لوگ چیونٹیوں کی طرح پٹریوں کے اطراف میں جمع ہو گئے، جب یہ دیو ہیکل مشینیں گرج دار آواز کے ساتھ سامنے سے گزریں تو انکے اوسان خطا ہو گئے

لوگ چیونٹیوں کی طرح پٹریوں کے اطراف میں جمع ہو گئے، جب یہ دیو ہیکل مشینیں گرج ...
لوگ چیونٹیوں کی طرح پٹریوں کے اطراف میں جمع ہو گئے، جب یہ دیو ہیکل مشینیں گرج دار آواز کے ساتھ سامنے سے گزریں تو انکے اوسان خطا ہو گئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:15
راستے میں آس پاس کے دیہات سے لوگ چیونٹیوں کی طرح اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے اور پٹریوں کے اطراف میں جمع ہو گئے۔ جب یہ دیو ہیکل مشینیں گرج دار آواز کے ساتھ سیٹیاں بجاتی ہوئی اْن کے سامنے سے گزریں تو ان کے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ خوف زدہ ہو کر واپس اپنے گھروں کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ کچھ جی دار لوگ وہیں ٹھہر کر یہ تماشہ دیکھتے بھی رہے۔انجنوں کے انگریز ڈرائیور بھی اس سفر کے دوران بہت شوخے ہو گئے تھے، وہ نہ صرف اس دوران مسلسل سیٹیاں بجاتے رہے۔ بلکہ تھوڑی تھوڑی دیربعد بھاپ کے اخراج کے لیے والو  (valve)بھی کھول دیتے تھے جس سے گھڑگھڑاہٹ کی خوفناک آواز نکلتی تھی جو دو گاؤں چھوڑ کر بھی سنائی دیتی تھی۔ تین انجن لگے ہونے کے باوجود چونتیس کلو میٹر کا  یہ  فاصلہ طے کرنے میں گاڑی کو پون گھنٹہ لگ گیا تھا۔
 جب پہلی ریل چل نکلی، پھرتو گویا ہندستان میں جگہ جگہ پٹریوں، ریلوے اسٹیشنوں، پلوں اور سرنگوں وغیرہ کے جال بچھتے چلے گئے اور آئندہ تین چاربرس میں ملک کے تقریباً تمام اہم شہر اور قصبے ریل کے ذریعے آپس میں ملا دئیے گئے۔ جگہ جگہ اس تعمیراتی کام کے دوران ہندوستان کے غریب باشندوں کو بے تحاشہ روزگار ملا اور وہ جھولیاں اْٹھا  اْٹھا کر انگریزوں کو دعائیں دینے لگے۔
کلکتہ کی طرف، جہاں ابھی تک بڑے دریاؤں پر ریلوے کے پْل نہیں تعمیر ہوئے تھے، تووہاں اْن کو عبور کرنے کے لیے پوری ریل گاڑی کو دیوہیکل دخانی کشتیوں میں لاد کر دریا پار کروا دیا جاتا اور اسے دوسرے کنارے پر بچھی ہوئی پٹری پرچڑھا دیا جاتا جو ریل گاڑی کو لے کر کلکتہ کی طرف چلی جاتی تھی۔ ایسے ہی عارضی انتظامات ہندوستان میں کئی اور مقامات پر بھی کیے گئے تھے  جس سے ریل گاڑی رکی نہیں اور نئی نئی پٹٹریاں ساتھ بچھتی چلی گئیں - اسی دوران اسٹیشنوں، پلوں اور دوسرے اہم مقامات پر تعمیراتی کام بھی جاری رہا۔رفتہ رفتہ چونتیس کلومیٹر سے شروع ہونے والی ریل کی پٹری کو اگلے تیس برس میں چودہ ہزار کلومیٹر تک پہنچا دیا گیا  اور تقسیم ہند کے موقع پر یعنی انگریزوں کی واپسی کے وقت تک ہندوستان میں ریل کی پٹریوں کی مجموعی لمبائی ستر ہزار کلومیٹر تک جا پہنچی تھی۔
1947ء میں جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو اس کے حصے میں بھی کوئی آٹھ ہزار کلومیٹر طویل ریلوے لائن آئی تھی، جو پاکستانی قوم کی نالائقیوں، ناکام پیش بندیوں اور بدعنوانی کے سبب تہتر برس گزر جانے کے باوجود آج بھی تقریباً اتنی ہی ہے۔ جب کہ ہندوستان نے اپنی  باسٹھ ہزار کلومیٹر طویل پٹریوں کو مسلسل بڑھایا اور اس عرصے میں اسے دوگنا کر لیا ہے۔ آج وہاں ریل کی پٹریوں کی مجموعی لمبائی تقریباً  ایک لاکھ پچیس ہزار کلو میٹر تک پہنچا کر انھوں نے اپنے ریلوے کے نظام کو اتنا وسیع و عریض اورمضبوط کر لیا ہے کہ اب وہاں روزانہ تیرہ ہزار کے قریب مسافر گاڑیاں اور لگ بھگ نو ہزار مال گاڑیاں مختلف اطراف میں چلتی ہیں۔ہندوستان میں ریلوے کیساڑھے سات ہزار اسٹیشن ہیں اور کوئی ڈھائی کروڑ مسافر روزانہ کی بنیاد پر ان گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں اور کروڑوں ٹن سامان ہر روز  مال گاڑیوں سے آتا جاتا  ہے۔  ہندوستان ریلوے میں کوئی چودہ لاکھ کے لگ بھگ ملازمین ہیں اور یہ اب روس اور چین کے بعد دنیا کی تیسرے نمبر کی بڑی ریلوے  بن چکی ہے۔ اور دوسری طرف اگر اس کا پاکستان کی ریلویسے تقابلی اور تناسبی جائزہ لیا جائے تو تقسیم ہند میں پاکستان کے حصے میں آنے والی میل، ایکسپریس اور پسنجر گاڑیوں کی  ایک معقول تعداد یعنی کوئی پانچ سو کے لگ بھگ تھی۔ جومختلف مرکزی لائنوں اور برانچ لائنوں پر دوڑتی پھرتی تھیں۔ پھر جب جگہ جگہ سڑکیں تعمیر ہوئیں اور اور اندرون ملک سفر سہل ہوا تو لوگ ریل گاڑی کے بجائے بس کے سفر کو ترجیح دینے لگے۔ ایسے حالات میں زیادہ تر برانچ لائنوں پر چلنے والی گاڑیاں منافع بخش نہ رہیں اور اسی خسارے کو جواز بنا کر ایک ایک کرکے ایسی بہت سی لائنیں بند کر دی گئیں۔ اس جبری بندش کے بعد پاکستان میں ریل گاڑیوں کی تعدادمحض ڈھائی سو رہ گئی تھی۔ اس صدی کی پہلی و دوسری دہائی میں حالات کے ہاتھوں مزید ہزیمت اٹھا کر یہ اب صرف ایک سو بیس گاڑیوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، جوہندوستان میں چلنے والیمجموعی گاڑیوں کا ایک فیصد بھی نہیں ہے۔ اس سے پاکستان ریلوے کی زبوں حالی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔  (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -