیدے دورے شورے کسی کو نہیں پڑتے، یہ ہمارا تمہارا معاملہ ہے کہ 100 روپے گم ہو جائیں تو کئی دن ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں، سٹاک مارکیٹ والے ایسے کرتب دکھاتے رہتے ہیں، ایسا نہ کریں تو کون خریداری کے لئے آئے،اب مارکیٹ میں حصص کے ریٹ گرا کر نئے سرمایہ کاروں کو پھانسا جائے گا۔ کل ہی سے یہ راگ الاپا جا رہا ہے کہ شیئر سستے ہو گئے ہیں اس وقت حصص کی خریداری کا بہترین موقع ہے، یعنی نیا جال لائے پرانے شکاری، کوئی یہ نہیں پوچھتا بھائی کل تک مارکیٹ ٹاپو ٹاپ اوپر جا رہی تھی۔ نفسیاتی انڈیکس کی حدیں پار  ہو رہی تھیں۔ سب کچھ  ہرا ہی ہرا نظر آ رہا تھا، پھر ایسا کیا ہوا اندھیرا چھا گیا۔ یہ سوئچ آن آف کرنے کا نظام کس کے پاس ہے۔جب چاہا سٹاک ایکسچینج آسماں پر لے گئے جب چاہا زمین پر گرا دی پھریہ بھی کہتے ہیں دیکھو ملک کتنی ترقی کر رہا ہے، سٹاک ایکسچینج بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ اس کا تعلق ملکی اکانومی سے تو ہے نہیں، یہ تو چند بڑے بروکرز کی گیم ہے، حکومت جب چاہے اُن کے ذریعے سٹاک مارکیٹ کو اوپر لے جا کر ڈنکے بجانا شروع کر دے کہ ملک مشکل سے نکل آیا ہے۔ لگتا ہے ایک بار پھر چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کو کراچی جا کر سرمایہ کاروں سے ملاقات کرنی پڑے گی اس کے بعد یہی سٹاک مارکیٹ پھر اوپر کی طرف فراٹے بھرنے لگے گی۔کہا جا رہا کہ امریکی دھمکیاں، پرافٹ ٹیکنگ اور انکم ٹیکس میں ترامیم اس مندی کی وجہ بنی۔ یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔اصل کہانی کچھ اور ہے اس سارے کھیل میں چھوٹے چھوٹے سرمایہ کار لٹ جاتے ہیں، جنہوں نے منافع کے لالچ میں حصص ذخیرہ کئے ہوتے ہیں اُن پر بڑے بروکرز بجلی بن کر گرتے ہیں اور اپنے شیئر مارکیٹ میں لے آتے ہیں، جو حصص کے سب سے بڑے خریدار ہوتے ہیں وہ جب سب سے بڑے فروخت کنندہ بن جاتے ہیں تو دور دور تک خریدار نظر نہیں آتا اور مارکیٹ کریش کر جاتی ہے۔ یہ کھیل ہمیشہ سے جاری ہے۔کبھی ایسا نہیں ہوا سٹاک ایکسچینج  کے اوپر جانے سے ملک میں خوشحالی آئی ہو اور کبھی ایسا بھی نہیں ہوتا کہ مارکیٹ کریش کر جانے سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہو۔کہنے کو ساڑھے پانچ کھرب روپے ڈوب گئے ہیں، مگر کوئی دیوالیہ ہوا ہے اور نہ حکومت کے خزانے پرکوئی زد پڑی ہے۔سٹاک مارکیٹ کا ملکی معیشت سے براہِ راست کوئی تعلق ہے ہی نہیں، یہ بڑے سرمایہ داروں کا ایک ہابی کلب ہے، جس کے ذریعے وہ حکومتوں کو بھی دباؤ میں لاتے ہیں اور اربوں روپے بھی کما لیتے ہیں۔

یہ واحد شعبہ ہے جس کے بارے میں حکومت صرف اچھے اچھے بیانات دے سکتی ہے۔کسی محکمے کو یہ اختیار نہیں کہ سٹاک ایکسچینج کریش ہونے کی تفتیش کرے۔ یہاں دو چار لاکھ کی ڈکیتی ہو جائے تو طوفان برپا ہو جاتا ہے،مگر سٹاک مارکیٹ میں ساڑھے پانچ کھرب روپے اِدھر اُدھر ہو جائیں تب بھی کسی کی جرأت نہیں پوچھ سکے ایسا کیوں ہوا اور کس نے کیا، فائدہ کس نے اٹھایا۔ ابھی آپ دیکھیں گے جادو کی ایک چھڑی گھومے گی، راتوں رات حصص کی قیمتیں بڑھیں گی، پھر سے یہ خبریں آنے لگیں گی، سٹاک ایکسچینج تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔کوئی نہیں بتائے گا۔ یہ اتنی آسانی سے کھربوں روپے نیچے اور کھربوں رپے اوپر کیسے ہو جاتے ہیں۔یہ معاملہ اتنا ہی آسان ہے تو حکومت اس سے فائد اٹھائے، کھربوں روپے لے کر آئی ایم ایف کے منہ پر مارے اور اُس کی شرائط کا صفحہ پھاڑ کر ملک کو اس کی غلامی سے نجات دلائے، مگر نہیں صاحب ایسا کبھی نہیں ہو گا۔یہ کھیل صرف عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے جاری رکھا جائے گا۔ان فیک اعداد و شمار کی بنیاد پر حکومت یہ دعویٰ کرتی رہے گی، مہنگائی تاریخ کی نچلی ترین سطح پر آ گئی ہے اور پاکستان میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے یہ کیسا اعتماد ہے جو ہوا کا ایک تھپیڑا بھی برداشت نہیں کر سکتا۔

کل ہی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ایک اہم بات کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے ملک میں مہنگائی مڈل مین کی وجہ سے کم نہیں ہو رہی۔ یہ مڈل مین منڈیوں میں بھی موجود ہے اور سٹاک ایکسچینج میں بھی،اس پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں۔جب چاہتا ہے عام آدمی کا گلا دبا دیتا ہے اور جب چاہتا معیشت کی سانس بند کر دیتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے جب تک ہماری حکومتیں یہ تسلیم نہیں کریں گی کہ ملک میں جعلی خوشحالی کے ڈھنڈورے پیٹے جا رہے ہیں۔ زمینی حقائق اُس کے بالکل برعکس ہیں اس وقت تک وہ کوئی ٹھوس قدم نہیں اُٹھا سکتیں۔ روزانہ اس قسم کے بیانات دینے کا کیا فائدہ،ملک معاشی ٹریک پرآ گیا ہے، مثال سٹاک ایکسچینج کی دے کر بات کرنے والے اُس وقت چپ سادھ کے بیٹھ جاتے ہیں جب اسی سٹاک مارکیٹ میں کھربوں روپے ڈوبتے ہیں۔ دنیا بھر میں خوشحالی ناپنے کا ایک سادہ سا فارمولا ہے۔عام آدمی جب اپنی روزمرہ ضروریات پوری کرنے کے قابل ہو جاتا ہے،خوشحالی آ جاتی ہے۔ ہمارا فارمولا ہی عجب ہے ہم کبھی سٹاک ایکسچینج کو اس کی بنیاد بناتے ہیں اور کبھی شرح سود میں کمی کو اس کا ثبوت بنا کے پیش کرتے ہیں۔ دونوں کا عام آدمی کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سرمایہ کاروں کی دنیا کے معاملات ہیں، جو منافع کو نیچے آنے ہی نہیں دیتے، کہ عوام کو بھی اشیاء سستی ہونے کا کوئی ریلیف ملے۔ ہمارے پالیسی ساز سمجھتے ہیں ملک میں سرمایہ کاری آئے گی تو اشیاء بھی سستی ہو جائیں گی، حالانکہ یہ معاملہ گڈ گورننس سے تعلق ہے۔ یہاں ایک بار قیمتیں بڑھ جائیں تو حالات لاکھ بہتر ہوں نیچے نہیں آتیں۔ کل ہی ایک دوست نے ایک عام سی مثال دی کہ مرغی کا گوشت450روپے کلو بک رہا ہے لیکن مرغ پیس کی آج بھی قیمت450وصول کی جا رہی ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں اس لئے اگر کوئی سمجھتا ہے مارکیٹ فورسز قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کا فیصلہ کریں گی، وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے،ایسا مہذب ممالک میں ہوتا ہو گا۔ ہمارے ہاں ڈنڈا چلائے بغیر ایسا ممکن نہیں، سٹاک مارکیٹ کی دنیا بھی بے لگام ہے اور عام مارکیٹ بھی شتر بے مہار ہے۔ ایسے میں عوام کو ریلیف صرف خوابوں ہی میں مل سکتا ہے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -