شکار۔۔۔۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان۔۔۔قسط نمبر 39
امریکہ کے جنگلوں میں مچھروں سے مقابلے کے نوعیت بہت کم ہی آئی ہے ..... اس کا سبب یہ ہے کہ امریکہ میں شکار کا زمانہ ایک مقررہ مدت ہے ..... جو صرف سردیوں میں آتا ہے ..... مثلاً ..... الک کا شکار ..... کو لوریڈو ..... مانیٹا ..... وایومنگ وغیرہ میں اکتوبر میں کھلتا ہے ..... صرف دس روز کے لیے ..... متذکرہ بالا ریاستوں میں اکتوبر کا مہینہ اچھی خاصی سردی کا ہوتا ہے ..... نومبر کے وسط سے برف باری شروع ہوجاتی ہے .....
اکتوبر میں ان شکار گاہوں میں ..... جو اکثر سطح سمند رکے سے آٹھ نوہزار فٹ کی بلندی پر ہیں ..... سردی ہوتی ہے ..... دن کا ٹمپریچر پچاس پچپن ڈگری فارن ہائیٹ اور رات کا درجہ حرارت پینتس چالیس ڈگری تک ہوتا ہے ..... !
اتنی سردی میں مچھر نہیں ہوتے .....لیکن ..... اوکلا ہو مامیں عین گرمی کے زمانے میں ..... میرا مطلب نسبتاً گرم موسم میں بعض شکار کھیلتے ہیں ..... مثلاً ستمبر کی پہلی تاریخ سے فاختہ کا شکار کھلتا ہے ..... اور ان دنوں میں مچھر ہوتے ہیں .....
بہرحال ..... پلاسٹک کے بیگ نے خاصا تحفظ دیا ..... درخت کی سخت کھردری شاخوں پر کسی گدی یا نرم شئے کی عدم موجودگی میں بیٹھنے کی اذیت کا بیان ہی مشکل ہے ..... دو اڑھائی گھنٹے گزارنے کے بعد میں مچھروں کو قطعاً بھول گیا ..... رانوں اور کولھوں کی فریاد کرتی ہوئی ہڈیوں کی فکر میں لگ گیا ..... بار بار پہلو بدلنا ..... ہلنا جلنا حرکت کرنا ..... یہ سب شکار کو خراب کرنے والی حرکات ہیں ..... عام طور سے شیر درخت پر ساکت جامد بیٹھے ہوئے شخص کو شناخت نہیں کر سکتا ..... لیکن ذراسی حرکت بھی اس کو متوجہ کرنے اور ہوشیار کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے .....
درخت پر بیٹھے ہوئے انسان سے ہر جانور سخت خوفزدہ ہوتا ہے ..... ! کسی مچان پر نرم شئے کے بغیر درخت کی سخت اور سرد شاخ پر بیٹھنے کی ضرور کم ہی ہوتی ہے ..... اس روز میں تنہا تھا ..... اور کوئی ایسی شئے موجود نہیں تھی جو استعمال کی جاتی ..... انتظار طول کھینچتا گیا ..... انتظار کے دوران میں کبھی تو غزل کہنے میں مشغول ہو جاتا ہوں ..... کبھی جو کچھ قرآن پاک کی سورتیں زبانی یاد ہیں ان کی تلاوت کرتا رہتا ہوں ..... ایک ایک سورت کئی کئی بار تلاوت کرتا ہوں ..... غزل کہنے میں خاصا وقت لگتا ہے لیکن یہ سب اطمینان اور آرام سے بیٹھے ہونے کی صورت میں ممکن ہے ..... جس طرح میں بیٹھا تھا اس حالت میں مجھے یہ بھی یاد رکھنا مشکل تھا کہ میں وہاں کس لیے بیٹھا ہوں ..... !
وہ جو کسی نے کہاہے .....
کباب سیخ کی مانند ہم کروٹ بدلتے ہیں جو
جل اٹھتا ہے پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں
اس کی مثال میں تھا ..... اور ظہر کے وقت تک میری اذیت عبرتناک حد تک بڑھ گئی تھی .....میں اب سوچ رہا تھا کہ اس نامعقول جگہ بیٹھنے سے تو بہتر ہے نیچے اتر کر میں ان گھاٹیوں کی طرف چل پڑوں جدھر شیر کی رہائش تھی اور جدھر سے صبح میں اس کی آواز سن چکا تھا.....
ظہر کی نماز وقت قصر پڑھنے کی بعد میں ابھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہوئے ہی تھے کہ سامنے گھاس کے قطعے میں جنوبی جانب ..... ایک کوتاہ قدر درخت پر سے کئی پرندے پھڑپھڑا اڑے اور شور کرنے لگے ..... میں نے دعا ختم کی ..... اور نزدیک کی شاخ کو ذرا جھکا کر اپنا رخ اس طرح کیا کہ وہ حصہ جدھر پرندے ڈر کر اڑے تھے سامنے رہے ..... میرے لیے بیٹھنا مشکل ہوگیا تھا ..... لہٰذا میں نہایت آہستگی کے ساتھ ان شاخوں پر کھڑا ہوگیا ..... رائفل اٹھا کر نشانے کی جانب سیدھی کرلی .....
خوش قسمتی سے ..... ایک چھوٹی سی شکستہ شاخ ایسی بھی مل گئی جس پر میں رائفل کی نال رکھ کر نہایت جما ہوا فائر کر سکوں ..... کھڑے ہونے سے ہڈیوں میں جو اذیت ناک درد تھا اس سے نجات مل گئی .....
جدھر پرندے اڑے تھے وہ حصہ میری نظر سے گھاس نے چھپا رکھا تھا ..... چھوٹے درخت بھی تھے میں اس طرف گیا تو نہیں تھا لیکن درخت کی بلندی سے اندازہ ہوا اگر شیر اس سمت آئے بھی تو اس کے لیے نشیب میں اترنے کے مواقع بھی ہیں اور اگر اس نے جنگل کی طرف جانے کا ارادہ کرلیا تو میرے درخت کی حدود میں آنے کی کوئی وجہ نہیں ..... حوصلہ شکن بات تھی .....
میں اب اسی طرف متوجہ تھا ..... لیکن میری ہمیشہ سے عادت ہے کہ اپنے اطراف سے باخبر رہتا ہوں۔ میں جنگل میں تنہا ہوتا ہوں لیکن مجھ پر کسی طرف سے بے خبری میں کوئی جانور یا انسان حملہ نہیں کر سکتا ..... البتہ اگر کوئی قابل اعتماد ساتھی موجود ہو تو اس کو عقب کی نگرانی سپرد کر کے شکار کی طرف توجہ کرتاہوں .....
ونڈرا کے معاملے میں یہی ہوا کہ میں نے اس پر اعتماد کر لیا اور اس کے سابقہ قصے سن کر سوچا کہ وہ چوکنا رہنے والاآدمی ہے ..... اور یہی سہو ہوگیا..... ونڈرا بالکل احمق تھا ..... اس کے ساتھیوں نے بھی اس کے بارے میں یہی کہا تھا ..... شیر سے وہ کیسے اس وقت تک محفوظ رہا یہ معمہ حل نہیں ہو سکا..... !
میں نے ایک دفعہ گھوم کر ایک ثانئے کے لیے درخت کے شمال کی طرف دیکھا اور حیران رہ گیا ..... وہاں بھی گھاس کے اندر حرکت ہوئی اور ٹھہر گئی ..... میں نظر کا دھوکہ نہیں سمجھ سکتا تھا ..... آدم خور شیر کے شکار میں اگر کسی کی نظر دھوکا کھانے لگے تو اس کو شکار سے فوراً واپس آکر گھر میں بیٹھ جانا چاہیے .....
میں یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ پرندوں کے اڑنے اور گھاس میں آخری حرکت دیکھنے کے درمیان اتنا کافی وقفہ ضرور تھا کہ شیر وہاں سے چل کر دوسرے نقطے تک آجائے ..... مجھے ایک بار پھر اپنی نشست ..... یا یوں کہنا چاہیے ..... زاویہ بدلنا پڑا ..... اب میں اس طرف رخ کیے تھا جدھر حرکت معلوم ہوئی تھی ..... فی الحال ادھر بالکل سکوت تھا ..... کوئی ایسا پرندہ ..... یا بندر بھی نہیں تھا جس کو دیکھ کر کچھ قیاس کیا جا سکتا .....
اس حالت میں غالباً بیس منٹ گزرے ہوں گے ..... اس زاویے پر بھی مجھے رائفل ایک ٹوٹی شاخ کے ٹھٹ پر رکھنے کا موقعہ مل گیا ..... میرے درخت سے حرکت والے نقطے تک کوئی سو گز کا فاصلہ ہوگا ..... یا کسی قدر زیادہ ..... سوا سو گز سے زائد ہر گز نہیں تھا .....
تین سو پچھتر ہالینڈ اینڈ ہالینڈ میگنم ..... سیفٹی کیچ کھلا ہوا ..... نظر دیدبان کے نزدیک ..... انگلی ٹریگر پر ..... اور سانس رکنے کو تیار..... یہ وقت بھی کیسا عجیب وقت ہوتا ہے ..... دل و دماغ کی ساری صلاحیتیں صرف ایک مقصد پر مرکوز ہوجاتی ہیں ..... ساری دنیا تقریباً محو ..... اس وقت کچھ یاد نہیں ہوتا ..... واقعی یہ ہے کہ ہدف کے سوا کچھ نظر بھی نہیں آتا اور یہ کہ ارادتاً کچھ اور بھی دیکھنے کی کوشش کی جائے ..... یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ نشانہ اسی وقت یقینی اور قابل اعتبار ہوسکتا ہے جب صرف ہدف کو دیکھنے کی عادت ہوجائے ..... اگر ہدف کے ساتھ کچھ اور بھی نظر آتا رہا تو اس کو بے توجہی کہا جا سکتا ہے .....
مجھ سے ڈبلن ٹائمز DUBLIN TIMESکیلفورنیا کے نمائندے ہنری نے سوال کیا تھا آدم خور شیر بہت زیادہ چالاک کیسے ہوجاتا ہے ؟میرا جواب تھا ..... چور کس لیے بہت چالاک ہوجاتا ہے ..... شیر جانتا ہے ..... جانوروں کو ہلاک کرنے میں تو طاقت ہے..... لیکن انسان کے درپے ہوتے ہی وہ اپنے آپ کو چور سمجھنے لگتا ہے ..... اور چور کی فطر ت میں بزدلی اور خوف لازمی ہوتے ہیں ..... یہی سبب ہے کہ شیر ..... آدم خوری شروع کرتے ہی ممکنہ چالاکی اختیار کرنا سیکھ جاتا تھا .....
میں نے اپنے سر سے پلاسٹک کا وہ خول اتار دیا تھا جو مچھروں سے محفوظ رہنے کے لیے چڑھایا تھا ..... اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک مچھرنے میرے کان کے قریب آکر اعلان جنگ کیا ..... میں نے جنبش نہیں کی ..... لیکن فوراً ہی گردن کے قریب حملے کا احساس ہوتے ہی میں نے دفاعی ضرب لگاہی دی ..... اور خوب اتفاق کہ حملہ آور کو نست و نابود بھی کر دیا ..... ہاتھ پر اس کی خون آلود لاش چپکی تھی..... یہ حملہ بہت نا وقت ہوا ..... لیکن اس کے بعد عافیت رہی .....
میری نظریں اس مقام پر منجمد تھیں جہاں حرکت نظر آئی تھی ..... میں جانتا تھا کہ شیر ہے تو اس کو نکلنے میں تامل یوں نہیں کہ مجھے دیکھ لیا ہے ..... تامل کی وجہ اس کی جبلت کی چالاکی تھی ..... آدم خور شیریوں اچانک سر میدان کیسے نکل آئے ..... درخت پر بیٹھے ہوئے آدمی کو شیر نہ تو دور سے دیکھ سکتا ہے نہ درخت اور انسان میں تمیز کر سکتا ہے اس لیے کہ شیر کی نظر قریب میں ہوتی ہے ..... تاوقتیکہ آدمی کوئی حرکت نہ کرے ..... !
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)